مسلم معاشرے میں طلاق اور خلع کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح

1012

آج پوری دنیا میں خاندانی نظام ابتری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مغربی دنیا نے تو خاندانی نظام کے خوش گوار رحمت و برکت سے خود کو آزاد کر لیا ہے اور اب ان کے یہاں رشتوں کا تقدس بھی پامال ہو چکا ہے۔ مگر الحمدللہ آج بھی مسلم معاشرے میں نہ کہ رشتوں کا تقدس برقرار ہے بلکہ خاندانی نظام بھی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ چونکہ یہ دنیا اب انسانی مٹھی میں مقید ہو کر رہ گئی ہے لہٰذا پلک جھپکتے انگلی کے ایک اشارے پر ہر شخص مشرق سے مغرب تک کے حالات اور تبدیلی سے باخبر ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سرعت پذیر ابلاغی ذرائع انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے مختلف version ہیں۔ یہ زود اثر ذرائع ابلاغ ہر عمر کے شخص بالخصوص بچوں کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔

اسلامی شریعت میں طلاق دینے کا اختیار شوہر کو اور خلع لینے کی اختیار بیوی کو حاصل ہے یہ عمل جائز ہونے کے باوجود ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ طلاق اور خلع عام حالات میں نہیں ہوتے بلکہ اس کی بنیادی وجوہات کے علاوہ جز وقتی ناراضی اور غصہ بھی ہوتا ہے۔ جب شرعی طریقے سے مرد اور عورت ازدواجی رشتے میں بندھتے ہیں تو خاندان بھی آپس میں ملتے ہیں‘ میاں بیوی کے ساتھ ساتھ دو خاندان میں پیار و محبت کے رشتے قائم ہوتے ہیں لیکن جب طلاق اور خلع کی نوبت آتی ہے تو یہ محبت دشمنی اور رنجشوں میں بدل جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ مقدمہ بازی کی نوبت بھی آجاتی ہے۔

جب نکاح مسنونہ ہوتا ہے تو نکاح خواں جو خطبہ مسنونہ پڑھتا ہے اس میں سورہ آل عمران ، سورہ الناس اور سورہ احزاب کی آیتیں شامل ہیں۔ ان آیات میں پانچ مرتبہ تقوے کا ذکر آیا ہے جو اس نئے جوڑے کو پیغام دیتا ہے کہ تمہاری خوش گوار ازدواجی زندگی کا دارومدار اس پر ہے کہ تم اگر اللہ سے ڈرتے ہوئے حقوق زوجین ادا کرو گے تو یہ نعمت میسر ہوگی ورنہ نہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابلیس پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے شیاطین سے ان کی کارکردگی رپورٹ لیتا ہے۔ کوئی دو انسانوں کو آپس میں لڑانے، کوئی کسی برائی میں مبتلا کرنے کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ مگر جب ایک شیطان یہ کہتا ہے کہ آج میں نے فلاں میاں بیوی میں علیحدگی کرا دی ہے تو یہ سن کر شیطان بہت خوش ہوتا ہے اور اس کو انعام دیتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ہر مسلمان کو سمجھ آجانی چاہیے کہ طلاق یا خلع جائز ہونے کے باوجود کتنا ناپسندیدہ عمل ہے جس سے شیطان کو بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اپنی بیویوں سے حُسن سلوک کیا کرو اور تم میں سے میں سب سے بہتر سلوک کرنے والا میں ہوں۔‘‘

آپؐ نے فرمایا ’’وہ بیوی سب سے اچھی ہے جس کو دیکھ کر اس کا شوہر خوش ہو جائے۔‘‘

بیوی کا یہ فرض ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے گھر ، بستر اور اولاد کی نہ صرف حفاظت کرے بلکہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نہ نکالے اور نہ کسی کو گھر میں آنے دے، نہ اس کی کوئی چیز کسی کو دے۔

