-1 راستے میں درمیانی چال چلیے، نہ اتنا جھپٹ کر چلیے کہ خوامخواہ لوگوں کے لئے تماشہ بن جائیں اور نہ اتنے سست ہوکر رینگنے کی کوشش کیجیے کہ لوگ بیمار سمجھ کر بیمار پرسی کرنے لگیں۔ نبیؐ قدم لمبے لمبے رکھتے اور قدم اٹھا کر رکھتے، قدم گھسیٹ کر کبھی نہ چلتے۔
-2 ادب و وقار کے ساتھ نیچے دیکھتے ہوئے چلیے اور راستہ میں ادھر ادھر ہر چیز پر نگاہ ڈالتے ہوئے نہ چلیے، ایسا کرنا سنجیدگی اور تہذیب کے خلاف ہے۔ نبیؐ چلتے وقت اپنے بدن مبارک کو آگے کی طرف جھکا کر چلتے جیسے کوئی بلندی سے پستی کی طرف اتر رہا ہو۔ آپؐ وقار کے ساتھ ذرا تیز چلتے اور بدن کو چست اور سمٹا ہوا رکھتے اور چلتے ہوئے دائیں بائیں نہ دیکھتے۔
-3 خاکساری کے ساتھ دبے پائوں چلیے۔ اکڑتے ہوئے نہ چلیے، نہ تو آپ اپنی ٹھوکر سے زمین کو پھاڑ سکتے ہیں اور نہ پہاڑوں کی اونچائی کو پہنچ سکتے ہیں، پھر بھلا اکڑنے کی کیا گنجائش ہے۔
-4 ہمیشہ جوتا پہن کر چلیے۔ ننگے پائوں چلنے پھرنے سے پرہیز کیجیے۔ جوتے کے ذریعے پائوں کانٹے، کنکر اور دوسری تکلیف دہ چیزوں سے محفوظ رہتا ہے اور موذی جانوروں سے بھی بچا رہتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا اکثر جوتے پہنے رہا کرو، جوتا پہننے والا بھی ایک کا سوار ہوتا ہے۔
-5راستہ چلنے میں حسن ذوق اور تہذیب و وقار کا بھی لحاظ رکھیے۔ یا تو دونوں جوتے پہن کر چلیے یا دونوں جوتے اتار کر چلیے۔ ایک پائوں ننگا اور ایک پائوں میں جوتا پہن کر چلنا بڑی مضحکہ خیز حرکت ہے۔ اگر واقعی کوئی معذوری نہ ہو تو اس بدذوقی اور بے تہذیبی سے سختی کے ساتھ بچنے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا تو دونوں جوتے پہن کر چلے یا دونوں اتار کر چلے (شمائل ترمذی)
-6 چلتے وقت اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر چلیے تاکہ الجھنے کا خطرہ نہ رہے۔ نبیؐ چلتے وقت اپنا تہبند ذرا اٹھا کر سمیٹ لیتے تھے۔
-7 ہمیشہ بے تکلفی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ چلیے آگے چل چل کر اپنی امتیازی شان نہ جتایئے۔ کبھی کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ، ہاتھ میں لے کر بھی چلیے۔ نبیؐ ساتھیوں کے ساتھ چلتے ہوئے کبھی اپنی امتیازی شان ظاہر نہ ہونے دیتے۔ اکثر آپؐ صحابہ کے پیچھے پیچھے چلتے اور کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر بھی چلتے۔
-8 راستے کا حق ادا کرنے کا بھی اہتمام کیجیے۔ راستے میں رک کر یا بیٹھ کر آنے جانے والوں کو تکنے سے پرہیز کیجیے اور اگر کبھی راستہ میں رکنا یا بیٹھنا پڑے تو راستہ کا حق ادا کرنے کے لئے چھ باتوں کا خیال رکھیے۔
(1) نگاہیں نیچے رکھیے۔
(2) تکلیف دینے والی چیزوں کو راستے سے ہٹادیجیے۔
(3) سلام کا جواب دیجیے۔
(4) نیکی کی تلقین کیجیے۔
(5) بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھایئے۔
(6) اور مصیبت کے مارے ہوئوں کی مدد کیجیے۔
-9 راستے میں ہمیشہ اچھے لوگوں کا ساتھ پکڑیئے، برے لوگوں کے ساتھ چلنے سے پرہیز کیجیے۔
-10 راستے میں عورت اور مرد مل جل کر نہ چلیں۔ عورت کو بیچ راستے سے بچ کر کنارے کنارے چلنا چاہیے اور مردوں کو چاہیے کہ ان سے بچ کر چلیں۔ نبیؐ نے فرمایا گارے میں اٹے ہوئے اور بدبودار سڑی ہوئی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے سور سے ٹکرا جانا تو گوارا کیا جاسکتا ہے لیکن یہ گوارا کرنے کی بات نہیں ہے کہ کسی مرد کے شانے کسی اجنبی عورت سے ٹکرائیں۔
-11 شریف عورتیں جب کسی ضرورت سے راستے پر چلیں تو برقعے یا چادر سے اپنے جسم، لباس اور زیب و زینت کی ہر چیز کو خوب اچھی طرح چھپالیں اور چہرے پر نقاب ڈالے رہیں۔
-12 عورت کوئی ایسا زیور پہن کر نہ چلے جس میں چلتے وقت جھنکار پیدا ہو یا دبے پائوں چلے تاکہ اس کی آواز اجنبیوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔
-13عورتیں پھیلنے والی خوشبو لگاکر راستے پر نہ چلیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبیؐ نے نہایت سخت الفاظ فرمائے ہیں۔
-14گھر سے نکلیں تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر یہ دعا پڑھیے:
’’اللہ ہی کے نام سے (میں نے باہر قدم رکھا) اور اسی پر میرا بھروسہ ہے، الٰہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ہم لغزش کھا جائیں یا کوئی دوسرا ہمیں ڈگمگادے، ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکادے۔ ہم خود کسی پر ظلم کر بیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کرے۔ ہم خود نادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جہالت کا برتائو کرے‘‘۔ (صحیح الترمذی: 153/3، صحیح ابن ماجہ: 336/2)
-15 بازار جائیں تو یہ دعا پڑھیں:
’’اللہ کے نام سے (بازار میں داخل ہوتا ہوں) الٰہی میں تجھ سے اس بازار کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس بازار کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، الٰہی! تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ یہاں میں جھوٹی قسم کھا بیٹھوں یا نقصان (خسارے) کا کوئی سودا کر بیٹھوں‘‘۔
حضرت عمرؓ بن خطاب کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا جو شخص بازار میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھ لے، اللہ اس کی حساب میں دس لاکھ نیکیاں درج فرمائے گا، دس لاکھ خطائیں معاف فرمادے گا اور دس لاکھ درجات بلند کردے گا۔
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اقتدار اسی کا ہے، وہی شکر و تعریف کا مستحق ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، وہ زندہ جاوید ہے، اس کے لئے موت نہیں، ساری بھلائی اسی کے ہاتھ (قبضہ) میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (ترمذی)
سفر کے آداب
-1سفر کے لیے ایسے وقت روانہ ہونا چاہیے کہ کم سے کم وقت خرچ ہو اور نمازوں کے اوقات کا بھی لحاظ رہے۔ نبیؐ خود سفر پر جاتے یا کسی کو روانہ فرماتے تو عام طور پر جمعرات کے دن کو مناسب خیال فرماتے۔
-2 سفر تنہا مت کیجیے، ممکن ہو تو کم از کم تین آدمی ساتھ لیجیے۔ اس سے راستہ میں سامان وغیرہ کی حفاظت اور دوسری ضروریات میں بھی سہولت رہتی ہے اور آدمی بہت سے خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’اگر تم لوگوں کو تناہ سفر کرنے کی وہ خرابیاں معلوم ہوجائیں جو میں جانتا ہوں تو کوئی سوار کبھی رات میں تنہا سفر نہ کرے‘‘۔ (بخاری)
-3عورت کو ہمیشہ کسی محرم کے ساتھ سفر کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ایک آدھ دن کا معمولی سفر ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن احتیاط یہی ہے کہ کبھی تنہا سفر نہ کرے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر تنہا کرے۔ وہ اتنا بڑا سفر اسی وقت کرسکتی ہے جب اس کے ساتھ اس کے والد ہوں، بھائی ہو، یا شوہر ہویا اس کا اپنا لڑکا ہو یا پھر کوئی اور محرم ہو۔ (بخاری)
ایک اور موقع پر تو آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ عورت کو ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر بھی تنہا نہ جانا چاہیے۔ (بخاری، مسلم)
-4 سفر کو روانہ ہوتے وقت جب سواری پر بیٹھ جائیں اور سواری حرکت میں آئے تو یہ دعا پڑھیے:
’’پاک و برتر ہے وہ اللہ جس نے اس کو ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہ تھے۔ یقیناً ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ الٰہی ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ کی توفیق چاہتے ہیں اور ایسے کاموں کی توفیق جو تیری خوش نودی کے ہوں الٰہی! ہم پر یہ سفر آسان فرمادے اور اس کا فاصلہ ہمارے لیے مختصر کردے۔ الٰہی! تو ہی اس سفر میں رفیق ہے اور تو ہی گھر والوں میں خلیفہ اور نگران ہے۔ الٰہی میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی مشقتوں سے، ناگوار منظر سے، اور اپنے مال سے، اپنے متعلقین اور اپنی اولاد میں بری واپسی سے اور اچھائی کے بعد برائی سے اور مظلوم کی بددعا سے‘‘۔(مسلم ابودائود، ترمذی)
