سید مودودی ؒ دانائے راز

289

اسلامی تاریخ میں ایسی کئی شخصیتیں ہو گزری ہیں جنھیں گویا پیدا ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا کہ انھیں تاریخ کی طویل شاہراہ پرسنگ ہائے میل کی حیثیت حاصل ہو۔ یہ وہ رجالِ عظام ہیں کہ جن کے کارہائے نمایاں اپنے اپنے ملک کی جغرافیائی حدود سے نکل کر پوری ملتِ اسلامیہ پراثر انداز ہوئے اور غیر معمولی نتائج مرتب کیے۔ لاریب یہ ایسی ہی شخصیات کے فکر کا فیضان اور جہدِ مسلسل کا ثمر ہے کہ امت مسلمہ میں نظریاتی ہم آہنگی اور نصب العین میں یگانگت کی ایسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہو گئی ہیں کہ اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تمام تر سازشوں کے باوجود وحدت ملی آج بھی قائم ہے جو رنگ و نسل اور زبان و تاریخ کے اختلاف کے باوجود ایک ہی برادری اور ایک ہی قوم کے احساس سے لبریز ہے۔

امام مودودیؒ کا شمار تاریخ اسلام کی انھی عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ وہ برصغیر پاک وہند میں اورنگ آباد کے مقام پر ۳؍رجب ۱۳۲۳ھ بمطابق ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۳ء کو پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب خلافتِ عثمانیہ روبہ زوال تھی اور جس کے خاتمے کے ساتھ ہی امت مسلمہ کے سیاسی اتحاد کی وہ علامت بھی جو اس کے مختلف حصوں کو باہم دگر جوڑے ہوئے تھی، مٹ گئی۔

امام مودودیؒ کی ذہنی نشوونما ایک ایسے دور میں ہوتی ہے کہ جب انگریزی حکومت کے غلبے نے مسلمانوں کو خودی اور عرفان ذات سے تہی دست کر دیا تھا۔ وہ انگریزوں کی تہذیب و تمدن کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے تھے اور ان کے فلسفۂ زندگی کی پیروی کو معراج سمجھنے لگے تھے۔ اور یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلط ہو گیا تھا کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قراردیا ہے۔ مسلمان اپنے، اپنے افکار و تخیلات، اپنی تہذیب و شائستگی، اپنے اخلاق و آداب سب کو اسی ایک معیار پر جانچنے لگے تھے۔ ان کی جوچیز اس معیار پر پوری اترتی تو فخرکرتے تھے کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اترتی ہے اور جو چیز اس معیار پر پوری نہیں اترتی تھی اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط مان لیتے اور مغرب کے سامنے معذرت پیش کرتے یا پھر کوشش کرتے کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اسے مغربی معیار کے مطابق ثابت کر دیں۔ دراصل یہ نتیجہ تھا مغرب کے سیاسی غلبہ و استیلاء کا اور مسلمانوں کی ذہنی مغلوبیت کا۔ امام مودودی جن کا ہنوز عنفوانِ شباب تھا ایسے حالات میں اٹھتے ہیں اور توفیقِ ایزدی سے مغرب کے فلسفہ اور تہذیب کے بودے پن اور خامیوں کو آشکارا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اور بہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان ایک اعلیٰ و ارفع فلسفۂ زندگی اور بالاتر تہذیب و تمدن کے حامل ہیں۔ جہاں تک جدید حالات و مسائل اور تہذیبی تقاضوں کا تعلق ہے، اسلام ان سے عہدہ برآ ہونے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔ علومِ جدیدہ و انکشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر اسلام کی طرف ترمیم طلب نگاہ ڈالنا محض سطحی النظر لوگوں کا وطیرہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظاہری چکا چوند سے مرعوب و متاثرہو جاتے ہیں۔

امام مودودی کی شخصیت کے نمایاں ترین پہلو حسب ذیل ہیں:
اوّلاً: عنفوانِ شباب میں ہی ایک عبقری کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔

ثانیاً:وہ ایک ایسی ہمہ پہلو شخصیت ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔

ثالثاً: انھیں دین میں گہری بصیرت حاصل تھی اور وہ تحریک اسلامی کے عملی تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔

رابعاً: انھوں نے راہِ حق میں پیش آنے والے مصائب کا جرأت و خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔

خامساً: دین میں ترجیحات کے تعین میں انھوں نے صحیح اسلامی تصور کے مطابق دقتِ نظر سے کام لیا۔

امام مودودی نے تاریخ کے ایک ایسے دور میں اپنا کردار ادا کیاکہ جب ہمارے علما کی اکثریت دین کے صحیح تقاضوں سے بے بہرہ تھی۔ اس پر مستزادیہ المیہ تھا کہ یہ لوگ چوںکہ مغربی علوم اور جدید سائنسی تحقیقات سے آشنا نہیں تھے اس لیے انھوں نے چشم پوشی اور تجاہل عارفانہ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان جدید علوم و فنون اور سائنسی تحقیقات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ علما کے اس رویے سے اسلام دشمن اور مذہب بیزار قوتوں کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا بہانہ مل گیا کہ اسلام ہے ہی ترقی کا دشمن۔ یہ انسان کو ہزاروں سال پیچھے لے جانا چاہتا ہے۔ چناںچہ جدید تعلیم یافتہ طبقے نے علما کی بے بسی اور اسلام دشمن قوتوں کے بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے اسلام کو ایک ایسا تنگ نظر اور جامد نظریہ سمجھنا شروع کردیا جو عملی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ نتیجتاً ایک گروہ نے اسلام کو مسلمانوں کی پس ماندگی کا سبب قرار دیتے ہوئے مغرب کے افکار و عقائد اور نظریات کی پیروی کوکامیابی کا ضامن قرار دیا جب کہ دوسرے گروہ نے مذہب اور سیاست کی تفریق کا نظریہ پیش کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ مذہب صرف چند مراسم کا نام ہے اس کا روزمرہ کی زندگی اور کاروبارِ حیات، معیشت، معاشرت اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تھا ملت اسلامیہ کی زندگی کا وہ نازک دور جس میں امام مودودی اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اسلام کی صحیح تصویر اور حقیقی عظمت کو اجاگر کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہر شعبۂ حیات میں انسان کو راہنمائی دیتا ہے اور اسلام ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن بن سکتا ہے۔

امام مودودیؒ نے برصغیر میں اگر ایک طرف وطنی قومیت کے فتنے کا مقابلہ کیا تو دوسری طرف مسلمانانِ ہند کو مغربی تہذیب و تمدن کے سحر سے نکالا اگر ایک طرف علمائے کرام کی جامد مذہبیت کا توڑ کیا تو دوسری جانب تجدد پسند گروہ اور مذہب بیزار عناصر کی روش کا کڑا محاسبہ کیا۔ پھر ۱۹۴۱ء میں امام مودودی نے اقامتِ دین کے لیے جماعت اسلامی کے نام سے ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ان کی برپا کردہ تحریک جدوجہد کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی اور اس مرحلے میں امام مودودی اور ان کے رفقا کو بار بارابتلا و آزمائش سے دوچار ہونا پڑا، لیکن دارو زندان کی یہ آزمائش بھی ان کی راہ کھوٹی نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ ان کے افکار و نظریات عامۃ المسلمین کے سنجیدہ و فہمیدہ طبقے میں تیزی کے ساتھ نفوذ کرنے لگے۔ اور آج بلاخوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں کہ جہاں امام مودودی کی فکر سے متاثرین نہ پائے جاتے ہوں، بلکہ ترکی سمیت بیشتر ممالک میں دینی بیداری کی جو لہر پائی جاتی ہے اس میں ان کی فکر کا بہت بڑا حصہ ہے۔

