’’امی! بھئی میں نے تو اکٹھے چار عبایا تقریبات میں پہننے کے لیے خرید لیے ہیں۔‘‘ بہو نے یہ خبر ساس کے گوش گزار کی۔
’’بھئی ہمارے زمانے میں تو مردوں کا پنڈال الگ اور خواتین کا الگ لگتا تھا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی مرد خواتین کے پنڈال میں آجائے۔ ضرورت بھی پڑتی تھی کسی بات کی تو باہر سے کھڑے ہوکر کسی محرم یا بوڑھی خاتون کے ذریعے بات کرلی جاتی تھی۔ مگر اب تو ہرجگہ مخلوط تقاریب ہی ہوتی ہیں۔ نہ جانے کیا ہوگیا ہے ہمارے معاشرے کو، سوچ ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں مکس گیدرنگ…! نوجوان نسل کو تو چھوڑو، اچھے خاصے عمر رسیدہ لوگ بھی اس پر خاموش ہیں بلکہ راضی بہ رضا ہیں۔‘‘
بہت دیر تک دل کے پھپھولے پھوڑنے کے بعد جو نظر اٹھائی تو ان کی بہو بڑے آرام سے ٹی وی شو کی طرف متوجہ تھیں۔ گویا وہ دیواروں کو سنا رہی تھیں۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کے وہ کپڑوں کے ڈھیر کی طرف متوجہ ہوگئیں، جو اُن کی بہو نے اُن کے سامنے ڈھیر کردیے تھے۔
’’امی ذرا یہ کپڑے تہہ کردیں، کل سے چھت پر پڑے ہیں۔ ابھی بھی نہیں اتارتی ان کو تو رنگ ہی اترجانا تھا ان کا دھوپ میں پڑے پڑے۔‘‘
’’اے بہو! ذرا اپنے وہ چار عبایا تو دکھاؤ جو تم نے یکمشت ہی تقریبات کے لیے خرید لیے۔‘‘ بہو بیگم نے ٹی وی پر چلتے شو سے نظریں ہٹائیں اور گویا ہوئیں:
’’ابھی دکھاتی ہوں امی! ذرا یہ شو ختم ہو جائے۔‘‘
’’ایک تو یہ نگوڑ مارے شو ہی ختم نہیں ہوتے سارا دن۔ اس میڈیا نے تو معاشرتی اقدار کا ستیاناس نہیں سوا ستیاناس کردیا ہے۔‘‘وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائیں۔
’’یہ دیکھیں، یہ عبایا خریدے ہیں میں نے۔‘‘ ڈارک میرون جس کی آستینوں اور سامنے کے حصے پر گولڈن باریک نگوں سے نفیس ڈیزائن بنا ہوا تھا اور اسکارف بھی فل نگوں سے بھرا تھا۔ دوسرا ڈارک نیوی بلیو جس پر سلور ستاروں سے گل کاری کی گئی تھی۔ تیسرا لائٹ گرین جس پر مختلف لیسز سے ڈیزائننگ کی گئی تھی۔ اور چوتھا بلیک کلر کا جس پہ ملٹی دھاگوں، ستاروں اور موتی سے کام کیا گیا تھا اور ہر عبایا کی قیمت پانچ ہزار سے کم نہیں تھی۔
’’بہو یہ تم نے حجاب کے لیے عبایا خریدے ہیں یا کسی ماڈلنگ میں شرکت کے لیے؟‘‘ اپنے لہجے میں مزاح کا رنگ بھرتے ہوئے مسکرا کے بہو کو مخاطب کیا۔
’’آپ نے بھی نا امی ہمیشہ تنقید ہی کرنی ہے۔ کبھی تعریف مت کیجیے گا۔‘‘
ساس بہو میں انڈراسٹینڈنگ اور کسی حد تک دوستی تھی، یہی وجہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی بات کو بذلہ سنجی کے ساتھ ہلکا پھلکا لیتی تھیں۔
’’بھئی میں تو صرف اتنا کہہ رہی ہوں کہ حجاب کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ اپنے جسم اور زیب و زینت کو چھپایا جائے، اور دوسرا یہ کہ غیر محرموں کے لیے اس میں کوئی جاذبیت نہ ہو۔ مگر اس قسم کے عبایا سے تو یہ دونوں ہی مقصد فوت ہوجاتے ہیں کہ اس پہ جو نگینے، ستارے، موتی ٹکے ہوئے ہیں یہ بجائے خود زینت ہیں اور دوسروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ جب ہم خواتین بار بار نظر اٹھاکر شوق اور دل چسپی سے اسے دیکھتی ہیں تو مردوں کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا وہ نظریں نیچی کرکے بیٹھے رہتے ہوں گے! ذرا غور کرو کہ یہ عبایا تو اُس چھپی ہوئی زیب و زینت سے زیادہ پُرکشش ہیں جو عورت نے عبایا کے اندر کی ہے، اور ان عبایا کے ساتھ وہ اونٹ کے کوہان والا جوڑا اور اس پر لپیٹا ہوا اسکارف، اور اس پہ میک اَپ، آئی شیڈز اور کاجل سے بھری آنکھیں، تو کون کافر ہوگا جس کو اپنی نظروں پہ اختیار ہو؟‘‘
ساس صاحبہ اس پوری گفتگو کے درمیان بہو کے چہرے کے بدلتے رنگوں اور زاویوں کا گہری نظروں سے مشاہدہ بھی کرتی جارہی تھیں کہ آیا بہو کے دل میں بات اتر رہی ہے یا یہ تنقید اسے بری لگ رہی ہے۔ گوکہ بہو بھی اسی دور کی تھی اور کچھ متاثر بھی تھی زمانے کے چلن سے، مگر نصیحت اور اصلاح سے بے بہرہ نہ تھی۔ بڑوں کے مشورے اور نصیحت کو قبول کرنے والی تھی۔ ضدی اور ہٹ دھرم نہ تھی۔ سو بہت غور سے ساس صاحبہ کی پوری بات سنی اور کہنے لگی:
’’جی امی! کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں مگر اب ان عبایا کا میں کیا کروں؟ اچھے خاصے مہنگے بھی ہیں۔‘‘
وہ پھر کچھ سوچ کر گویا ہوئی ’’میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے، ان پہ کام بہت خوب صورت بنا ہوا ہے، کلر بھی بہت اچھے ہیں اور کپڑا بھی بہت نفیس… تو میں محلے کی درزن خالہ سے مشورہ کرتی ہوں کہ ان میں مزید ڈیزائننگ کرکے شلوار قمیص کا سوٹ سلوالیا جائے تو کیسا رہے گا؟ یا پھر غزالہ کے بوتیک میں رکھوا دیتی ہوں جہاں یہ ہاتھوں ہاتھ سیل ہوجائیں گے، اور ہاں بازار سے آج ہی جاکر ایک سادہ عبایا خرید لیتی ہوں جو حجاب کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ کیوں امی جان! ٹھیک ہے نا؟‘‘
اس نے مسکرا کر ساس کے گلے میں بانہیں ڈالیں، اور ساس نے بھی مسکراکر اس کے دونوں ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا لیے اور ایک آسودہ اور طمانیت بھری مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پہ کھیلنے لگی۔