افغانی دریا بمقابلہ پاکستانی ہاؤسنگ اسکیمیں:
جب مجموعی اقدار مادی ہوجائیں تو لازمی بات ہے کہ اخلاقیات ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس ہفتے کی گفتگو کا آغاز اس ٹوئٹ سے کرتے ہیں کہ ’طالبان افغانستان میں زراعت شروع کرنے کے لیے صحراؤں میں نہریں بنا رہے ہیں، اور ہم زرخیز زمینوں پر ڈی ایچ اے بنا رہے ہیں‘۔ یہ دریا، نہر جو بھی ہے، اس کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا۔ ناز ملک ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’افغانستان میں طالبان کی حکومت کا اتنا بڑا مصنوعی دریا بنانے کا منصوبہ… حيرت کی بات يہ کہ کوئی انجینئر دوسرے ملک سے نہيں آئے گا بلکہ افغانستان اپنی ليبر کے ساتھ خود بنائے گا۔ پاکستان کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرکے دیکھ ليں، ميرا ملک دنیا سے 50سال پیچھے ہے۔“ پروفیسر اپنے ویریفائیڈ اکاؤنٹ سے لکھتا ہے کہ ”افغانستان دریائے آمو پر ایک بڑا بند باندھ کر پانی کو صحرا کی طرف کنورٹ کرے گا، جس سے ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ صحرائی زمین کو سیراب کرکے قابلِ کاشت بنایا جائے گا۔ یہ ایک مصنوعی دریا ہوگا جس کی لمبائی 285 کلومیٹر ہوگی۔ اس منصوبے پر پچھلے سال سے ہی کام شروع کیا جاچکا ہے۔“ اس پوری صورت ِحال کا ایک ہولناک پہلو تو یہ ہے کہ پڑوسی ملک زمین کی زرخیزی سے استفادہ کررہا ہے، مگر دوسری جانب سرحد سے جڑا ایک اور ملک اپنی زرخیز زمینوں کو تباہ کررہا ہے۔ قدرتی جنگل کی جگہ کنکریٹ کے جنگل بنارہا ہے۔ رب ِکریم کے عطیات کو تباہ کررہا ہے۔ کیا کروں گھوم پھر کر یہی موضوع زبان پر آجاتا ہے۔ ہماری گفتگوؤں میں موسم جو داخل ہوگیا ہے۔ کراچی میں شدید گرمی کوئی نئی بات نہیں، اسلام آباد میں امسال پڑنے والی گرمی ضرور عجیب تھی۔ سرسبز و شاداب شہر کے پہاڑوں کو جس طرح کاٹا جارہا ہے، جس تیزی سے ’کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ اپنے نام یعنی ’ڈویلپمنٹ‘ کے اصولوں پر کاربند ہے، ماہرین صاف کہہ رہے ہیں کہ شہر کا موسم یکسر بدل گیا ہے، ایسے جیسے کوئی غصے میں آجاتا ہے۔ اب زمین پر جس طرح کا جبر کیا جائے گا، چیر پھاڑ کی جائے گی، تو وہ ردعمل تو دے گی۔ دنیا کی حالیہ تاریخ سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ گزشتہ 300 سالوں میں زمین کی تباہی کا جو سفر شروع ہوا ہے وہ اب ’ترقی‘ کے نام پر تمام دنیا میں سرایت کر گیا ہے۔ کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ ہریالی، آنکھوں کی ٹھنڈک، سکون، وغیرہ… مگر ہاؤسنگ اسکیم کے لیے قدرتی جنگلات کاٹتے وقت سب بھول جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس پر تعمیرات کرتے وقت بھی لالچ میں اندھے ہوکر بے زبان زمین کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں وہ بھی ظلمِ عظیم ہی کہلائے گا۔
نیلی دنیا کا ہیش ٹیگ:
