بچے بدلحاظ ….آخر کیوں؟

478

ہمارے معاشرے میں چند دہائی قبل مضبوط خاندان کو انفرادی و اجتماعی طاقت مانا جاتا تھا۔ تمام خاندانی مسائل مشاورت سے حل کیے جاتے۔ لوگ دکھ سکھ، خوشی غمی میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔ ایک دوسرے کی خبر گیری کو ذاتیات میں مداخلت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ محلے کے ہر بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری، ڈانٹ، پیار کا حق خاندان و محلے کے تمام بزرگوں کو حاصل ہوتا۔ پھر چشمِ فلک نے تیزی سے بدلتی ہوئی روایات کو دیکھا۔ ’’پرائیویسی‘‘ نام کا جن اس طرح بے قابو ہوا کہ پہلے خاندانی معاملات نے ذاتی معاملات کا روپ دھارا، پھر خون کے رشتے فون کی صوتی لہروں میں مقید ہوئے اور اہلِ محلہ اپنے اپنے گھروں میں محدود اور پڑوسی سے پڑوسی کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

عقل دنگ ہوئی تو آنکھ محوِ حیرت۔ ٹیکنالوجی نے یوں انسانی احساسات و جذبات پہ غلبہ پایا کہ وہ نئی نسل میں اپنی روایات و اقدار منتقل کرنے میں ناکام ہوگئے اور کہیں نہ کہیں تربیت میں بہت بڑی چُوک ہوگئی۔ نئی نسل خاص طور پہ ٹین ایج بچوں کے مزاج میں جارحیت، عدم برداشت، توہین و تضحیک اور احساسِ برتری عمومی رویہ بن چکا ہے، جس کی چند بڑی وجوہات قابلِ غور ہیں:

بچوں پہ غیر ضروری پڑھائی کا بوجھ لادا گیا۔ ایک ہی دن میں بچوں کو چار مختلف مقامات پہ بھیجا جانے لگا جو انہیںٖ علم دینے کے بجائے ذہنی دباؤ کا باعث بنے۔ اس دبائو نے رٹّا کلچر کو فروغ دیا اور تخلیقی صلاحیتیں معدوم ہوگئیں۔

بچوں کے ہذیانی انداز کی دوسری بڑی وجہ وقت سے قبل آگاہی بنی۔ سوشل میڈیا نے بچوں کو وہ معلومات دیں جس نے ان کے کم عمر ذہن اور جسم دونوں کا جذباتی استحصال کیا۔ ان کے ہارمونز میں گڑبڑ ہوئی جس نے انہیں چڑچڑا بنادیا۔

بزرگوں سے دوری وہ تیسری وجہ ہے جسے کبھی اہمیت کا حامل سمجھا ہی نہیں گیا۔ دادا، دادی ہوں یا نانا، نانی یا کوئی بڑا بزرگ… جن کا شفقت بھرا برتاؤ، روک ٹوک، اچھے برے کی تمیز، زندگی کے پڑھائے ہوئے سبق، قصے کہانیوں میں چھپے ہوئے مثبت پیغام اور ایسے بہت سے اصلاحی اعمال جو بچوں کی تربیت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے۔ بزرگوں کو ناکارہ پرزہ جان کر اس تربیتی دروازے کو اپنے ہاتھوں مقفل کیا گیا۔

بچوں کی خودسری اور من مانی کو عموماً آج کل کی ماؤں کی لاپروائی مانا جاتا ہے، جو حقیقت تو ہے پَر ادھوری ہے۔ بچوں کے اندر پنپنے والے ضد کے مادے کی چوتھی وجہ کو کبھی قابلِ غور نہ سمجھا گیا۔ وہ ہے باپ اور اولاد کے درمیان بڑھتی دوریاں۔ بھاگتی دوڑتی زندگی کے ہم قدم رہنے کی تگ و دو نے حضرات کو اس قدر مصروف کیا کہ بیٹی کے چھوٹے موٹے مسئلے کو حل کرتے اس کے سر پہ نہ باپ کا شفقت بھرا ہاتھ رہا اور نہ بیٹے کی کامیابیوں پہ اس کے کاندھے پہ حوصلہ بھری تھپکی۔ اولاد سے جذباتی وابستگی ختم ہوئی اور اولاد کو آرام و آسائش پہنچانا ہی باپ کی ذمے داری مانا جانے لگا۔

