سرمایہ دارانہ تہذیب میں میڈیا کا کردار اور عدلیہ کی ذمہ داری

455

سرمایہ دارانہ نظام جس تیزی سے معاشرت پر غلبہ پا رہا ہے، ضروری ہے کہ ِاس کے تدارک اور فہم کے لیے مستقل اور مختلف عنوانات سے بات ہوتی رہے، وگرنہ صورتحال بہت زیادہ خراب ہوجائے گی اور یہ زہرعمومیت اختیار کر جائے گا۔ اسی فکر کے تحت ویمن اسلامک لائرز (وِل) فورم کے زیر اہتمام گیارہواں سالانہ کنونشن بعنوان،” سرمایہ دارانہ تہذیب میں میڈیا کا کردار و عدلیہ کی ذمہ داری” سٹی کورٹ کے جناح آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا۔کنونشن کی مہمان خصوصی سابق رکن قومی اسمبلی، وسابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل سمیحہ راحیل قاضی تھیں۔اِن کے علاوہ کئی خواتین ججز اور دیگر وکلا و مہمانان نے بھی کنونشن میں شرکت کی۔مقررین کی گفتگو کے اہم نکات قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔

ایڈووکیٹ عبد الصمد خٹک (صدر، اسلامک لائرز موومنٹ ):
استعمار کی کمزوری سے ہمیں خطے میں آزادی ملی لیکن ہم پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے۔میڈیا مکمل سرمایے بشکل اشتہارات کی صورت گھرا ہوا ہے،اْس کا سچ جھوٹ سب سرمایہ دارانہ عقلیت کے ساتھ ہے۔دستوری طور پر اسلامی جمہوریہ ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، حتیٰ کہ اسلام کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ججز پر کام کا بے حد لوڈ ہے ہمیں نظر آتا ہے ، بحیثیت وکیل ہما را کردار بھی کمزورہے۔ کیا ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم کسی ظالم و جابر کا کیس نہیں لڑیں گے۔

ایڈووکیٹ عامر سلیم ،(صدر۔ کراچی بار ایسو سی ایشن):
میڈیا کے کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا عملاً خود سرمایہ دارانہ نظام کا اہم حصہ نظرآتا ہے اور اس سے جو کام ہونا یا لینا تھا وہ نہیں ہو رہا۔ وکلا تحریک میں میڈیا ساتھ رہا جس سے فائدہ محسوس ہوا۔کردار کشی اور منفی چیزوں کے فروغ میں میڈیا آگے نظر آتا ہے۔عدلیہ کے حوالے سے محتاط ہونا چاہیے، عدلیہ کا کام ہے انصاف دینا۔فائلوں سے باہر بھی سچ کی تلاش ہونی چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔قانون پرانا ہو چکا ہے اس میں تبدیلی ناگزیر ہے مگر یہ کام پارلیمنٹ کرے گی جو ہمارے ووٹوں سے بنتی ہے۔

بہروز سبزواری (معروف اداکار ):
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نصف صدی سے زیادہ شو بز سے وابستگی ہے اور مجھے یہیں سے یہ دولت و شہرت ملی ہے۔پی ٹی وی نے اقدار کی ترویج میں ہمیں بہت کچھ سکھایا۔نجی چینلز نے 20 برس میں خصوصاً نیوز چینلز نے معاشرتی اقدار کو بڑا نقصان پہنچایا، پھر ڈراموں کی کمرشلائزیشن نے مزید اثرات ڈالے۔انہوں نے کہاکہ میری عمر 67 سال ہو چکی ہے، اس دوران پاکستان کا بہت اچھا وقت دیکھاہے۔عدالتوں میں بے شمارلوگ آتے ہیں۔اگر عدلیہ مضبوط ہوجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم سب کو بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ شعوری طور پر کرناہوگا۔جب معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجاتی ہے تو تباہی آتی ہے جب ہم حرام کھلاتے ہیں تو اس کے نتائج آتے ہیں۔میں پر امید ہوں اپنی عدلیہ سے چیف جسٹس پاکستان کے لیے مفید فیصلہ کرکے جائیں گے۔ ہر انسان سیاسی ہوتا ہے اس کو دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے۔ اُنہوں نے شریک وکلا و ججز سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ خدارا کسی سائل کی مدد ضرور کریں۔