زمین کا قدرتی رنگ سبز ہے، اس کو اگر نیلا پیلا کریں گے تو اچھا نہیں ہوگا۔ بلیو ورلڈ سٹی کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں مجھے حیران کررہا تھا۔ اندر جھانکا تو صورتِ حال کچھ اور ہی نظر آئی۔ پوسٹوں سے اندازہ ہوا کہ بلیو ورلڈ والے اپنی مظلومیت کے لیے ٹرینڈ بنوا رہے تھے۔ چند کینال زمین لے کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی لانچ کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی پروموشن کے لیے ارتغرل ڈرامے کی ٹیم کو بھی پاکستان بلوایا گیا۔ متعلقہ افراد بتاتے ہیں کہ صورت ِحال یہ تھی کہ 30ہزار روپے دے کر ایک لاکھ کی رسید والی فائل تھمائی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ایک کے ساتھ ایک فائل مفت دی گئی۔ یوں ہزاروں کینال زمین صرف فائلوں میں بیچ دی گئی جبکہ وہ زمین کبھی خریدی ہی نہیں گئی تھی۔ یوں اصول حلال حرام تو ملیامیٹ کردیا گیا، بلکہ اس میں ایک اور بم یوں پھٹا کہ راولپنڈی انتظامیہ نے اس سوسائٹی کی منظوری نہ دینے کا اعلان کردیا۔ یہ ساری زمین زرعی زمین (گرین زون) تھی جسے کسی قسم کی تعمیرات کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا گیا۔ بلیو ورلڈ مالکان کی پریس کانفرنس میں کروڑوں روپے رشوتوں کا لین دین بتا رہا تھا کہ اندھے لالچ کی خاطر ہزاروں خاندانوں کی جمع پونجی کس طرح لوٹ لی گئی۔ عوام کو ایسے اربوں روپے کا چونا لگاکر ایک پریس کانفرنس اور ٹرینڈ بناکر مظلومیت کا ڈراما رچایا گیا، لیکن اگر مزید رشوت سے اجازت مل بھی جاتی تو ایک زرعی زمین کے ساتھ جو کچھ ہوتا وہ اس سے زیادہ خطرناک تھا۔ ابھی اعلان تازہ ہے، متاثرین سڑکوں پر نہیں آئے۔ ہوسکتا ہے جن طاقتور شخصیات کی پشت پناہی پروجیکٹ کو حاصل رہی وہ اس پر کام کریں جو بہرحال اس زرعی زمین کو مزید تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
عددی تسکین:
ویسے تو ہم نے اوپر بات کا آغاز ایک طنزیہ ٹوئٹ سے کیا تھا، مگر ظاہر ہے اس میں اشارہ کس کی جانب ہے یہ بہت واضح ہے، اور کون ایسی ٹوئٹ کرسکتا ہے یہ بھی واضح ہے۔
تحریک انصاف کے معتقدین کوئی موقع جانے نہیں دے رہے۔ ہیش ٹیگ کا یہ موضوع نہیں تھا، مگر اب ہونے یہ لگا ہے کہ اپنی رسائی بڑھانے کے لیے ٹوئٹ میں سارے ٹرینڈ والے ہیش ٹیگ ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ مقبولیت اور عددی تسکین ملتی رہے۔ ’عددی تسکین‘ سوشل میڈیا کے غیر شعوری و بے مقصد استعمال سے پیدا شدہ ایک اور نئی نفسیاتی کیفیت ہے۔ اس میں ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کوئی پوسٹ کرنے کے بعد اس پر لائکس اور ویوز کے دائرے میں کھویا رہتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ دیکھتا رہے کہ اس کی پوسٹ کتنے لوگوں تک پہنچی، کتنوں نے پسند کی، کیا تبصرے ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر یوٹیوب یا ٹک ٹاک ہو تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں سے تو پیسوں کا سلسلہ جڑا ہوتا ہے۔ لوگوں میں سوشل میڈیا سے وابستہ ہوکر ’اٹینشن اکانومی‘ کا حصہ بن جانے کے بعد ایسے عوارض کا سامنے آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ تو آغاز ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ معاملہ مزید خراب ہوتا جائے گا۔
سوشل میڈیا تھریڈز:
