پیدائش جنوری 1929 وفات 19جون2015
میرے ذہن میں اس یادگار سفر کا ایک ہلکا سا خاکہ اب بھی محفوظ ہے جو میں نے کراچی سے لاہور اس مسافر کے ساتھ کیا تھا۔ یہ سفر میں نے بچپن میں اس مسافر کے ساتھ کیا تھا۔ لاہور پہنچنے کے ایک دن بعد یہ مسافر مجھے ایک بنگلے میں لے گیا جہاں بنگلے کے احاطے میں بہت سے افراد جمع تھے۔ وہاں کسی پروگرام کا آغاز ہونے والا تھا سارے افراد بنگلے کے اندر سے کسی شخصیت کے آنے کا انتظار کر رہے تھے بالاخر انتظار کے لمحات ختم ہوئے اور اندر سے وہ شخصیت باہر تشریف لے آئی۔مجھے آج بھی وہ روشن اور پروقار چہرہ یاد ہے جو دیدہ زیب شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی‘ جس کی سیاہ داڑھی اس کے چہرے پر بہار دکھا رہی تھی وہ مجلس میں آکر اپنی نشست پر براجمان ہو گئے اور سارا مجمع خاموش ہو کر ان کی آمد کے سحر میں کھو گیا۔ انہوں نے کچھ وقفے کے بعد اس مجلس سے نہایت نرم آواز سے خطاب شروع کیا۔ تقریب کے اختتام پر اس شخصیت نے تمام شرکا سے ہاتھ ملایا۔ مجھے بھی اس شخصیت سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہوا اس کے نرم و گداز ہاتھ کا لمس آج تک مجھے یاد ہے۔
اس مسافر نے مجھے بتایا کہ وہ عظیم شخصیت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں جو ایک نابغہ روزگار شخصیت تھی۔ جو تاریخ بنانے جا رہے تھے۔ میں جس مجلس میں شریک ہوا وہ بعد نماز عصر منعقد ہوتی تھی اور اسی مناسبت سے عصری مجالس کہلاتی تھیں۔ وہ جگہ 5 اے ذیل دار پارک اچھرا لاہور تھی جو عصر حاضر کے قائد تحریک اسلامی کی موجودگی میں ہوتی تھی۔
وہ مسافر جس کا میں نے اس مضمون میں ذکر کیا ہے وہ شخصیت میرے والد محترم سید محمد مسلم کی ہے جو ہمارے لیے ایک نعمت اور رہنما تھے‘ جو اب اس فانی دنیا سے ہمیشہ رہنے والی جگہ یعنی جنت الفردوس میں منتقل ہو گئے ہیں۔
والد محترم علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک میں بھی شامل رہے۔ خاکسار تحریک سے جماعت اسلامی میں آنے تک کا سفر بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔ انہوں نے ساری زندگی ایک فعال کارکن کے طور پرگزاری۔
والد محترم جماعت اسلامی کے نامساعد حالات ہوں یا سازگار ہر حالت میں جماعت کے لیے حاضر رہے۔انہوں نے ساری زندگی تحریک کے لیے بڑی تندہی اور لگن سے کام کیا۔ والد محتر م میں سیاسی بصیرت اور سیاسی شعور بدرجہ اتم موجود تھا اسی لیے وہ جب ہندوستان سے مشرقی پاکستان ہجرت کر کے گئے تو زیادہ عرصہ وہ وہاں نہیں ٹھہرے اور انہوں نے مغربی پاکستان چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ایوبی دور میں جب جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو اس دور کا بھی بڑی جواں مردی اور ہمت سے مقابلہ کیا۔
کراچی جماعت کا مرکزی آفس ادارہ نور حق سے پہلے لوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ پرتھا ۔ چوہدری غلام محمد مرحوم کراچی جماعت کے امیر تھے والد محترم سید محمد مسلم اور رجب علی صاحب مرحوم چوہدری غلام محمد مرحوم کے ساتھ کراچی جماعت کے کام کو سنبھالتے تھے ۔ مجھے والد محترم نے بتایا تھا کہ انہوں نے مولانا مودودی ؒکے ساتھ ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر تحریک کا کام کیا ہے جو کہ ایک اعزاز کی بات تھی۔ میرے پاس ایک عید کارڈ بھی ہے جو مولانا مودودیؒنے والد صاحب کو بھیجا تھا۔