موبائل نامی ایک خطرناک آلہ بچے، بچے کے ہاتھ لگ گیا جسے بہت برا بھلا کہا گیا، نقصانات پہ سیر حاصل گفتگو کی گئی، مگر بچوں میں اس کے صحیح اور مفید استعمال کو رائج کرنے پہ غور و فکر نہیں کیا گیا۔

بچوں میں بڑھتی بے چینی و بد لحاظی کے لیے مجموعی طور پر ایک پوری نسل قصوروار ہے جو اپنا کردار ادا کرنے میں چُوک گئی۔ جب جب انگلی بچوں کی ہیجان خیزی، بے ادبی اور تحمل کے فقدان پہ اٹھتی ہے تب تب تین انگلیاں تربیت پہ بھی نشانہ سادھتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے پہ باقاعدہ ایک لائحہ عمل بنایا جائے اور سختی سے اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔ ابتدا اپنے گھر سے کرنی ہوگی۔ والدین روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مختص کریں جس سے بچوں سے قربت کے لمحات میسر آئیں۔ ان کی روزانہ کی روداد، چھوٹے بڑے مسائل، کچھ تربیتی گفتگو، تھوڑا ہنسی مذاق، کسی کتاب پہ تبصرہ، گھر کے مسائل پہ مشاورت اور ہلکے پھلکے موضوعات زیرِ گفتگو رہیں۔ یہ ایک گھنٹہ ایسا معیاری وقت ہو جس میں ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل یا کوئی بھی اسکرین استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو، اور بچوں سے اس کی توقع تب ہی رکھی جا سکتی ہے جب والدین اپنے اپنے موبائل ایک گھنٹے کے لیے بند کرکے پوری طرح متوجہ ہوں۔ پندرہ دن یا مہینے میں ایک دفعہ بچوں کو کسی رشتے دار کے گھر لے جایا جائے۔ ٹوٹے تعلق استوار کیے جائیں کہ مروت و لحاظ کے اسباق کتابوں سے پڑھ کر نہیں رٹوائے جاسکتے، اس کے لیے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ والدین مل کے تعلیمی اداروں سے مطالبہ کریں کہ طریقۂ تعلیم کو بہتر کیا جائے۔ نصاب کی بیش بہا کتابیں رٹوانے کے بجائے روزانہ ایک یا دو پیریڈ ذہنی و جسمانی مشقت کے رکھے جائیں جہاں ہنر، ادب، تہذیب اور مختلف سرگرمیاں عملی طور پہ سکھائی جائیں۔ موجودہ تعلیمی و معاشرتی نظام میں موبائل کا استعمال ضروری ہوچکا ہے، اس سے بچے کو دور رکھنا ناممکن ہے، اور ڈانٹ ڈپٹ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اپنے اور اپنے بچے کے موبائل میں کچھ پزل اور بے ضرر گیم ایک ساتھ ڈاؤن لوڈ کریں، پھر بچے کے ساتھ صحت مند مقابلہ رکھیں، اس سے بچہ دیگر واہیات اور ہذیانی گیمز سے بچا رہے گا جو بچوں کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ کچھ تفریحی پروگرام اور مثبت ڈرامے بچوں کے ساتھ دیکھیں، ان سے ان کے بارے میں ڈسکس کریں۔ اگر کوئی چیز منفی دیکھیں تو کراہیت کے ساتھ اس کی نفی کریں۔ بچے سے اس کے متعلق رائے پوچھیں اور بچوں کو کھل کے تبصرہ کرنے کا موقع دیں۔ اس سے ان کی سوچ اور ذہنی استعداد تک رسائی آسان ہوگی۔ اپنی بقا کی جنگ ہر نسل کو خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ اس لڑائی کے لیے اپنے بچوں کو تیار کیجیے۔ پَر ایک معاون ہاتھ ان کے کندھے پہ ضرور رکھیے۔ بہتر تعلیم و تربیت کے لیے محنت کڑی شرط ہے۔ کسی مقصد کے لیے اٹھایا گیا پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی راہ ہموار کرتا ہے۔

حصہ