اللہ رب العالمین اپنے جن بندوں کو نہایت اہم ذمے داری سپرد کریں، انہیں خصوصی صلاحیتوں اور اوصاف سے بھی نوازتے ہیں۔ اللہ کے پیغام و احکامات کی تبلیغ اور انسانیت کی رہنمائی کے منصب پر فائز کائنات کی سب سے ارفع و اعلیٰ، محترم و بزرگ ہستیوں انبیائے کرام کو ایسے خصائص عطا ہوئے جن کے باعث وہ عام انسانوں سے ممتاز اور منفرد ہوئے۔
سیدالانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والے بے شمار خصائص میں کچھ تو ایسے ہیں جو کسی دوسرے کو نہیں ملے، خواہ وہ انبیائے سابقین ہوں یا آپؐ کی اُمت کے دیگر افراد۔ کچھ خصائص ایسے بھی ہیں جو بحیثیت نبی ٔ آخرالزماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فضل و افتخار بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خصائص و کمالات کے سبب تااَبد حاصل رہنے والی بلندیوں تک تو پہنچے ہی… بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ… اُمت کے لیے بھی اس طرح باعث ِ رحمت ثابت ہوئے کہ ذاتِ اقدس کا ہر حوالہ اپنے معبود اور اپنے امتیوں کے گرد گھومنے لگا۔ محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ ہر امتیاز، فخر، شان، فضیلت و خصوصیت محمدؐ رسول اللہ کی ہستی اور الَّذِیْنَ مَعَہُ تک پھیل گیا۔
کتب ِسیرت میں سیدالانامؐ کے خصائص و فضائل کی تعداد ہزاروں میں ہے، مگر فی الحقیقت اِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ حَدٌّ … آنحضورعلیہ السلام کے کمالات بے حد وحساب ہیں، جن کے بیان سے انسان عاجز ہے۔ سیرت نگاروں نے اِن خصائص و کمالات کی وسعت کو بھی آنحضور علیہ السلام کی ایک منفرد خصوصیت اور امتیازی شان قرار دیا ہے۔
جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی واحد ہستی ہیں کہ جن کی حیاتِ مطہرہ کا ہر لمحہ، ہرعمل، ہر جنبش نگاہ و لب مکمل تفاصیل کے ساتھ محفوظ ہے۔ تاریخ نے اس قدر باریک بین نگاہوں، احتیاط اور جزئیات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات، خصائل و شمائل کا مطالعہ اور احاطہ کیا ہے کہ یہ بجائے خود حیرت انگیز ہے۔ تاریخ جس نے سرزمینِ عرب کو کبھی بھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا، آپؐ کے وجود سے اس قدر اہم ہوگئی کہ ذاتِ اقدس نہ صرف عرب، بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور معتبرحوالہ، محور و مرکز بن گئی۔ تاریخ کا یہ سفر شروع ہوا تو وہاں وہاں تک پہنچا، جہاں ذاتِ اقدس کا کوئی بھی حوالہ موجود تھا۔ حملۂ اَبرہہ کے موقع پر جدِّرسولؐ کا کردار ہو یا والدِ رسولؐ کی شرافت و نجابت کا فخر، اُمّ رسولؐ کی خاندانی عزت و مرتبت کا تذکرہ ہو، یا ولادت سے پہلے کے واقعات، ظہورِ قدسی کے لمحوں میں کہاں کہاں روشنیاں چمکیں! تہلکے کہاں کہاں مچے! کون کون سے آتش کدے بجھے! کیسے کیسے ہنگامے برپا ہوئے!! یہ سب مناظر تاریخ نے بنظرِغائر دیکھے اور خصائصِ رسالت مآبؐ کے طور پر محفوظ کرلیے۔
رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و خصائل پر شاہد اور راوی آپؐ کے پاکیزہ ساتھی تو ہیں ہی! تعجب انگیز گواہی اُن لوگوں کی ہے جو آپؐ کے نہ تو پیروکار تھے، نہ دین کے علَم بردار، اور نہ آپؐ کے اطاعت گزار! ساری زندگی نظریاتی اختلاف اور تکذیب و عداوت کے مسلسل رویوں کے باوجود عظمتِ مصطفویؐ اور فضیلتِ مرتضوی ؐ کے شاہد۔ کبھی شاہِ رُوم کے محل میں، کبھی نجاشی کے دربار میں، کبھی اپنوں کی مجلس میں اور کبھی اصحابِ رسولؐ کے سامنے!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ذاتی خصوصیت أَنَا دَعْوَۃُ أبِیْ اِبْرَاھِیْمَ… میں اپنے جدِّامجد ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں! رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ … اللہ نے اپنے خلیل کی یہ دعا قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری خصوصیت ’’اُمت پر احسان‘‘ منظرعام پر آئی۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری خصوصیت تشریف آوری سے قبل ماقبل الہامی کتب میں آمد کا تذکرہ، فاران کی پہاڑیوں پر روشنیوں کے طلوع کی خبر… یَأْتِی مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہُ أَحْمَدْ… کی بشارت، مقدس، منور القلب، مبارکِ عالم کائنات کے القاب سے تعارف!
سیدالانام ؐ کی چوتھی خصوصیت… اسمِ مبارک ’’محمدؐ‘‘ اور ’’احمدؐ‘‘… رب العالمین کے اسمِ پاک ’’محمود‘‘ کا حصہ۔ کائنات کا سب سے منفرد، ممتاز نام۔ جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوا، نہ کوئی اِس کا مصداق ٹھیرا، نہ بامسمّٰی پیدا ہوا۔ رسولؐ اللہ عالمِ ہست و بود کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعریف کی ہوئی ہستی قرار پائے۔ یہ خصوصیت بھی آپؐ ہی کا امتیاز ہے کہ اہلِ ایمان کے ناموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ مبارک کا لاحقہ ہمیشہ عطا ہونے والی فضیلتوں اور برکتوں کا موجب ہے۔
خیرالانامؐ کی پانچویں ذاتی خصوصیت آپ علیہ السلام کی رسالت کی شہادت ہے۔ جس ذاتِ اقدس کی آمد پر کائنات میں روشنی بکھر گئی، قیصر و کسریٰ کے محلات کے در و دیوار بجنے لگے، فارس کے آتش کدے بجھ گئے، منصبِ رسالت پر فائز کیے جانے کے بعد راستے میں آنے والے شجر عظمتِ رسالتؐ کے سامنے جھک گئے، مٹھی میں بند حجر رسالت کے گواہ بن کر بول پڑے۔ خود ربّ العالمین نے قسم کھاکر رسالت کی گواہی دی۔ یٰسٓ، وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ ‘ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ… رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹی خصوصیت سے نوازا گیا۔ خود بارگاہِ الٰہی سے اعتراضات کا جواب آیا مَا أَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ… مَا ضَلَّ صَاحِبْکُمْ وَمَا غَوَیٰ… وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ… اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتویں خصوصیت اللہ عزوجل کی طرف سے قرآنِ عظیم میں براہِ راست ذاتی نام سے خطاب کے بجائے صفاتی ناموں کا استعمال ہے۔ یَا اَیُّھَا الْمُزَمِّلْ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر۔ آپؐ کے یہ صفاتی نام بھی آپؐ کی خصوصیت قرار پائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھویں خصوصیت یہ کہ قرآنِ حکیم میں اللہ جل جلالہ نے لَعَمْرُکَ، آپؐ کی زندگی کی قسم اُٹھائی، آپؐ کی جائے اقامت کی قسم… لَا اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ، آپؐ کے عہد کی قسم… وَالْعَصْرِ… آپؐ کی ذات سے متعلق مختلف چیزوں کی قسم!