اللہ نے مردوں کو عورتوں کا قوام بنایا ہے۔

دجالی میڈیا کے سحر میں مبتلا مغرب جو کہ زر پرستی کے ساتھ ساتھ جسم پرست بھی ہو چکا ہے‘ اس نے اقوامِ متحدہ اور عالمی شیطانی قوتوں کے ذریعے ’’حقوق نسواں‘‘ کے نام پر اور عورتوں کی آزادی اور مردوں کی برابری کے نام پر اس صنف نازک کو پھر ایک بار اسلام سے پہلے دور جاہلیت کے عمیق غار میں گرا کر‘ جنس فروخت بنا کر بازاروں میں بیٹھا چکا ہے۔ گھر کی ملکہ کو ہوٹلوں، ہوائی جہازوں، فیکٹریوں، شاپنگ مالز میں نمائشی کردار دے کر اس سے اس کی توقیر، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا قابلِ احترام درجہ چھین لیا ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا شیطانی نعرہ اور مطالبہ دے کر حیا دار مسلم معاشرے کے تمام قدروں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ چوں کہ آج کے ہر رنگ و نسل اور ماورا جغرافیا کا رہنے والا آدمی بدلتی دنیا کے ساتھ خود کو بدل رہا ہے۔ دینی اور اخلاقی قدریں ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہیں لہٰذا اس کے اثرات سے مسلم معاشرہ بھی بری طرح متاثر ہے۔ مسلم معاشرے میں طلاق و خلع کی خوف ناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح کے چند بنیادی اور کچھ غیر اور سطحی وجوہات کو پیش کرنا مقصود ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ قائم کرنے کا جو دائمی اصول بیان فرمایا وہ یہ ہیں۔ حسن، مال اور تقویٰ مگر آپ نے تقویٰ کو اوّلیت دی۔

آج تقویٰ کو بالائے طاق رکھ کر حسن اور مال کو پیشِ نظر رکھا جا رہا ہے یہ جیسے ہی کمی بیشی کا شکار ہوتا ہے رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ عمر اور بے جوڑ شادیاں بھی علیحدگی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ قناعت پسندی نہیں بلکہ فضول خرچی نے گھروں میں میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کے اسباب پیدا کر دیے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ عورت اور مرد کی ازدواجی ناآسودگی بھی ہے۔ عورت مرد کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتی ہے اور اس معاملے میں ایک دوسرے کی عزتِ نفس پامال ہوتے ہیں اور علیحدگی کی نوبت آجاتی ہے۔بیوی کے میکے اور والدین کی بے جا مداخلت بھی آج کا ایک اہم مسئلہ ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال نے میاں بیوی کے درمیان شک و شبے کی نئی بنیادیں رکھ دی ہیں اور زیادہ تر علیحدگی کے واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوّا کو سب سے پہلے رشتہ ازدواج میں باندھا اور نسل انسانی کا حلال اور خدا پسند سلسلہ قائم کیا۔ آسمانوں پر قائم ہونے والا یہ رشتہ آدم اور حوّا کی پوری زندگی قائم رہا۔ مگر آج یہ پاک اور محبتوں بھرا رشتہ زمین پر بکھر رہا ہے اور ہوس پرستی کا شکار ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورت اس قدر بے توقیر تھی کہ معاشرے میں اس کی حیثیت اشیائے تفریح سے زیادہ نہ تھی۔ اسے نہ کوئی حقوق حاصل تھے اور نہ ہی عزت حاصل تھی۔

کس درجہ بے توقیر تھی دنیا میں یہ عورت
ان سب کو عزت بھی محمدؐ سے ملی ہے

اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا جس کی یہ حق دار تھی۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے اعلیٰ اور با عزت مقام عطا کیا اور نہ صرف برابری کے حقوق دیے بلکہ جائداد میں حصہ بھی مقرر کیا۔ مگر شیطان کے پُرفریب نعروں اور حقوق نسواں کے اخلاق باختہ قوانین کے نام پر مسلمان خواتین بھی اپنے آپ کو تباہی کے راستے پر ڈال رہی ہیں۔ اپنی پُرسکون ازدواجی زندگی کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ آج پوری مسلم دنیا اس کے لپیٹ میں ہے۔ اوّل تو نکاح کی شرائط‘ جہیز کی اور گلیمر والی زندگی کی تلاش میں لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں اپنی عمر گزار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ مطلقہ‘ خلع یافتہ اور بیواؤں کی تعداد ان گنت ہے۔ یہ شرافت میں متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں یا پھر غلط راستے پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر لیتی ہیں۔