-5 راستے میں دوسرے کی سہولت اور آرام کا بھی خیال رکھیے، راستہ کے ساتھی کا بھی حق ہے۔ قرآن میں ہے:
والصاحب بالجنب اور ’’پہلو کے ساتھی‘‘ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ پہلو کے ساتھی سے مراد ہر ایسا آدمی ہے جس سے کہیں بھی کسی وقت بھی آپ کا ساتھ ہوجائے سفر کے دوران کی مختصر رفاقت کا بھی یہ حق ہے کہ آپ اپنے رفیق سفر کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کریں اور کوشش کریں کہ آپ کے کسی قول و عمل سے اس کو کوئی جسمانی یا ذہنی اذیت نہ پہنچے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔ جو شخص دوسرے کی خدمت کرنے میں لوگوں سے سبقت لے جائے اس سے نیکی میں آگے بڑھنے والا اگر کوئی ہوسکتا ہے تو صرف وہی جو اللہ کی راہ میں شہادت پائے۔ (مشکوٰۃ)
-6سفر کے لیے روانہ ہوتے وقت اور واپس آنے پر دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھیے۔ نبیؐ کا یہی عمل تھا۔
-7 جب آپ کی گاڑی، بس یا جہاز بلندی چڑھے یا اڑے تو یہ دعا پڑھیے:
’’الٰہی! تجھے ہر بزرگی اور بلندی پر بڑائی حاصل ہے، حمد و ثنا ہر حال میں تیرا ہی حق ہے‘‘۔
-8 رات کو کہیں قیام کرنا پڑے تو محفوظ مقام پر قیام کیجیے جہاں چور ڈاکو سے بھی آپ کی جان و مال محفوظ ہو اور موذی جانوروں کا بھی کوئی کھٹکا نہ ہو۔
-9 سفر کی ضرورت پوری ہونے پر گھر واپس آنے میں جلدی کیجیے، بلا ضرورت گھومنے پھرنے سے پرہیز کیجیے۔
-10 سفر سے واپس پر یکایک بغیر اطلاع رات کو گھر نہ آجایئے، پہلے سے اطلاع دیجیے ورنہ مسجد میں دوگانہ نفل ادا کرکے گھر والوں کو موقع دیجیے کہ وہ اچھی طرح سے آپ کے استقبال کے لیے تیار ہوسکیں۔
-11سفر میں اگر جانور ساتھ ہو تو ان کے آرام و آسائش کا بھی خیال رکھیے اور اگر کوئی سواری ہو تو اس کی ضروریات اور حفاظت کا بھی اہتمام کیجیے۔
-12 جاڑے کے موسم میں ضروری بستر وغیرہ ساتھ رکھیے اور میزبان کو بے جا پریشانی میں مبتلا نہ کیجیے۔
-13 سفر میں پانی کا برتن اور جائے نماز ساتھ رکھیے تاکہ استنجا، وضو، نماز اور پانی پینے کی تکلیف نہ ہو کہیں۔
-14چند آدمی سفر کررہے ہوں تو ایک کو اپنا امیر مقرر فرما لیجیے، البتہ ہر شخص اپنا ٹکٹ، ضرورت، بھر رقم اور وسرا ضروری سامان اپے قبضے میں رکھے۔
-15 جب سفر میں کہیں رات ہوجائے تو یہ دعا پڑھیے:
’’اے زمین! میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور ان مخلوقات کے شر سے جو تجھ میں اللہ نے پیدا کی ہیں اور ان مخلوقات کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہیں اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر سے روسیاہ اژدھے سے اور سانپ بچھو سے، اور اس شہر کے باشندوں سے اور ہر والد اور مولود کے شر سے‘‘۔ (ابودائود)
-16اور جب سفر سے گھر کو واپس آئیں تو یہ دعا پڑھیے:
’’پلٹنا ہے، اپنے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے اور اپنے رب ہی کے حضور توبہ ہے ایسی توبہ جو ہم پر گناہ کا کوئی اثر باقی نہ رہنے دے‘‘ (حصن حصین)
-17 جب کسی کو سفر پر رخصت کریں تو کچھ دور اس کے ساتھ جایئے ، رخصت کرتے وقت اس سے بھی دعا کی درخواست کیجیے اور اس کو یہ دعا دیتے ہوئے رخصت کیجیے:
’’میں تمہارے دین، امانت اور خاتمہ عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘‘۔ (حصن حصین)
-18 جب کوئی سفر سے واپس آئے تو اس کا استقبال کیجیے اور اظہار محبت کے الفاظ کہتے ہوئے ضرورت اور موقع کا لحاظ کرتے ہوئے مصافحہ کیجیے یا معانقہ بھی کیجیے۔