ترکی، کمال پاشا کی تحریک الحاد کے بعد اسلامی نقطۂ نظر سے سخت ابتلا کے دور میں داخل ہو گیا تھا۔ مذہب اور اہلِ مذہب کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ظاہری طور پر ترکی اور ترک قوم اسلام کے حلقے سے نکل گئے۔ یہاں ترک قوم کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ اسلام اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ جب سے یہ قوم نعمتِ اسلام سے سرفراز ہوئی ہے اس نے خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی اسلام کے سوا کسی دین کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا، خواہ یہ ایشیائے کوچک کی رہنے والی ترک قوم ہو یا وسطِ ایشیا کے اندر رہنے والے ترک ہوں۔

مصطفی کمال پاشا کے مظالم کے باوجود ترکی کے اندر ایسے داعیانِ حق اٹھتے رہے ہیں جو اس کی آمریت اور دعوتِ الحاد کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان میں دو بزرگوں کو سرفہرست رکھا جا سکتا ہے، ایک بدیع الزماں نورسی مرحوم اور دوسرے ترکی شاعرعاکفؔ بے۔ ان حضرات کی درپردہ کوششوں کے نتیجے میں ترکوںکا ایک گروہ دینی جذبات سے ہمکنار وسرشار رہا، حالاںکہ دین کے نام پر کوئی کام کرنا سخت جرم تھا۔ پچاس کے عشرے تک یہی صورت حال رہی۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ترکی کے اندر بعض ناشروں کے ذریعے مولانا مودودی کی کتابیں ترجمہ ہو کر پھیلنا شروع ہو گئیں۔ اگرچہ اس طرح کی کتابوں کی اشاعت بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ تاہم مشیتِ ایزدی نے راہیں ہموار کیں اور ترک نوجوان مولانا مودودی کے افکار سے آشنا ہونے لگا۔ استنبول یونیورسٹی کے اندر اور ترکی کے مختلف شہروں میں قائم شدہ ’’مدارس امام و خطیب‘‘ کے طلبہ میں خاص طور پر مولانا کی دعوت پھیلی۔ ان کتابوں کی مانگ کا یہ حال ہو گیا کہ ہر کتاب ہزارہا کی تعداد میں چھپتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جاتی۔ ستر کے عشرے تک بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ترکی کا کوئی مکتبہ ایسا نہیں رہا جس میں مولانا محترم کی تصنیفات نہ ہوں۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اب دیگر مفکرین کی کتابیں بھی کثرت سے آ رہی ہیں۔

مصطفی کمال پاشا کے دور حکومت میں ترک قوم پر جب عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط مسلط کیا گیا تو ایک وقت ایسا آیا کہ ترک قوم اپنے پچھلے تمام علمی ورثے سے کٹ گئی۔ دوسری جانب جدید تاریخ اور جدید لٹریچر میں اسلامی فکر نہ ہونے کے برابر تھی۔ یوں ترک قوم کی تاریخی خوبیٔ علم سے وابستگی مضمحل ہو کر رہ گئی، تاہم اس نے محض اپنی صفتِ جذباتیت سے اسلام کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا اصل فائدہ جو ترک نوجوانوں کو پہنچا وہ یہ ہے کہ ان کے اندر پائی جانے والی جذباتیت پر علم و تعقل کا رنگ چڑھ گیا اور ان کا اسلام پر اعتماد و اعتزار توانا ہوگیا۔

الحمدللہ! آج ہم خود مغربی تہذیب کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ ہمیںامید ہے کہ ترک قوم پھر اُس خلافت کو بحال کرے گی جس کے خاتمے کی وہ ذمہ دار ٹھہرائی گئی تھی۔ لیکن احیائے خلافت محض خیالی اور جذباتی تصورات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک جدید اور ترقی یافتہ اور سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس خلافت مطلوب ہے۔

حصہ