الفاظ کی جگہ لیتی ہوئی تصاویر، پھر تصاویر کی جگہ بھرتی ہوئی وڈیوز، پھر ان کی کثرت، پھر انیمیشن، اس کے بعد مصنوعی… اب شاید ایسا محسوس ہورہا ہے کہ الفاظ کو دوبارہ اہمیت مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر الفاظ یعنی تحاریر کی اہمیت یا ان کی پروموشن ایک خوش کن بات ہے۔ ان سب میں بلاگز بھی تحریر ہی کا درجہ رکھتے ہیں، جن کا ذکر نہ کرنا اچھی بات نہیں ہوگی کیونکہ بلاگز بہرحال الفاظ کی صورت ایک مقبول سلسلہ ہیں۔ اس کے بعد تھریڈز نے اپنی اچھی جگہ بنالی ہے۔ تھریڈز کی کئی سائٹ موجود ہیں جو خاصی مقبول ہیں اور بے شمار لوگ ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے بھی کہ اس کے ذریعے درحقیقت ’گاہک‘ کو باتوں میں گھیر کر ویب سائٹ پر اپنی چیز بیچنے یا اس جانب متوجہ کرانے کے لیے لایا جاتا ہے۔ یہ جو پروڈکٹ کے تبصرے ہیں، یہ سب اس کا اہم حصہ ہیں۔ یہ جعلی بھی ہوتے ہیں۔ مارکیٹنگ ٹیمیں بٹھائی جاتی ہیں جو دنیا بھر سے لوگوں کو پیسے دے کر لکھواتی ہیں تاکہ اس کو پڑھ کر لوگ متاثر ہوسکیں۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر صرف خوبصورت پوسٹیں ڈالنے سے اہداف حاصل نہیں ہوتے، اس لیے تحریر سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ میٹا نے تھریڈز کی اب ایک نئی ایپلی کیشن بنائی ہے، منفرد سا لوگو بھی ڈیزائن کیا ہے ٹوئٹر کے مقابلے کے لیے، جسے انسٹاگرام ٹیم نے ٹیکسٹ اپ ڈیٹس شیئر کرنے اور عوامی گفتگو میں شامل ہونے کے لیے بنایا ہے۔ جولائی میں اپنے لانچ تک، تھریڈز پلیٹ فارم نے پہلے چند ہفتوں میں 130 ملین سے زیادہ سائن اپ دیکھے۔ آپ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے لاگ ان کرتے ہیں اور پوسٹس 500 حروف تک لمبی ہوسکتی ہیں، اور لمبائی میں لنکس، تصاویر اور وڈیوز بھی شامل کرسکتے ہیں۔ میٹا کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی تھریڈز کو کھلے، انٹرآپریبل سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے کام کررہے ہیں جو ہمارے خیال میں انٹرنیٹ کے مستقبل کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ ٹوئٹر کے ساتھ مقابلے کی یہ دوڑ مزید صارفین کو کیسے لبھائے گی یہ ہم دیکھیں گے۔
ٹوئٹر ویریفائیڈ اکاؤنٹ:
ٹوئٹر پر ویریفائیڈ اکاؤنٹ کی8 ڈالر ماہانہ فیس بڑا سخت امتحان محسوس ہورہی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جو بھی پوسٹ ہے وہ اُس بندے نے خود کی ہے۔ یہ اکاؤنٹ جعلی یا ہیک شدہ نہیں ہے۔ ٹوئٹر کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم اداروں کے لیے اپنے سے وابستگیوں کی تصدیق کرنے اور اُن کے استعمال کنندگان (فالوورز) تک پہنچنے کے لیے انٹرنیٹ پر سب سے قابل اعتماد جگہ بنارہے ہیں۔ اب اس کی نقل میں اگر فیس بک، انسٹا وغیرہ بھی یہ فیس لے آئے تو مزید مشکل ہوگی۔ویسے یہ کام یوٹیوب نے پریمیم کےنام سے شروع کیا ہے اور میٹا نےبھی۔ میٹا اور یوٹیوب دونوں نے 14 ڈالر ماہانہ مانگے ہیں کسی اکاؤنٹ کو ہر قسم کے اشتہارات سے پاک کرنے کے لیے۔یہ بالکل الگ بات ہے اور ویری فکیشن الگ بات۔ٹوئٹر نے یہ کام ویسے تو جعلی خبروں کو روکنے کے لیے کیا ہےتاہم ٹوئٹر کے مالک نے اس فیصلے سے خوب مال بٹورا ہے۔ تازہ معلومات کے مطابق ٹوئٹر نے ویری فکیشن بلیو نشان کی درخواستیں وصول کرنا بند کردی ہیں۔اگر آپ ٹوئٹر پراپنے اکاؤنٹ کی تصدیق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایکس پریمیم کی فعال رکنیت کی ضرورت ہے اور اُس کی اہلیت کے معیار ات کو پورا کرنا ہوگا۔ نیلے چیک مارک کے لیے اہلیت کے معیار درج ذیل ہیں:
