’’یہ لیں یہ آپ کے لیے، اور ندا اور ثمرہ یہ آپ کے اور آپ کے بچوں کے لیے ہیں۔ ابو، بھائی اور داماد حضرات کے لیے برانڈڈ کمپنی کے شاپر میں ہیں، بھابھی یہ سب سے اچھا برانڈڈ سوٹ آپ کے لیے۔‘‘
ایمن نے نظریں جھکائے دیورانی سے شاپر وصول کیا جو چہک چہک کر سب کو اپنے میکے سے آئے ہوئے تحفے تقسیم کررہی تھیں۔ اور خوش کیوں نہ ہوتیں؟ ان کے پہلے بیٹے کا عقیقہ تھا، یعنی شگفتہ بیگم کے پہلے پوتے کا۔ اس سے پہلے پوتی ہونے پر بھی اسی طرح چھوٹی بہو کے میکے سے خوب تحائف وصول کیے تھے، اور اب تو بات ہی پوتے کی تھی، وہ اپنی چھوٹی بہو کے میکے کی فراخ دلی سے بہت متاثر تھیں۔
’’اماں! ایک ایک سوٹ قیمتی ہے۔ چھوٹی ذرا لانا ماریہ بی والا ڈبہ۔‘‘ ثمرہ نے اماں کو اپنا برانڈڈ سوٹ دکھاتے ہوئے کہا، تو چھوٹی ساتھ اپنا بھی ڈبہ لے آئی۔
’’اماں دیکھیں، میرا سوٹ کتنے مہنگے شاپنگ مال سے لیا ہے، اور ان کا اور بچوں کا بھی بڑی اچھی کوالٹی کا ہے۔ کون دیتا ہے اماں! بہو کے گھر والوں کو اتنے مہنگے سوٹ! سب ایسے ہی بازاروں میں پھر کر عام سے سوٹ پکڑا کر بھی احسان کر دیتے ہیں۔‘‘
ندا نے کہا تو بڑی بہن فوراً بولی ’’ارے لوگ تو بس بیٹی، داماد، نواسے، نواسی کو ہی پکڑا دیتے ہیں، ان کا بڑا ظرف ہے جو انہوں نے ہمیں یاد رکھا۔‘‘
بڑی بیٹی عادتاً زور سے بولی تو ایمن کو بے چینی سے پہلو بدلتے دیکھ شگفتہ بیگم کو اس کی موجودگی کا احساس ہوا، انہوں نے اس کی خجالت دور کرنے کے لیے موضوع تبدیل کرنا چاہا۔
’’اچھا اچھا، اب بس بھی کرو، یہ سب اتنا ضروری نہیں ہوتا، یہ سب لوگوں کی اپنی خوشی ہے، بس اللہ ہمارے پوتے کو ایمان والی لمبی عمر عطا فرمائے۔‘‘
انہوں نے صدقِ دل سے دعا کرکے ایمن سے کہا جو مہمانوں کے جانے کے بعد کچن سمیٹ کر ساس نندوں میں آبیٹھی تھی۔
’’بیٹا! اب آپ بھی تھک گئی ہوں گی، جائیں آرام کریں، اور اب آپ لوگ بھی یہ بکھیڑا سمیٹیں، میں بھی آرام کروں گی۔ گھر میں کوئی تقریب ہو چاہے کام کرو یا نہ کرو تھکن تو ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے دونوں بیٹیوں سے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی راہ لی۔
’’ارے بھئی چہرہ کیوں اترا ہے جناب کا؟ کیا کچھ زیادہ ہی تھکن ہوگئی؟‘‘ گو کہ عمیر اپنی بھولی بیگم کے اترے چہرے کی وجہ بہ خوبی جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھ بیٹھا۔
’’کچھ نہیں…‘‘ ایمن نے اپنی سوئی ہوئی دونوں معصوم سی بچیوں کی جانب دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا تو وہ مطمئن نہ ہوپایا۔
’’دیکھو ایمن! میری نظر میں تو یہ سب کچھ فضول خرافات ہیں اور میں چاہتا ہوں آپ کی نظر میں بھی یہ سب اہم نہیں ہونا چاہیے، امی اس بات کو بہ خوبی سمجھتی ہیں، اور دونوں بہنیں چھوٹی ہیں وہ اپنے سسرال میں میکے سے آنے والے تحائف دکھانے کی خوشی میں تھوڑا جذباتی ہوجاتی ہیں۔ آپ کے اس میں دکھی ہوجانے والی کون سی بات ہے! ہماری مناہل کے عقیقے پر بھی تو آپ کے والدین نے کتنا کچھ دیا تھا، بھول گئیں کیا…! اماں ابا کو بھی سوٹ دیے تھے۔‘‘ عمیر نے اسے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں لیکن کسی کو کچھ پسند نہیں آیا تھا۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں میرے میکے سے آئے ہوئے سوٹ کسی مشہور برانڈ کے نہیں تھے اور اب برانڈ چلتا ہے۔ ثمرہ، ندا کے سوٹ ڈیزائنر سے لیے گئے ہیں اور میرے سوٹ کا ڈبہ دیکھا ہے آپ نے، اس برانڈ کو تو صرف سوچ سکتی ہوں میں۔‘‘ ایمن کی بکھری آواز عمیر کو توڑتی چلی گئی۔
’’آپ کو تو خوش ہونا چاہیے نا، کہ سب کے ساتھ آپ کو بھی یاد رکھا، اور اچھے سے اچھا آپ کو بھی دیا۔‘‘ عمیر نے ایمن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، مگر میں مایوس ہوجاتی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ مجھے دکھانے کے لیے کیا جارہا ہے۔‘‘ ایمن نے بے چارگی سے کہا۔
