دانش اپنی درسگاہ میں ملے گھر کے تمام کام سے فارغ ہو چکا تھا۔ اپنی ساری کا پیاں، کتا ہیں ،ر بر پنسل سب کو ترتیب سے رکھ کر مطمئن ہو گیا۔ ربر اور پنسل کو اس نے ایک گلابی رنگ کے خوبصورت پنسل باکس میں احتیاط سے رکھ کر مطبخ میں کھانے کے لئے چل پڑا۔
رات کے تقریباً دس بج چکے تھے۔ بورڈنگ کےسبھی بچے اپنا اپنا سبق یاد کر کے گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ دانش بھی اگلے دن کی روٹین کے مطابق کتابوں اور کاپیوں کو ترتیب دے کر بستر پر لیٹ گیا۔ سونے سے پہلے وہ روزانہ سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص اور استغفار پڑھ کر سوتا تھا۔ ابھی اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ اسے کسی کے کراہنے کی آواز آئی جیسے کوئی بڑی تکلیف میں ہو۔ اُس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن سبھی بچے خراٹے لے رہے تھے۔ ’’پھر یہ آواز کس کی ہے…؟‘‘ وہ سوچنے لگا۔ بستر پر آ کر خاموشی سے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں اسے پھر کراہنے کی آواز آئی۔ اس بارا سے اپنے سامنے رکھے پنسل باکس پر نظر گئی وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کرا ہنے کی آواز پنسل باکس سے ہی آرہی تھی۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ آخر پنسل باکس سے کس کے کراہنے کی آواز ہو سکتی ہے؟ ابھی وہ سو چ ہی رہا تھا کہ آواز آئی ’’اف… اف… میری گردن‘‘
’’آہ …میری ناک …اف…اف…‘‘
’’کیا بات ہے پنسل بی کیوں کراہ رہی ہو… ؟‘‘ ،’’میری گردن اور ناک دونوں میں شدید درد ہے۔‘‘ ،’’کیوں …؟گردن میں کیوں درد ہو رہا ہے ؟‘‘ ربر بھیانے پو چھا۔
’’کیا بتاؤں ربر بھائی ۔ یہ جو ہمارادانش ہےنا… اس کا سلوک میرے ساتھ بہت ہی خراب ہے۔‘‘
دانش …؟ وہ تو بہت اچھا لڑکا ہے یا فرما نبر دار طالب علم ہے۔ ربر نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ نیک ہے اور فرمانبردار بھی مگر جس کے ساتھ بیتتی ہے وہی درد کا حال جانتا ہے۔‘‘،’’ آخر ہوا کیا، کیا خطا اس نے کر دی تمہارے ساتھ کہ تم اس قدر اس سے خفا ہو۔‘‘، ’’ربر بھیا میںخفانہیں ہوں، تکلیف میں ہوں۔ ارے …اف میری گردن…‘‘ پنسل بی پھر کراہنے لگیں۔
بھئی دانش میں تمام خوبیاں ہیں لیکن اس کی ایک عادت بہت خراب ہے۔ جب بھی میرا استعمال کرتا ہے تواتنی زور سے میری گردن کو اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ میرے حلق سے کچھ آواز ہی نہیں نکلتی۔ اور تو اور پھر اس طاقت سے میری ناک کاغذ کے صفحہ پر رگڑتا ہے کہ صفحہ بھی درد سے بلبلا جاتا ہے اور اُس پر گہرے نشانات ابھر آتے ہیں۔ اب تم ہی بتائو بھلا یہ کوئی صحیح طریقہ ہے میرے استعمال کا…؟‘‘ میں تو خود ہی ہر ایک طالب علم کا حکم ماننے کے لیے تیار رہتی ہوں اس کے باوجود میرے ساتھ یہ ظلم… کوئی اچھی عادت تو نہیں۔‘‘ اس طرح تو وہ خود ہی اپنا نقصان کرتا ہے۔ سبھی بچے جلد جلد املا لکھتے ہیں اور استاد سے جانچ بھی کرالیتے ہیں لیکن یہ بے وقوف میری گردن پکڑ کر ناک رگڑنے میں ایسا محو رہتا ہے کہ وقت کے گزرنے کا اسے احساس ہی نہیں ہوتا اور اس کی انگلیاں بھی یقیناً تکلیف میں ہوں گی۔ مگر ربر بھیا اسے سمجھائے کون…؟ صفحے پر رگڑ کے باعث میں پھیلتی ہوں تو فوراً میری سزا کے لیے لائے ایک چھوٹی سے مگر تیز آری سے میری گردن اور ناک دونوں چھیل دیتا ہے اس وقت میری تکلیف کا اندازہ صرف میں اور میرا خدا کرتا ہے۔
پنسل بی بس اتنی سی بات چہ…چہ…چہ… بہت افسوس ہے کہ تمہارے ساتھ اتنی بری زیادتی ہوتی ہے اور کوئی محسوس نہیں کرتا مگر کیا کرو گی بہن… میری حالت بھی تم سے کچھ جدا نہیں ہے۔ اب دیکھونا…سلمان اور انعام کو، بس ایک لفظ لکھا اور لگے کاغذ پر میرا منہ گھسنے۔ تمام جسم میرا زخمی ہے ۔ اس قدر رگڑتے ہیں کہ میرا جو حال ہے وہ تم دیکھ ہی رہی ہو مگر بے چارے صفحہ بھائی کے تو چمڑے چھل جاتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض کاغذ پھٹ گیا لیکن یہ احساس نہیں ہوتاکہ ان کے اس عمل سے کتنے لوگ زخمی ہو رہے ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ پنسل بی! ہم بے زبان لوگوں کی تکلیف کا احساس ان بچوں کو کہاں … ہم لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ دکھ سہنا ایک عادت سی بن گئی ہے ہاں اللہ سے دعا ضرور کروں گی کہ اللہ ان طالب علموں کو عقل سلیم عطا کرے کہ وہ نہ صرف بے زبان چیزوں کو بلکہ کسی جاندار کو بھی کوئی تکلیف نہ دیں اور ہمارا استعمال اپنے مستقبل کے لیے بہتر طریقہ سے کریں جس طرح ان کے معلم یا والدین انہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اچھا اب سو جائو رات کافی ہو چکی ہے۔ ہم دونوں کی باتوں سے وقت بھی گزر گیا اور درد بھی اب نہیں رہا۔ پنسل بی کو جمائی آنے لگی اور وہ بھی نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔
دانش کی نیند اڑ چکی تھی۔ یہ باتیں سن کر اسے بہت افسوس ہو رہا تھا۔ اس نے عہد کر لیا کہ اب وہ پنسل کو زور سے نہیں پکڑے گا اور نہ ہی صفحے پر دبائو دے کر لکھے گا، اس نے دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگی اور اگلے دن کے بہتر عمل کا ارادہ کرکے سو گیا۔