ٹی وی کے پروگرام میں ایک دانش ور خاتون سے اینکر نے پوچھا کہ بچیوں کی شادیاں کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا لڑکے شادی کریں گے تو لڑکیوں کی شادی ہوگی۔ نیز انہوں نے اسلام میں کثرتِ ازدواج کی اجازت میں رکاوٹ کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ جو ہندوستان اور پاکستان کے ایک بڑے حصے میں شجر ممنوع ہے بلکہ قابل ملامت سمجھا جاتا ہے بلکہ بیواؤں کی شادی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسلام میں سب سے پہلے خلع کا واقعہ ثابت بن قیس کی اہلیہ کا ہے۔ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ ’’اللہ کے رسولؐ میرا نباہ ثابت کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں بلکہ میں مسلمان ہو کر احسان فراموش نہیں بن سکتی۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کیا تم ثابت کے باغ کو واپس کرنا چاہتی ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں‘‘ آپؐ نے کہا ’’ٹھیک ہے واپس کردو‘‘ اور ثابت بن قیس کو کہا کہ ’’اس کو طلاق دے دو۔‘‘

آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم کو اپنی بیوی کی کچھ باتیں ناپسند بھی ہوں اس کے باوجود تم اس کے ساتھ نبھا کی کوشش کرو۔ اور یہی تلقین عورتوں کو بھی کی گئی۔

آج سے تین دہائی قبل طلاق اور خلع کی شرح تقریباً12 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 30 تا 35 فیصد ہے جو ہندوستان‘ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے شہرو ں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ شہروں میں رہنے والے لوگوں کے بودوباش میں دیہات کے مقابلے میں زیادہ جدت پسندی اور نئی تہذیب سے آشنائی ہے جس کے برے اثرات صاف نظر آرہے ہیں۔ عدم برداشت، مغربی فیشن، میڈیا کے ذریعے نہ حاصل ہونے والی زندگی کی آسائشوں کی نمائش وغیرہ۔

دوسری خطرناک وجہ نشے اور جوئے کے عادی شوہر ہیں جو اپنی بیویوں اور اولاد کی پرورش کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے عورتیں خلع لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ان وجوہات کے علاوہ کوئی عورت بلاجواز خلع لیتی ہے یا کوئی شوہر طلاق دیتا ہے اس کے لیے سخت وعید ہے۔ اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔‘‘ یہ رنگ جتنا گہرا ہوگا دنیا اتنی ہی حسین ہوگی اور اس کا حسن اس وقت گہن زدہ ہو جاتا ہے جب میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے۔

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں

بیوی کے بغیر شوہر اور شوہر کے بغیر بیوی ادھوری ہے۔

دل کا سکون چین کے اسباب لے گئی
رفیقہ میری نیند میرے خواب لے گئی
ہنسنا تو درکنار در و دیوار ہیں خاموش
وہ گھر سے کیا گئی کہ چین کے اسباب لے گئی

راقم کے یہ وہ جذبات ہیں جو اہلیہ کے انتقال پر اشعار کی صورت ظاہر ہوئے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ دنیا اس کے لیے جنت ہے جس کو یہاں تین چیزیں مل جائیں نیک اور صالح بیوی، نیک اور صالح اولاد اور نیک و بہی خواہ پڑوسی۔‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کی جدائی کبھی نہیں بھولے۔اپنی دنیا کی جنت کو خلع اور طلاق کے ذریعے جہنم نہ بناؤ میرے مسلمان بھائیو اور بہنو۔

حصہ