قیصر کا جلوس روانہ ہوچکا تھا اور لوگ بندرگاہ کی بجائے فصیل کی دوسری جانب دیکھ رہے تھے۔ بعض آدمی جلوس کا ساتھ دینے کی نیت سے نیچے اُتر رہے تھے۔ ولیریس نے عاصم سے کہا۔ ’’میں نے ابھی کلاڈیوس کو دیکھا تھا۔ لیکن اب اُسے اتنی بھیڑ میں تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم جلوس کے ساتھ چلنے کے بجائے دوسرے راستے محل کے سامنے پہنچ جائیں۔ جلوس کے اختتام پر قیصر اپنے محل کی بالکنی سے تقریر کرے گا۔ اور ہم اسے زیادہ قریب سے دیکھ سکیں گے… چلو عاصم چند برس بعد تم اس بات پر فخر کیا کرو گے کہ جب ہرقل ایران کی فتوحات سے واپس آیا تھا تو تم نے اپنی آنکھوں سے اس کا جاہ و جلال دیکھا تھا اور اپنے کانوں سے اس کی تقریر سنی تھی۔ اور تمہارے بچوں اور تمہارے پڑوسیوں کو تمہاری باتیں ناقابل یقین معلوم ہوں گی‘‘۔
عاصم نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ولیریس کا یونانی دوست وہاں سے جا چکا تھا اور جو لوگ ابھی تک وہاں موجود تھے وہ پورے انہماک سے فصیل کے ساتھ ساتھ ایک کھلی سڑک پر گزرتے ہوئے جلوس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عاصم قدرے توقف کے بعد ولیریس سے مخاطب ہوا…’’میرے دوست میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ دیکھا ہے وہ آج بھی مجھے ناقابل یقین محسوس ہوتا ہے۔ میں نے اس شہنشاہ کا جاہ و جلال دیکھا ہے جس کی نگاہوں کے اشاروں سے مشرق و مغرب کی اقوام کی قسمت کے فیصلے ہوتے تھے۔ میں سطوت اور غرور کے اس پیکر مجسم کو دیکھ چکا ہوں جس کے اقتدار کا سفینہ انسانیت کے خون میں تیرتا تھا… میں نے اس لشکر کی فتوحات دیکھی ہیں جس کی رفتار کے سامنے زمین کی وسعتیں سمٹ گئی تھیں۔ پرویز کے لشکر نے شام اور مصر کی فتوحات کے بعد جو جشن منائے تھے وہ تمہارے اس جشن سے کم نہ تھے۔ یروشلم کی فتح کے بعد میں نے شراب سے مدہوش ایرانیوں کے جو مہیب قہقہے اور بے بس عورتوں کی جو چیخیں سُنی تھیں، وہ اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں، میں اس اندوہناک ماضی کو بھال جانا چاہتا ہوں جس کی تاریخ میرے نزدیک ظالم اور مظلوم کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’پرویز کا ظلم اس کی زندگی کے ساتھ ختم ہوچکا ہے۔ اور اب ہم انسانیت کی تاریخ کا ایک نیا ورق اُلٹ چکے ہیں۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم روم کی اس عظیم فتح پر خوش نہیں ہو‘‘۔
عاصم نے اپنے ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ’’شاید میں ان لوگوں میں سے ہوں، جو ناممکنات پر یقین رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے چند المناک واقعات کے بعد یہ سوچنا شروع کردیا تھا کہ انسانیت کی نجات جنگ کے اختتام میں ہے۔ پھر میں نے اپنے آپ کو یہ فریب دینے کی کوشش کی تھی کہ دنیا پر ایک عظیم شہنشاہ کے غلبہ سے قبیلوں، نسلوں اور ملکوں کی جنگ ختم ہوجائے گی۔ اور میرے نزدیک وہ عظیم شہنشاہ خسرو پرویز تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہوا کہ طاقت ایک جابر انسان کو انصاف کی طرف مائل نہیں کرتی، بلکہ اور زیادہ جابر بنادیتی ہے اور میں پرویز کے لشکر کا ساتھ دے کر صرف اپنی اَنا کی تسکین کا سامان مہیا کررہا تھا پھر جب حادثات مجھے حبشہ کے راستے سے موڑ کر قسطنطنیہ لے آئے اور میں ایران کے ظالم حکمران کا ساتھ چھوڑ کر روم کے مظلوم حکمران کا طرف دار بن گیا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ روم اور ایران کی جنگ مزید خونریزی کے بغیر ختم ہوجائے گی اور کم از کم آبنائے باسفورس کے اس پار بسنے والے تباہی کے اس سیلاب سے بچ جائیں، جس کی ہولناکیاں مشرقی ممالک کے باشندے دیکھ چکے ہیں۔ اور میں نے قید سے رہا ہونے کے بعد یہ محسوس کیا تھا، قیصر کی یہ غیر متوقع کامیابی امن اور عدل و انصاف کے متعلق سین کے سپنوں کی تعبیر ہے، لیکن آپ بُرا نہ مانیے۔ ابھی تھوڑی دیر قبل جب میں قیصر کو رتھ پر سوار ہوتے دیکھ رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پرویز دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ اس کی صورت اُس حکمران سے مختلف نہ تھی جسے میں نے یروشلم کی فتح کے بعد دیکھا تھا اور اسے دیکھ کر نعرے لگانے والے بھی مجھے ان لوگوں سے مختلف نہیں دکھائی دیتے جو پرویز کو دیکھ کر نعرے لگایا کرتے تھے‘‘۔
ولیریس نے قدرے برہم ہو کر کہا۔ ’’تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ قیصر اور ان کی رعایا کو اپنی فتح اور ایرانیوں کی شکست پر خوش نہیں ہونا چاہیے؟‘‘
’’نہیں‘‘ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ فتوحات جو انسانوں کو دیوتائوں کا غرور عطا کرتی ہیں، امن کی بجائے ہمیشہ نئی جنگوں کے راستے کھولتی ہیں۔ میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ امن کا راز کسی ایک انسان کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کی کسی دوسرے انسان، کسی دوسری قوم یا کسی دوسرے ملک پر فتح یا بالادستی میں نہیں۔ بلکہ تمام انسانوں پر کسی ایسے نظام کی فتح میں ہے جو طاقتور کو کمزور کی حفاظت اور نگہبانی سکھاتا ہو۔ لیکن تمہیں میری باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اور اِس دُنیا میں اس کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہاں ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم بنتے رہیں گے۔ ہمیں مستقبل کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے حصے کے آلام و مصائب جھیل چکے ہیں۔ اب جنگ ختم ہوچکی ہے اور ہمیں یہ اُمید رکھنی چاہیے کہ قیصر اپنی ان فتوحات پر قناعت کرے گا اور ہماری زندگی کے باقی سال امن سے گزر جائیں گے۔ پھر اگر کسی دن کسی نئے قیصر کے دل میں پرویز کی روح بیدار ہوگی یا ایران کی زمین سے کوئی نیا اژدھا اُٹھے گا تو ہم یہ دیکھنے کے لیے اس دُنیا میں موجود نہیں ہوں گے کہ ہمارے بعد آنے والوں پر کیا گزرتی ہے‘‘۔
ولیریس کی آنکھوں میں شراب کا خمار جھلک رہا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’تمہاری باتوں کی داد صرف کلاڈیوس دے سکتا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اب چلو آج تمہیں ہرقل کی تقریر ضرور سننی چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’نہیں تم جائو… میں اب سیدھا کلاڈیوس کے گھر جائوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ فسطینہ وہیں ہو۔ اور اگر وہ وہاں نہ ہوئی تو بھی میرے لیے وہاں بیٹھ کر انتظار کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔
کلاڈیوس کے گھر میں ایک بوڑھے نوکر کے سوا کوئی نہ تھا۔ اس نے غور سے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’آپ عاصم ہیں؟ معاف کیجیے میں آپ کو پہچان نہیں سکا۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے ہیں۔ کلاڈیوس اور اس کے والد کو قیصر کے بعد سب سے زیادہ آپ کا انتظار تھا۔ وہ سب قیصر کا جلوس دیکھنے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ آپ تشریف رکھیں وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے‘‘۔
عاصم نے سوال کیا۔ ’’فسطینہ کیسی ہے‘‘؟
’’جی، اس کی ماں مر گئی تھی اور وہ ابھی تک اس کا غم نہیں بھول سکی۔ وہ آپ کے لیے بھی قیرہاً ہر روز گرجے میں جا کر دعا کیا کرتی ہے۔ میں اکثر اس کے ساتھ جایا کرتا ہوں اور میں نے دعا کے وقت اکثر اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر پہلے آجاتے تو وہ یہیں تھی۔ انطونیہ اور جولیا کے اصرار کے باوجود وہ ان کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ اسے اب گرجے اور قبرستان کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی۔ جب وہ چلی گئیں تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں گرجے جارہی ہوں۔ میں نے کہا۔ آج وہاں کوئی نہیں ہوگا اور شاید گرجے کا دروازہ بھی بند ہو۔ وہ کچھ دیر بیٹھی رہی اور پھر اچانک اُٹھ کر بولی۔ ’’میں قبرستان کی طرف جارہی ہوں‘‘۔ پھر اس نے چند پھول توڑے اور باہر نکل گئی۔ اگر گھر میں کوئی ہوتا تو میں یقیناً اس کے ساتھ جاتا۔ آپ اطمینان سے بیٹھیں۔ وہ بہت جلد آجائے گی۔ قبرستان زیادہ دور نہیں‘‘۔
’’وہ کون سے قبرستان کی طرف گئی ہے‘‘۔
’’وہ قبرستان مغربی دروازے کے باہر ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ آپ تشریف رکھیں۔ میں اُسے بلا لاتا ہوں‘‘۔
’’نہیں‘ میں خود وہاں جانا چاہتا ہوں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر واپس مڑا۔ بیرونی دروازے کے قریب اس نے ایک کیاری سے گلاب کے چند پھول توڑے اور باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ مغربی دروازے سے باہر ایک قبرستان کے اندر داخل ہوا۔ وہاں ایک ٹیلے کے دامن میں اسے دور سے ایک سیاہ پوش عورت دکھائی دی۔ وہ بھاگ کر آگے بڑھا، رکا، پھر کبھی تیز اور کبھی سست رفتار سے ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اور اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ فسطینہ نے اچانک مڑ کر دیکھا۔ اور عاصم کے پائوں زمین سے پیوست ہو کر رہ گئے۔ چند ثانیے وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر زندگی کے پُرسکون سمندر میں اچانک ایک طوفان اُٹھا۔ اور وہ بے اختیار ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ! میں آگیا ہوں، میں زندہ ہوں۔ اب مَیں کہیں نہیں جائوں گا‘‘۔
اور فسطینہ کے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے سسکیوں کے سوا اور کوئی آواز نہ نکلی۔ پھر یہ دبی دبی سسکیاں بلند ہونے لگیں اور عاصم اپنے سینے پر اس کے آنسوئوں کی نمی محسوس کرنے لگا۔
اچانک اس نے ایک کپکپی لی اور عاصم سے جدا یک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
عاصم نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی اُوپر اُٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’فسطینہ میری طرف دیکھو۔ میں سچ مچ زندہ ہوں‘‘۔
لیکن فسطینہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور ایک بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
عاصم نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’کاش میں تمہاری کھوئی ہوئی مسرتیں واپس لاسکتا۔ یہ تمہاری ماں کی قبر ہے؟‘‘
اس نے عاصم کی طرف دیکھے بغیر اثبات میں سر ہلادیا۔ اور عاصم نے آگے بڑھ کر قبر پر گلاب کے پھول رکھ دیے۔ اور پھر فسطینہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’فسطینہ! میں جانتا ہوں کہ میری محبت نے تمہیں آنسوئوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لیکن اپنے مقدر کی تاریکیوں میں تمہاری آنکھوں کی روشنی میرا آخری سہارا تھا۔ فسطینہ میری طرف دیکھو‘‘۔
فسطینہ اپنے آنسو پونچھنے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’عاصم میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں بیٹھ جائو…!‘‘
(جاری ہے)