ملیر میں سعود آباد وہ زرخیز علاقہ اور مردم خیر جگہ تھی جہاں سے جماعت اسلامی کو زبردست رجال کار (کارکنان اور ارکان) مہیا ہوئے۔ جنہوں نے بے لوث طریقے سے تحریک اسلامی کا کام کیا سعود آباد جماعت اسلامی کا گڑھ بھی کہلاتا تھا سعود آباد کی مشہور و معروف فاروقی مسجد وہ مسجد ہے جہاں جماعت کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے رہے جس میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی داعی تحریک اسلامی نے براہ راست خطاب کیا۔ان کی کئی تحریکی اور تربیتی تقریریں یہاں کے اجتماعات میں کی گئیں۔ مولانا محترم کے قریبی عزیز جو ہمارے دوست بھی تھے سعود آباد کے علاقے میں رہتے تھے مولانا محترم ملاقات کے لیے وہاں جاتے تھے۔
والد محترم ایوبی آمریت کے دور میں ضلع کونسل کے رکن جماعت اسلامی کی طرف سے منتخب ہوئے اور انہوں نے سید فضل الرحمن جعفری مرحوم کے ساتھ مل کر بڑی محنتوں اور کاوشوں سے وسطانیہ اسکول المعروف لال کوارٹر ماڈل کالونی بنا کر دیے سعودآباد کا گرلز اسکول المعروف مراد میمن بھی انہی کی کوششوں کا ثمر ہے جو ملیر کے لوگوں کو ملا سعود آبادکی ضلع کونسل مارکیٹ واقع پولیس چوکی نزد فاروقی مسجد بھی ان لوگوں نے تعمیر کروائی۔
جماعت اسلامی کی ایک اہم مہم ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر چرم قربانی کی ہوتی ہے والد محترم چرم قربانی کے مرکزی کیمپ پر ذمہ داری سنبھالتے تھے۔عید الاضحی کے تینوں دن وہ گھر میں نہیں ہوتے تھے ہم ان کے بغیر عید الاضحی گزارتے تھے۔ ہماری والدہ نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا اللہ تعالی ان کو بھی اس کا اجر عطا فرمائے۔
والد محترم بیرون ملک بھی مقیم رہے کویت میں بھی معاش کے سلسلے میں رہے اور وہاں بھی تحریک کا کام متعارف کرایا اس کے بعد سعودی عرب جدہ گئے اور کئی سال وہاں جدہ میں گزارے اور جماعت کے نظم کے ساتھ منسلک رہے تحریک کا کام کیا ۔
والد محترم ہمارے لیے ایک رہبر اور دوست بھی تھے ‘وہ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ بچپن کی جو یادیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں ان میں والد محترم کی کہانی سنانے کی روایت بھی ہے وہ بڑی عمدہ اور دلچسپ کہانی سنانے کا فن جانتے تھے اور گھر میں بڑا دوستانہ ماحول رکھتے تھے۔
بچپن میں جب وہ ہمیں انگلش اور میتھ پڑھاتے تو جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی یا ہم لوگ پڑھنے پر توجہ نہ دے رہے ہوتے تو ان کا سزا دینے کا اپنا ہی ایک الگ انداز تھا۔ ہمارے کان کی لو کو اپنے ہاتھوں سے مروڑتے تھے۔انہوں نے کبھی بھی جسمانی تشدد یا سزائیں ہمیں نہیں دی بلکہ کبھی ڈانٹا بھی نہیں۔
والد محترم کا آخری وقت بڑی آسانی سے گزرا وہ کچھ عرصہ اسپتال میں داخل رہے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ جب آخری دیدار کے لیے والد صاحب کا جسد خاکی گھر میں رکھا گیا تو اُن کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں شاید اس لیے کہ انہوں نے ساری زندگی جو جدوجہد اسلامی نظام کے قیام کے لیے کی اسے وہ اپنی آنکھوں سے نافذ ہوتا دیکھ سکیں۔اللہ تعالیٰ ان کے تو شہ آخرت میں ان کی یہ جدوجہد اور کاوش کو بھی قبول فرمائے جو انہوں نے ساری زندگی اقامت دین کے نفاذ کے لیے کی۔ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس کا باسی بنائے اور ان کو انبیاکی جنت میں داخل فرمائے‘ آمین ثم آمین۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے