(دوسرا اور آخری حصہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے مونس و غم خوار، اس کے درد اور دُکھ میں اپنی جان گھلانے کی صفت سے متصف… لَعَلَّکَ بِاخِعٌ نَفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ… راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُمت کی ہدایت، بخشش و مغفرت اور نجات کی مسلسل دُعائیں، قدمِ مبارک پر ورَم اور سینۂ اطہر سے اُبلتی ہوئی ہانڈی کی طرح نکلنے والی آوازوں کے ساتھ… خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کا حصہ ہیں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر مرضیِ مولا، پیمانۂ محبت ِخدا… اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ… معیار صراطِ مستقیم… وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا… اپنے پر ایمان لانے والوں، اپنی توقیر کرنے والوں،اپنی مدد کرنے والوں،اپنے لائے ہوئے نورِ ہدایت کا کامل اتباع کرنے والوں کے لیے نجات و کامیابی کی ضمانت۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منفرد خصوصیت، شان اور کمال یہ بھی ہے کہ آپؐ کو جو نسخۂ کیمیا عطا ہوا ہر شک، شبہ، تحریف اور ملاوٹ سے پاک، دائیں بائیں، آگے پیچھے، باطل کے حملوں سے محفو ظ ہے۔
جملہ الہامی تعلیمات کا مجموعہ، علوم و معارف کا خزینہ، حکمت و موعظت اور قلب ونظر کی شفا و رحمت کا سرچشمہ… قرآن حکیم… زندہ جاوید، پائندہ و تابندہ معجزہ۔ آپؐ کا یہ امتیاز و خصوصیت بھی کہ آپؐ ہی اس کی تبیین، تشریح اور توضیح کے مختار قرار پائے!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہویں خصوصیت کبریٰ… اُوْتِیْتُ جَوَامَعَ الْکَلِمِ۔ فصاحت و بلاغت کے مرکز، شعر و خطابت کے ماحول میں زبردست قدرتِ کلام، بے پناہ فصاحت و بلاغت… أنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ… بلندپایہ خطیب، ماہر عالم نفسیات، لوگوں کے مزاج اور طبائع سے آشنا۔ زبردست اور دل نشیں طرزِ کلام، موثر اندازِ تخاطب کی حامل ہستی کے بے مثل ابلاغ کے عکاس۔ آپؐ کے ’’جوامع الکلم“… پاکیزہ اور مختصر جملے، لفظی، ادبی اور صوتی حسن کے شاہکار، وسعت ِ معانی کے نمونے، حیاتِ انسانی کے فلسفے اور حقائق کا واضح بیاں، مسائل، اُلجھنوں اور عُقدوں کا حل چند اشاروں میں… کوزے میں دریا… تاریخ انگشت بدنداں، عقل محو تماشائے لب بام… کہ یہ سب اُس کی زباں سے ادا ہوئے، جو لکھنے پڑھنے کی حاجت اور عالموں کی صحبت سے بے نیاز تھا۔ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابِ وَلَا تَخُطُّہُ بِیْمِیْنِکَ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پاکیزہ جملے زبانِ اطہر سے نکلتے، سماعتوں سے ٹکراتے اور دلوں میں اُترجاتے۔ جسم ہی نہیں، قلب ونظر فتح ہوتے چلے جاتے۔ یک بیک کایا پلٹتی، راستی و ہدایت کے دَر کھلتے، صراطِ مستقیم آشکار ہوتی چلی جاتی۔ سننے والا بے اختیار پکار اُٹھتا… اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور امتیازی خصوصیت بے مثال رعب و دبدبہ، شان و شوکت،قوت و سطوت، جلال و جمال سے آپؐ کی مدد… الْنَّصْرُ قَادِمُہُ – وَالْفَتْحُ خَادِمُہُ۔ نصرت و فتح ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں موجود…! غلبہ ایسا کہ فتحِ مکہ کے روز سارا عرب سرنگوں۔ نصرت ایسی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ… شان و شوکت ایسی کہ فتحِ مکہ کی شب تاحدِّنظر پھیلا ہوا لشکرِاسلام۔ لہراتے ہوئے رنگ برنگ ہزاروں علَم اور خیموں میں روشن چراغ… جس سے کفر لرزہ براندام!!
سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت… أَنَا رَحْمَۃٌ مُھْدَاۃٌ… انسانیت کے لیے بطور ہدیہ عطا کی گئی، دنیا و آخرت میں سراپا رحمت۔ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ…! پیکرعفو و درگزر، مجسم رأفت و رحمت، اُمت کی ہدایت و مغفرت پر حریص۔ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ، اس کی پریشانیوں پر کڑھنے اور تڑپنے والے… عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، اپنے پر ایمان لانے والوں… بِالْمُؤْمِنِیْنَ کے لیے رَؤفٌ رَحِیْمٌ…!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی شفقتوں نے پروانوں، فرزانوں اور مستانوں کا ہجوم آپؐ کے ارد گرد جمع کر دیا۔ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاْ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ… اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ یوں دیوانہ وار اپنا تن ،من، دھن نثار نہ کرتے۔
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائصِ ذاتی میں یہ بھی شامل ہے کہ تکلم فرماتے تو دل کے اندھیرے دُور ہوتے، تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتے، دل اس قدر نرم کہ زندہ گاڑی جانے والی بچیوں کے ذکر پر رقت طاری ہوگئی، ریشِ مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ ستونِ حنانہ جدائی برداشت نہ کر سکا، رو دیا تو تڑپ اُٹھے، خطبہ موقوف کردیا۔ اُونٹ نے مالک کے ظلم کا رونا رویا، تو دل بھر آیا، تھیلے میں تڑپتے پرندوں کی آوازسنی تو رہائی کا حکم دیا۔ معصوم حسنین کریمین دورانِ نماز پشت ِمبارک پر چڑھ گئے، تو سجدہ طویل کر دیا۔
ساری زمین کو آپؐ کے اور اُمت کے لیے سجدہ گاہ اور پاکیزہ بنادیا جانا… جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْض مَسْجِدًا وَطُھُوْرًا… غنائم کاحلال کیا جانا… اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے نکاح کی حُرمت، بیٹیوں پر سوکن لانے کی ممانعت، اپنے اہلِ بیت ؓ کے لیے زکوٰۃ سے دست برداری، مکہ و مدینہ کو سارے شہروں اورآپؐ کی مسجد کو تمام مساجد پر فضلیت، جسدِاطہر کا معطّرپسینہ، موئے مبارک کی برکتیں، انگلیوں سے پانی کی روانی، لعابِ دہن سے امراض کا علاج اور کھانے کی فراوانی۔ شق قمر اور شق صدر کے حیرت انگیز واقعات، عہدِماضی کی خبریں، آنے والے واقعات کی پیش گوئیاں، نمازِ جمعہ، اذان، اقامت، لیلۃ القدر اور ماہِ رمضان۔ دورانِ نماز ’’آمین“ شعارِ اسلام… یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی نمایاں امتیازات اور ذاتِ اقدس کے منفرد خصائص ہیں۔
شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں ’’شفاعت“ اُمت کے لیے بہت بڑا تحفہ اور آنجناب علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کی بے مثال خصوصیت ہے۔ روزِ محشرجب جلالِ الٰہی کا آفتاب جوبن پر اور لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمَ، لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّار کی صدا ہر سمت گونج رہی ہوگی، عرشِ الٰہی کے سائے اور آقائے دوجہاںؐ کے مقامِ محمود اور حوضِ کوثر کے سوا کہیں جائے اماں نہ ہوگی۔ نفسانفسی کا عالم، انسانوں کے جھکے ہوئے سر، اُمت ِمحمدی علیٰ صاحبھا الصلوات والتسلیمات کی طرح دیگر اُمتیں شفاعت ِ محمدیؐ سے فیض یاب ہونے کی اُمیدوار اور بے قرار… ایسے میں ایک صدا اُبھرے گی، صاحب ِجلال و جبروت ربِّ عرش و اَرض کی رحمت بھری آواز… مژدۂ جانفزا، پیامِ امن و سلامتی… یَامُحَمَّدْ! اِرْفَعْ رَأسَک… اے محمدؐ! سراُٹھایئے! قُلْ تُسْمَعْ… کہتے جایئے، آپ کی سنی جائے گی، اِسْئَلْ تُعْطَ… سوال کرتے جایئے، آپ کا من چاہا ملتا جائے گا، اِشْفَعْ تُشَفَّع… شفاعت کیجیے ،آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت ’’کمالِ عبدیت“ ہے۔ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی… شبِ معراج مسجدحرام سے مسجدِاقصیٰ کا سفر پلک جھپکتے میں، آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک انبیا و رسُل کی امامت کی سرفرازی، براق کی سواری، جنت ودوزخ کا مشاہدہ، آسمان پر انبیا سے ملاقات، سدرۃ المنتہیٰ پر دوقوس یا اس سے بھی کم فاصلے پر اپنے رب کے ساتھ ہم کلامی کا شرف آپؐ کے خصائص کا حصہ ہیں!!
خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بھی نمایاں ہے کہ آپؐ کا دین، مکمل ترین… الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم… آپؐ پر الٰہی نعمت ِ عظمیٰ… راہِ مستقیم… کا اتمام… اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ، آپؐ کا دین اللہ کا پسندیدہ و محبوب دین۔ رَضِیْتُ لَکَمْ الْاِسْلَامَ دَیْنًا۔ اور اس کی بارگاہ میں مقبول۔ وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔ آپؐ کا دین آسان ترین دین… الْدِّیْنُ یُسْرٌ، آپؐ کا دین غالب ترین دین… جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ… بلاشبہ آپؐ کے وجودِ پاک سے حق غالب ہوا اور باطل مٹ گیا—
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے دین میں نہ کسی کو کمی کا اختیار ہے، نہ اضافے کی اجازت، نہ تغیرو تبدل کی گنجائش، نہ پیوندکاری کی ضرورت… اس میں ادخُلُوْا فِی الْسِلْمَ کَآفَّۃً کا پیغام، جَاھِدُوْا فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ کا حکم، اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کی رہنمائی… لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَائ، دشمنانِ حق کی مکمل سرکوبی اور فتنہ و فساد کے مکمل خاتمے کی ہدایت… قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃً۔ غلبۂ حق کی تکمیل منزل کی جانب بڑھتے رہنے کا فرض۔ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلَّہُ لِلّٰہِ… وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا… اتحاد و اتفاق اُمت کی کلیدِ کامرانی، امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا نسخہ کیمیا، یہ سب دین اسلام کے امتیازات اور اس کے جامع و کامل ہونے کے ہمہ پہلو دلائل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور باکمال خصوصیت و امتیاز، اُمت کے لیے باعث ِ فخر… کہ بّروبحر، زمین و آسمان، انفس و آفاق میں ظاہروباطن، جلی و خفی، صبح و شام ،ہر جگہ، ہر وقت، ہر صورت آپؐ کا ذکر کائنات کے ہر ذی نفس سے بلندتر اور عام ہے۔ یہ مظہر ہے آپؐ کی شانِ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کا۔ ارشاد الٰہی ہے: اِذَا ذُکِرْتَ ذُکِرْتَ مَعْیِ۔ جب بھی مجھے یاد کیا، میرا نام لیا جائے گا، آپ علیہ السلام کا ذکر بھی ہوگا۔ قرآن کی تلاوت ہو یا اذان کے نغمے، انسانوں کی مجلسیں ہوں یا فرشتوں کی محفلیں، دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ ہوں یا مناجات کے لیے تڑپتے ہونٹ، بے قرار سجدے ہوں یا خشوع و خضوع کے مظہر رکوع، تسبیح کے دانے ہوںیا انگلیوں کی پوریں… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ ذکر حرزِجاں اور باعثِ سکون و اطمینان، راحت ِقلب و نظر بنا رہے گا۔
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور امتیاز آپؐ کا بے مثال ادب و احترام… اُمت کو اس کی تلقین، خصوصی احتیاط کی ہدایت… لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتِکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔رسولِ محترمؐ کی آواز سے اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ لاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِبَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔ بارگاہِ رسالت مآب میں ایک دوسرے کی طرح بلند آواز نہ کرو۔ پاسِ ادب ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رہے۔ شانِ عالی مرتبت کبھی ذہن سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھے، نہ زباں سے حرف نکلے، نہ اطاعت میں کوئی کوتاہی ہوجائے۔ رسالت مآب کی مرضی اور حکم پر تسلیم دل و جاں کے سوا کچھ نہ ظاہر ہو، انکار کی تو مجال ہی نہیں، کبیدگیِ خاطر بھی گوارا نہیں! ذرا سی بے احتیاطی کی اتنی بڑی سزا کہ تصور سے ماورا۔ دنیا بھی خراب اور عقبیٰ بھی تباہ!!
سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت، امتیاز و کمال کہ جس کے ذکر کے بغیر ہمارا اظہارِ عقیدت نامکمل رہے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ بارگاہِ ربّ العالمین سے حضورِانور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تاقیامت درود و سلام کی بارش۔ فرشتوں کو اس کی ہدایت اور اہلِ ایمان کو بے پناہ دنیوی و اخروی فضیلتوں، برکتوں اور رحمتوں کے تحفے کے ساتھ حکم۔ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا۔
آیئے! بارگاہِ سیدالانام علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں اپنے اظہارِ عقیدت و محبت کا اختتام لاکھوں درود اور کروڑوں سلام سے کریں کہ جو خود یتیم تھا، یتیموں کے حقوق کا محافظ اور ان کا سہارا بنا۔ خود مسکین تھا، دُنیا بھر کے مسکینوں کا آسرا ٹھیرا- خود مادّی سہاروں سے محروم تھا، کائنات کے مجبوروں، مقہوروں اور مظلوموں کا ملجا و ماویٰ بنا- خطائوں سے پاک تھا، اُمت کی لغزشوں، خطائوں اور گناہوں کا طلب گار ہوا۔ سارے جہاں کے لیے رحمت و شفقت کا سائبان بنا۔ جس کے قبضے میں دنیا جہان کے خزانوں کی کنجیاں، مگر اَلْفَقْرُ فَخْرِی پر نازاں۔ جو اپنے وجود، خصائل و شمائل، خصائص و امتیازات کے سبب اولین و آخرین۔ کائنات کے ہر ذی نفس کے لیے وجہِ افتخار اور باعث ِ نجات!!
اللھم صلی وسلم علی النبی الأمّی وعلٰی آلٰہٖ وأصحابہ وبارک وَسَلِّم!!