نزہت شیریں(چیئرپرسن سندھ ویمن کمیشن ):
خواتین کو قتل کرنا کہیں کوئی تہذیب نہیں۔ خطرناک قاتلوں کو رہا کر دینا بھی کوئی تہذیب نہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین آج بھی خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔ حویلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اُن کو انصاف کون دے گا؟ میڈیا سے ہمیں صرف خبریں ملتی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ایسے مظالم پہلے نہیں تھے۔ جہیز سے لے کر وصیت تک کے مسائل ہیں۔

ایڈووکیٹ طلعت یاسمین (سٹی کونسلر۔سابق چیئرپرسن۔ ول فورم):
طلعت یاسمین نے کہا کہ ماں کی گود ہی ہر بچے کی ضرورت ہے۔تہذیب کا عنوان سماجی و اجتماعی زندگی سے جڑا ہے۔پاکستان اسلام کے نظریئے پر بنایا گیا ملک ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سود ،ذخیرہ اندوزی اور جوئے کی بنیاد پر کھڑا ہے جو بیسویں صدی سے پاکستان میں جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ اس نظام سے دو طبقات وجود پاتے ہیں ایک انتہائی امیر دوسرا انتہائی غریب۔ سود اور مہنگائی لازم و ملزوم ہے۔ معیشت کی تاریخ شاہد ہے کہ سودی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ جمہوریت کی تعریف یہ ہوچکی ہے کہ سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے ان کی حکومت۔ پوری دنیا کو سہولت کے نام پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ ایک جانب سپر اسٹور سرمایہ داروں کو فائدہ دیتا ہے تو چھوٹے کریانہ والے مارے جاتے ہیں۔یہاں سے قناعت کا جذبہ ختم ہوا‘ مہنگائی نے عوام کو شدید متاثر کرکے خاندان کے تقدس کو ختم کر دیا ہے۔ اخلاقی اقدار مستقل روندی جا رہی ہیں۔ اسلام خدا پرستی پیدا کرتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام خواہشات کو بھڑکا کر نفس کا غلام بناتا ہے۔ میڈیا اپنا قبلہ اپنی قومی ملی اساس کی جانب کرے۔اُنہوں نے سوال اٹھایا کہ سود کی نحوست کے خاتمے کے لیے عدلیہ کیوں کام نہیں کر پا رہی؟ ہم اس معاشرے کی بقا کے لیے بطور وکیل اپنا کردار ادا کریں۔
ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

(جامعہ کراچی شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل ):
ڈاکٹر عمیر نے سرمایہ دارانہ تہذیب بنیادی عقائد بیان کرتے ہوئے کہاکہ آزادی، مساوات، نفسانی خواہش پر کھڑی عقلیت اور انسان پرستی کی دعوت پر مبنی ہیومن ازم سے جو تہذیب بنتی ہے وہ درحقیقت انکارِ خدا، انکار وحی اور انکار آخرت پر تشکیل پاتی ہے۔ اس میں تمام جذبات بھی برائے فروخت ہوتے ہیں۔ سورہ تکاثر اور ھمزہ میں اس کے لیے صاف اشارے موجود ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشرت ٹیکنا لوجی کو اپنے فروغ میں استعمال کرتی ہے۔ ہم جب سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سوشل ازم کو جگہ دیتے ہیں۔ میڈیا ہمیشہ وار ٹول کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ معاشرے میں کئی جہتوں سے اختلافی مواد پھیلا دیں تو لوگ اپنے ایشو سے کنفیوژ ہوکر ڈی مورلائز ہوجاتے ہیں۔ میڈیا اس میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 15 سال سے بہت تیزی سے فحاشی کے فروغ سے نوجوانوں کو اللہ‘ رسول اور قرآن مجید کی توہین تک لے جایا جا رہا ہے۔ لا محدود اکائونٹس یہ کام کر رہے ہیں‘ ہم خودکشی کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ لوگ قتل عام کریں گے‘ حلال و حرام کی تمیز نہیں رہے گی۔

