نکاح

500

نکاح سے کنبے ،محلے ،گائوں،قصبے ،شہر اور ملک بنتے ہیں،نکاح ہی سے رشتے وجود میں آتے ہیں

اسلام کی تعلیمات میں عبادات اور معاملات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ عبادات ان اعمال کو کہتے ہیں جو بندہ رضائے الٰہی کے لیے انجام دیتا ہے اور یہ خدا اور بندے کے درمیان ہوتے ہیں مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور نیکی کے دوسرے کام۔ معاملات اُن اعمال کو کہتے ہیں جو بندوں کے مابین یا بندوں کے درمیان ہوتے ہیں جیسے تجارت، لین دین، خرید و فروخت صنعت و حرفت وغیرہ۔

نکاح ایک ایسا عمل ہے جو عبادت بھی ہے اور معاملہ بھی۔ عبادت اس لیے ہیں کہ اس کی تاکید قرآن و سنت میں کی گئی اور یہ انبیائے کرام کی سنت ہے۔ نکاح اس لحاظ سے معاملہ ہے کہ اس میں مرد عورت کو مال کی ایک مقدار ادا کرتا ہے جس کے عوض عورت اس کے لیے حلال ہوتی ہیں۔ مرد کے دیے گئے مال کو ’مہر‘ کہتے ہیں۔ مرد کو مہر دینا اور عورت کا اسے قبول کرکے جائز ازدواجی تعلقات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کا اقرار کرنا ایک طرح کا لین دین ہے۔ اسی لیے نکاح معاملہ کہلاتا ہے۔

نکاح میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان میں پہلی چیز ایجاب و قبول ہے۔ ایجاب و قبول نکاح کے ارکان ہیں مرد اور عورت جب نکاح کے لیے رضا مندی اور اس کی منظوری کا اظہار زبان سے کرتے ہیں تو اسے ’’ایجاب و قبول‘‘ کہتے ہیں جسے بعض لوگ ’’حجاب‘‘ کہتے ہیں۔ حجاب پردہ کو کہتے ہیں۔ صحیح اصطلاح ’’ایجاب و قبول‘‘ ہے۔ ایجاب و قبول نکاح کے لیے ضروری ہے جس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اگر لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے بغیر مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ کرلیں جیسا کہ وادیٔ کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک بری رسم چلی ہے‘ تو نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ ایجاب و قبول صیغہ ماضی میں ادا کیے جائیں یا دونوں میں سے ایک ماضی میں اور دوسرا حال میں ہو۔

مستقبل کے صیغے میں ایجاب و قبول ہو تو نکاح منعقد نہ ہوگا۔ ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا لازمی ہیں۔ دوسری چیز نکاح کے لیے گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ نکاح دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں منعقد ہونا چاہیے۔ گواہوں کا مسلمان ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا اور آزاد ہونا لازمی ہے۔ غیر مسلم، نابالغ پاگل اور غلام گواہ نہیں ہو سکتے۔ جائداد، دکان اور دوسرے دنیاوی معاملات میں عدالت کے روبرو غیر مسلم گواہی دے سکتے ہیں مگر نکاح اور دوسرے دینی معاملات میں گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

نکاح میں تیسری اہم چیز مہر ہے۔ قرآنِ حکیم میں آیا ہے کہ ’’عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو۔‘‘ (سورہ النساء :4) اسلام سے پہلے بھی عربوں میں مہر کی رسم موجود تھی۔ وہ لوگ درہم، دینار، مثقال میں مہر باندھتے تھے یا بعض اوقات اونٹ بھی مہر مقرر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر ابن اسحاق کے بقول اٹھائیس برس تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار خاتون تھیں۔ ابوطالبؓ نے خطبہ نکاح پڑھا۔ مولانا عبدالشکور لکھنوی کی تحقیق کے مطابق اکیانوے تولے چھ ماشے ایک رتی سونا مہر مقرر ہوا۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق مہر میں بیس اونٹ مقرر ہوئے۔ یہ ہمارے حساب سے بہت بڑی مقدار ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ام المومنین بے حد مالدار اور دولت مند تھی۔ امہات المومنین میں حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر 72 تولہ 11 ماشے چاندی تھا جو ہمارے زمانے کے نرخ کے مطابق تقریباً 66 ہزار روپے بنتے ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر بھی یہی تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بھی یہی مہر منقول ہے۔ امہات المومنین میں سب سے زیادہ مہر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا۔ آج جسے ایتھوپیا کہتے ہیں اسے عرب ابی سینا اور ’’حبش‘‘ کہتے تھے۔ یہ مکہ کے ستائے ہوئے مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ تھی۔ مکہ کے مظلوم مسلمانوں نے حبش کی طرف دو ہجرت کی تھی اسی احسان کی یاد میں مسلمان نے حبش پر کبھی فوج کشی نہیں کی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ حبش میں ان کا شوہر مرتد ہوگیا تو نکاح ٹوٹ گیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش کے سردار حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر تھیں۔ عمرو بن امیہ ضمیری نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام دیا تو انہوں نے سونے کے دو کنگن اسے انعام میں دیے۔ حبش کے بادشاہ نجاشی نے خطبہ نکاح پڑھا۔ نجاشی نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر 104 تولہ سونا مقرر کیا جو جو امہات المومنین میں سب سے زیادہ ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہر کو بحال رکھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ مہر نجاشی نے مقرر کیا جو بادشاہ تھے اور بادشاہ کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہوتی۔ نجاشی نے 9ھ میں انتقال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ان کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا۔ امہات المومنین میں سب سے کم مہر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے۔ ان۔ کا مہر دس درہم تھا۔ فقہ حنفی میں دس درہم مہر کی سب سے کم مقدار ہیں۔ اس سے کم مقرر نہیں کی جا سکتی ہیں۔ نصاب سرقہ بھی دس درہم 34 گرام چاندی کے برابر ہے۔ جس کی مالیت آج کم سے کم 2380 روپے بنتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنات طیبات میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر مٹیرک سسٹم کے لحاظ سے ایک کلو 531 گرام چاندی ہے جو آج کے نرخ کے حساب سے ایک لاکھ پانچ ہزار کے برابر ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنا مکان بھی نہیں تھا۔ اُن کی ذرہ 370 درہم میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بولی میں خریدی۔ بعد میں انہوں نے ذرہ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واپس کی۔ چار سو مثقال مہر مقرر ہوا جو مٹیرک سسٹم کے لحاظ سے ایک کلو 750 گرام چاندی کے برابر ہے جس کی مالیت آج کے بھائو سے ایک لاکھ 22 ہزار پانچ سو روپے بنتی ہے۔

مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے مگر مہر کی آخری حد نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں ’’قنطار‘‘ کا لفظ آیا ہے ماہرین لغت کے مطابق سونے کی وہ مقدار جو چودہ اونٹوں پر بار ہوسکے یا پہاڑ جتنا سونا یا ڈھیر سارا مال‘ یہاں مراد قنطار سے مالِ کثیر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ مال کی حد جو مہر میں دی جا سکے مقرر کرنی چاہی۔ ایک روایت کے مطابق وہ چالیس اوقیہ سے زائد مہر پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مسجد میں خطبہ دیا اور اپنے ارادے کا اظہار کیا تقریر سن کر ایک عورت کھڑی ہو گئی اور قرآن حکیم کی آیت تلاوت کی ’’اگر تم نے عورتوں کو قنطار ( ڈھیر سارا مال) بھی دیا تو اس میں کچھ واپس نہ لو۔‘‘ (سورہ النساء :20)

صحابیہؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس کی حد مقرر نہیں کی تو آپ کو کہاں سے یہ اختیار ملا؟ اسلام میں اظہار رائے کی آزادی کا تصور کس قدر واضح ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورت کی زبان سے قرآن حکیم کی آیت سن کر یہ کہتے ہوئے نیچے بیٹھ گئے کہ ’’عورت نے درست بات کہی مرد غلطی کرگیا۔‘‘

چالیس اوقیہ 4898۔88 گرام چاندی کے برابر ہے۔ جس کی مالیت 342921۔6 روپے بنتی ہے۔ ایک روایت میں میں 40 اوقیہ کے بجائے بارہ اوقیہ منقول ہیں۔ امہات المومنین اور بنات طیبات کے مہروں کے بارے میں فقہائے کرام کے یہاں جو دوسری روایات آئی ہیں اُن کے مطابق کم سے کم موجودہ بھاؤ کے لحاظ سے=/2380 روپے اور زیادہ سے زیادہ =/952560 روپے مہر مقرر کیا گیا ہے۔

مہر کی بڑی اہمیت ہے اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بیان کیا ہے‘ یہ ایک لازمی عطیہ ہے۔ اس میں عورت کے احترام اور شرف کا بھی اظہار ہے اور نکاح کی عظمت کا بھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس نے مہر کے بدلے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ تھی کہ اسے ادا نہیں کرے گا‘ وہ زانی ہے اور جس نے قرض لیا اور نیت یہ تھی کہ اسے واپس نہیں کرنا ہے وہ چور ہے۔

مہر کا منسوخ کرنا زوجین کے اختیار میں نہیں ہے۔ مہر مقرر کر کے عورت اس کے کچھ حصے کو معاف کر سکتی ہیں یا میاں بیوی مقرر کرنے کے بعد باہمی رضامندی سے اس میں حذف و اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہدایہ میں آیا ہے کہ مہر شرعی طور پر واجب ہے تاکہ محل نکاح کے شرف کا اظہار ہو۔ ابن رشد مالکی نے ’ہدایہ المجتہد‘ میں لکھا ہے کہ ’’زوجین کا اس کے استعاط پر (یعنی یہ کہنا کہ نہ مہر لیں گے اور نہ دیں گے) راضی ہونا جائز نہیں کیوں کہ مہر عبادت کے مشابہ ہیں۔‘‘

نکاح کے بارے میں یہ چند گزارشات اس لیے کی گئیں تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوسکیں اور نکاح کی اہمیت اور عظمت واضح ہوجائے جو انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد ہے۔ اسی سے کنبے، محلے، گاؤں، قصبے، شہر اور ملک بنتے ہیں۔ نکاح ہی سے رشتے وجود میں آتے ہیں۔ قومیت کے جذبات جنم لیتے ہیں‘ خونی قرابتیں پیدا ہوتی ہیں اور خون وہ چیز ہے جو پانی سے گاڑھا ہوتا ہے۔

حصہ