سرورِ کائنات علیہ افضل التحیات کی نویں خصوصیت… ختمِ نبوت… کہ آپؐ عمارتِ نبوت کی تکمیل کرنے والے، سلسلۂ رسالت کے آخری تاجدار، اس کی آخری اینٹ۔ ختم بِی الْنُبُوَّۃ… لَانَبِیَّ بَعْدِیْ… تاریخیت، کاملیت، جامعیت، ابدیت، عملیت اور عالمیت کی ہمہ گیر خصوصیات کے ساتھ متصف نبوت کے حامل قرار پائے۔ شجروحجرجن کی رسالت کے گواہ، جن و انس جن کی اُمت میں شامل… جن کی شریعت تمام شریعتوں کی ناسخ، جو جبرئیل امین اور وحیِ الٰہی کے آخری مہبط… جن کا ہر لفظ قانون، دین و شریعت، جن کا ہر عمل واجب الاتباع، جن کا ہر قول حرزِ جاں، جن کا ہر فرمان عالی شان، علم و حکمت، جامعیت و معنویت کا خزینہ… اہلِ ایمان کو نہ اختلاف کی اجازت، نہ سرتابی کی جرأت، نہ انکار کی گنجائش… وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ اَمْرًا، اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ ان کے دامنِ پاک سے وابستگی، ان کو معیارِ حق تسلیم کرنا، دل و جان سے غیرمشروط اطاعت، بے چوں و چرا تعمیلِ ارشاد، دین و دنیا کی سعادتوں، نجات اور بخشش کی ضمانت قرار پائے۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دسواں شرف… اُمّی لقب… رسمی تعلیمم تحریر و کتابت سے ناآشنا، روایتی مَدْرَسوں اور مُدَرِّسوں سے بے نیاز۔ براہِ راست اللہ ذوالجلال کی زیرنگرانی تربیت یافتہ… اَدَّ بَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ… مزید یہ کہ اسرارِکائنات، علوم و معارف، دین و دنیا کی رہنمائی کے لیے اَلَمْ نَشْرَحَ لَکَ صَدْرَکَ کی فضیلت سے بہرہ ور ہوئے۔
اُمت کے معلّم، مربی، مزکی، زبان سے منشائے الٰہی کے مبلغ و شارح، عمل سے اُمت کے لیے نمونۂ کامل اور اُسوۂ حسنہ۔ نگاہِ ناز سے دلوں کو جِلا بخشنے، تطہیرقلوب، تعمیرافکار، اور تربیت ِکردار کرنے والے، قول و عمل کو ہم آہنگی عطا کرنے اور زندگی کے تضاد ختم کرنے، دل کی کدورتیں صاف کرنے، غلامی کے طوق اُتارنے، ذلّت و پستی کی زنجیریں توڑنے اور آگ کے گڑھے سے بچا بچا کر رحمت ِ ایزدی کے سائے تلے لاکھڑا کرنے کی بے شمار خصوصیات بھی آپؐ کی ذاتِ مبارک کے نمایاں پہلو ہیں!
سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہویں خصوصیت ’’اُمتِ کثیر“ سے نوازا جانا ہے۔ کوہِ صفا پر توحید و رسالت کا اعلان کرنے والے تنِ تنہا، بے یارومددگار، جانب ِ منزل اکیلے ہی چلنے والے… 23 برس کے محدود عرصے میں لاکھوں جاں نثاروں کے مقتدیٰ، ضعیفوں کے ملجا اور یتیموں کے ماویٰ اور انسانیت کے راہبر و رہنما بن گئے۔ تاریخ نے حجۃ الوداع کے دن شوکت و سطوت کا وہ عظیم الشان منظر بھی دیکھا کہ دائیں بائیں، آگے پیچھے سوا لاکھ سے زیادہ پاکیزہ اصحاب، جاں نثاری و فداکاری کے جام ہاتھوں میں تھامے کھڑے، آقا کے اشارئہ ابرو پر اپنے ماں باپ اور اپنا وجود قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ انسانوں کا اس قدر جمِ غفیر، اتنا بڑا سوادِاعظم کہ اُفق نظروں سے غائب ہوگیا۔ وہ مرحلہ آپہنچا… یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ آپؐ کا یہ فضل کہ آپؐ کی اُمت بڑھتی ہی گئی۔ قیامت تک بڑھتی رہے گی۔ آپؐ اُمتیوں کی کثرت پر فخر کریں گے۔ آپؐ کو یہ خصوصیت بھی عطا ہوئی کہ آپؐ کی اُمت سب سے بڑی، آخری اور بہترین… خَیْرَاُمَّۃٍ… اور ’’اُمت وسط!“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارہویں نمایاں خصوصیت… أصْحَابِیْ کَالْنُّجُوْمِ… ستاروں کی مانند… کائنات کے سب سے محترم، معتبر اور پاکیزہ نفوس آپؐ کے صحابہ قرار پائے۔ انھوں نے صحبت ِرسولؐ کا فیض پایا۔ دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اُنھیں چاہا، جنت کے بدلے جانوں کے سودے کا عہد نبھایا۔ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ۔ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی… ایسے پاکیزہ اور قدسی نفوس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجسم معجزے، تاقیامت اُمت کے لیے ہدایت کے سرچشمے، روشنی کے مینار… اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر یہ بھی تھا کہ آپؐ کے صحابہ کا تذکرہ، آپؐ کے ذکر کے ساتھ قرآن اور ماقبل الہامی کتب میں کیا گیا۔ مَثَلُھُمْ فِی الْتَّوْرَاۃ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔
خیرالانام کی متعدد خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپؐ ’’بابِ رحمت“ اور ’’مفتاح الجنۃ“ ہیں۔ جنت سب سے پہلے آپؐ کے لیے کھولی جائے گی ، اور آپؐ کے بعد آپؐ کے اُمتیوں میں سے نفوسِ مطمئنہ، رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً… اور ان کے بعد دوسرے داخلے کی اجازت پائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق و باطل کی وضاحت کرنے، انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنیوں سے ہم کنار کرنے، آگ کے گڑھوں سے بچا بچا کر جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کرنے، اُمت کی بخشش کی سعیِ مسلسل اور راتوں کو دعائیں کرتے رہنے کے باعث نَبِیُّ الرَّحْمَۃِ اور نَبِیُّ الْتَوْبَۃِ کے امتیازات و خصائص سے بھی متصف ہوئے!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذُوْالقِبْلَتَیْنِ… ساری اُمتوں کی مشترکہ میراث… صَاحِبِ خَیْرُالْقُرُوْنِ… زمانوں میں سب سے بہتر زمانے والے۔ عرب ہی نہیں کائنات کے سب سے محترم، بزرگ اور اشرف خاندان، خوب صورت و نیک سیرت مرد و عورت کے گھر ولادت کے باعث اَشْرَفُ النَّاسِ، اللہ کے بعد کائنات کی سب سے مکرم و محترم ہستی… اَکْرَمُ الْخَلْقِ کے خصائصِ ذاتی سے بھی مشرف ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بُرھَانٌ و بَیِّنَۃٌ کے القاب سے متصف، حیاتِ مبارکہ حق کی روشن و مستحکم دلیل، آپؐ صاحب ِ خلقِ عظیم… جس کی شہادت قرآن نے… اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم… حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قبل از نبوت کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ کریمانہ کے ذکرسے… اِنَّکَ لَتَصِلُ الْرَّحِمَ— آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں، وَتَصْدُقْ الْحَدِیْثَ— سچی بات کہتے ہیں، وَتَحْمِلُ الْکَل… کمزور کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ…ضرورت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں، وَتَقْرِیْ الْضَّیْفَ…مہمان نوازی کرتے ہیں، وَتْعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ… اور حق کی راہ میں مشکلات پر مددگار بنتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے… کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن… کے ذریعے دی۔ اور یہ صفات بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خصائص کا حصہ قرار پائیں!
(جاری ہے)