ایڈووکیٹ نعیم قریشی (سابق صدر،کراچی بار):
میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے دے کر حکومتیں میڈیا ہائوسز کو خرید لیتی ہیں، سارا میڈیا کنٹرولڈ ہے۔ حکومت کی ذمہ داریاں ججز پر ڈال دی جاتی ہیں۔ ججز تو شدید تھریٹ میں رہتے ہیں، اُن پر سارا ملبہ ڈالنا درست نہیں۔ تعلیم، کفالت اور صحت کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جمہوری حکومت میں اصل حکمران یعنی فوج کا نام لیتے ہوئے ہم سب گھبراتے ہیں۔ قائد اعظم نے تو سیاسی جدوجہد سے پاکستان حاصل کیا مگر اب پاکستان پر بندوقوں کا قبضہ ہے۔ 90 فیصد لوئر جیوڈیشری ریلیف دیتی ہے مگر بالائی عدالتیں فیس ویلیو پر چلتی ہیں۔ ایک جج کے ایک دن کا خرچا 15 لاکھ روپے ہوتا ہے اور انصاف صفر ہے۔ امانتوں کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے‘ ریٹائر ہونے کے بعد 10 لاکھ پنشن پانے کے باوجود دفتری گاڑیاں ساتھ لے جاتے ہیں۔

ایڈووکیٹ سلیم منگریو(صدر ہائی کورٹ بار)
موجودہ حالات میں سرمایہ دارانہ نظام سے نجات ممکن نہیں، یہ نظام پوری دنیا میں اپنا کنٹرول چلا رہا ہے، ساری عالمی پالیسیاں وہی بناتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈے کو میچور کیا جاتا ہے۔ عدلیہ کو سیاسی فیصلوں میں الجھایا جا رہا ہے۔ وکلا ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو سرمایہ دارانہ نظام ہم پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کے آنے جانے سے قوانین و آئین تبدیل نہیں ہوتے، پھر ان لوگوں سے مختلف توقعات کیوں لگائی جاتی ہیں؟ اداروں کا تقدس، آئین و قانون پر عمل ہر مفاد سے بالا تر ہو کر بحال ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر فرحانہ اویس (علم دوست چیئر پرسن اور ٹی وی اینکر):
اس وقت دو معاشی نظام نافذ ہیں ایک اشتراکی دوسرا سرمایہ دارانہ، جس میں ہم تمام اخلاقی حدودکو پھلانگ چکے۔ اسلام کے نظام میں خدا پرستی، رحم دلی، اخلاقی اقدار کو فروغ پاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں میں امیر امیر تر ہوتا ہے اور غریب مستقل غریب‘ اور میڈیا اس کام میں اس کا اہم ٹول بنتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی میڈیا اور عدلیہ دونوں معاونت کرتے ہیں۔

ایڈووکیٹ عائشہ شوکت نے ول فورم کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ول فورم ہر سال اپنا آڈٹ بھی کراتا ہے۔ خواتین وکلا میں اسلامی نظریات کا فروغ و تعارف پیش کیا جاتا ہے اور قرآن کو بہ طور ماخذ قانون پڑھایا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ و ملیر بار میں کئی ڈسکشن فورم کیے گئے۔ وراثت اور شرعی قوانین پر وکلا کو خصوصی کورس کرایا گیا۔ مخصوص قیدی بچوں کی رہائی کی سبیل کی جاتی ہے، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، نئے بننے والے ملکی قوانین پر تحقیق و تجزیہ کیا جاتا ہے۔

چیئر پرسن ول فورم ایڈووکیٹ روبینہ قادر جتوئی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کنونشن کی قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت کو بااختیار بنانے اور دائرۂ کار بڑھانے، عدالتوں کو اسلام و آئین کے خلاف اقدامات پر سوموٹو ایکشن لینے اور فوری فیصلے، نظریہ پاکستان سے جڑی ہوئی اسلامی نظریاتی تعلیم سے جوڑا جائے، پیمرا کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ماتحت کیا جائے، مہنگائی و سودی معیشت کے خاتمے، زکوٰۃ کا معاشی نظام اپنانے کے نکات شامل تھے جنہیں شرکائے کنونشن نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔

پروگرام کی مہمان خصوصی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ول فورم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ قرآن مجید میں ہمیں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وکلا و ججز اس نظام کے قیام میں پاسبانی کا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرت کی ترتیب کے لیے میڈیا، معیشت، منصف کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ انہوں نے ول فورم کی جانب سے قانون سازی‘ اس کے فہم اور بطور ارکان اسمبلی یا اسلامی نظریاتی کونسل میں معاونت کو سراہا۔ اُنہوں نے کہاکہ میڈیا منفی جہت پر ذہن سازی کر رہا ہے جس دامن کا داغ دار ہونا معیوب ترین عمل تھا۔ اب ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ کی برانڈنگ میں سب کے لیے قابل قبول بنایا جا رہا ہے۔ یوں میڈیا پوری اسلامی تہذیب کی کایا پلٹ رہا ہے جس سے لوگوں کے اخلاق بگڑ رہے ہیں۔

حصہ