آپ کے اکاؤنٹ میں ڈسپلے نام اور پروفائل فوٹو ہونا ضروری ہے۔ X پریمیم کو سبسکرائب کرنے کے لیے آپ کا اکاؤنٹ پچھلے 30 دنوں میں فعال ہونا ضروری ہے۔ آپ کے اکاؤنٹ میں تصدیق شدہ فون نمبر ہونا ضروری ہے۔ آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کی پروفائل فوٹو، ڈسپلے نام، یا صارف نام (@handle) میں کوئی حالیہ تبدیلیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ آپ کے اکاؤنٹ میں گمراہ کن یا دھوکہ دہی کی کوئی علامت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کے اکاؤنٹ میں پلیٹ فارم ہیرا پھیری اور اسپام میں ملوث ہونے کی کوئی علامت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ وہ بنیادی شرائط ہیں جن کے بعد آپ درخواست کے اہل ہوسکتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیلے نشان والے ٹوئٹر کے استعمال کنندگان دس لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔
ٹوئٹر کی ایک ہولناکی:
ایک جانب تو یہ معاملہ ہے مگر دوسری جانب ٹوئٹر و دیگر سماجی رابطوں کی سائٹس کی ایک اور ہولناکی بھی سامنے آئی۔ اس کا تعلق صرف اس مثال سے نہیں ہے، بالعموم ہے۔ ہم پہلے بھی سائبر کرائم کے مختلف موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔اسی ضمن میں اب یہ نئی پیش رفت ہوئی ہے کہ سائبر bullying کے ضمن میں اب متعلقہ پلیٹ فارم تعاون کرنےسے گریزاں نظر آرہے ہیں۔ہمارے ایک دیرینہ صحافی دوست جوکہ سوشل میڈیا انفلوئنسر،اسپورٹس کے شعبے میں نمایاں نام رکھتے ہیں، معروف ٹی وی چینل کے اسپورٹس اینکر شعیب ہیں، جو رپورٹر ہیں، تجزیہ کار ہیں۔ ان کو اپنے سوالات کی وجہ سے، پوسٹوں پر تجزیے کی وجہ سے سوشل میڈیا ( ٹوئٹر) پر مستقل دھمکیوں اور انتہائی غلیظ و اخلاق سے عاری پیغامات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا اکاؤنٹ ویریفائیڈ ہے مگر اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ جن جعلی اکاؤنٹس سے ان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے متعلقہ ادارے ان کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر یوں ہیں کہ ٹوئٹر ایسے افراد کا ڈیٹا دینے سے معذرت کررہاہے۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح چلے گا تو پھر مزید تباہی ہوگی۔ میں یہ نہیں جانتا کہ دیگر ممالک میں وہ کیا جواب دیتا ہے، میں تو پاکستانی ایجنسیز کی جانب سے جواب بتا رہا ہوں۔ ٹوئٹر نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ نئے فیچرز شامل کرنے پر غور کررہا ہے جو اُن صارفین کی مدد کر سکیں گے جو اپنے پلیٹ فارم پر توہین آمیز حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ مغرب میں ٹوئٹر کے پلیٹ فارم پر نسل پرستانہ بدسلوکی بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے،مگر ابھی تک کوئی جامع پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے،ماسوائے خود سے کسی اکاؤنٹ کے بارے میں ٹوئٹر کو رپورٹ کردینے کے۔