’’ آپ کو پتا ہے ایسا کیوں ہے، اگر آپ کو اپنی دیورانی سے حسد یا جلن محسوس ہورہی ہو تو برا لگے گا، لیکن اگر آپ کا دل صاف ہے تو بس یہ تو بہت معمولی نوعیت کی بات لگنی چاہیے، جیسے سب خوش ہیں ویسے آپ بھی خوش ہوجائیں۔‘‘ عمیر نے اسے سمجھایا تو وہ خاموش ہوگئی۔
’’ٹٹولیے جناب اپنے دل کو، کہیں شیطان چپ چاپ وار تو نہیں کررہا۔‘‘ عمیر نے مسکراتے ہوئے مدھم لہجے میں کہا تو ایمن جیسے چوکنا ہوگئی۔ ’’ نہیں جناب! ہم اپنی مایوسی کو توڑ کر اس کے ہر وار کو ناکام بنادیں گے۔‘‘ ایمن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عمیر کا ساتھ واقعی اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا، اور اس کے لیے اپنے رب کی شکر گزار تھی۔
’’ارے ایمن بیٹا! دیکھنا منا کیوں اتنا رو رہا ہے، پتا نہیں چھوٹی بہو کہاں ہے۔‘‘ شگفتہ بیگم اوپر پورشن میں بنے چھوٹی بہو کے کمرے سے پوتے کی مسلسل رونے کی آواز سے بے چین ہوگئیں۔
ایمن نے جلدی سے چولہے کی آنچ ہلکی کی اور اوپر دیورانی کے کمرے کی جانب لپکی۔ کمرے میں مسلسل فون بجنے کی آواز آرہی تھی جس کی وجہ سے سوئے ہوئے شہزادے کی آنکھ کھل گئی تھی۔ دیورانی شاید نہانے گئی ہوئی تھیں۔ اس نے جلدی سے منے کو سینے سے لگاکر چپ کرانا چاہا اور فون ریسیو کیا تاکہ منا چپ ہوجائے۔
’’ہیلو السلام علیکم! میں…‘‘ اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے نام بتانا ضروری سمجھا، لیکن دوسری طرف شاید دیورانی کی مما کو زیادہ ہی جلدی تھی، فوراً بولیں ’’میرب بیٹا! تم اپنی ساس، سسر، شوہر اور اپنے سوٹ کے ڈبے تو جلدی واپس بھجوا دو، اگلے ہفتے تمہاری بڑی باجی کی منی کا بھی عقیقہ ہے، تو انہیں بھی انہی ڈبوں میں سوٹ پیک کرکے دینے ہیں۔ اور ہاں بڑے بڑے شاپنگ بیگز اور شاپر بھی یاد سے سنبھال کر رکھ لینا، اگلے اتوار کو آرہی ہو نا تو لیتی آنا۔ اگر جیٹھانی اور جیٹھ کا ڈبہ مل جائے تو وہ بھی لے آنا… ہیلو… ہیلو… میرب سن رہی ہو نا، ہیلو…‘‘
ایمن پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ اس نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے تو فوراً لائن کاٹ دی۔ منا اب پُرسکون ہوگیا تھا۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اسے لیے نیچے چلی آئی۔
ایک عمیر ہی تو تھا جس سے وہ کچھ نہ چھپاتی تھی۔
’’ تو اب کیا چاہتی ہیں ایمن آپ؟‘‘ عمیر خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوا۔
’’عمیر! میں چاہتی ہوں کہ سب کو پتا چلنا چاہیے کہ یہ جو کپڑے وہ برانڈڈ سمجھ رہے ہیں یہ سب دھوکا ہے، یہ عام دکان کے کپڑے ہیں، بس یہ بڑے بڑے شاپنگ بیگز اور ڈبے وغیرہ ان کو اور مہنگا کردیتے ہیں لیکن…‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘ عمیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’لیکن میں اِس بار بھی شیطان کے وار سے بچنا چاہوں گی عمیر۔‘‘ ایمن نے نظر جھکائے ہوئے کہا تو عمیر دل سے اس کا معترف ہوا۔
’’یہ تو اچھی بات ہے ایمن! ہمیں تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں احساسِ کمتری سے بچایا، دکھاوے اور نمود و نمائش کے چکروں سے ہم پاک رہے۔ لیکن ایک بات اور ایمن‘‘۔ عمیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’آپ کو میرب کے سامنے بھی انجان بن کر رہنا ہوگا۔‘‘
عمیر نے ایمن سے کہا تو ایمن سٹپٹا کر بولی ’’اچھا یہ بات ہے! لیکن میں نے تو میرب کو بتادیا کہ آپ کی مما کا فون آیا تھا جو میں نے…‘‘ اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’تو میں نے کیا، ایمن؟‘‘ عمیر نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ تو میں نے کہا کہ… میں سگنل پرابلم کی وجہ سے سن نہیں پائی۔‘‘ ایمن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ایک خوب صورت احساس نے دونوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