-1 کھانے سے پہلے ہاتھ دھولیجیے۔ طہارت اور نظافت کا تقاضا ہے کہ کھانے میں پڑنے والے ہاتھوں کی طرف سے طبیعت مطمئن ہو۔
-2 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کیجیے اور اگر بھول جائیں تو یاد آنے پر بسم اللہ اولہ و آخرہ کہہ لیجیے۔ یاد رکھیے جس کھانے پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا اس کو شیطان اپنے لئے جائز کرلیتا ہے۔
-3 کھانے کے لئے ٹیک لگا کر نہ بیٹھیے۔ خاکساری کے ساتھ اکڑوی بیٹھیے یا دو زانو ہوکر بیٹھیے یا ایک گھٹنا بچھا کر اور ایک کھڑا کرکے بیٹھیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بیٹھتے تھے۔
-4 ہمیشہ سیدھے ہاتھ سے کھایئے، ضرورت پڑنے پر بائیں ہاتھ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔
-5 تین انگلیوں سے کھایئے اور اگر ضرورت ہو تو چھنگلی چھوڑ کر چار انگلیوں سے کام لیجیے اور انگلیاں جڑوں تک آلودہ کرنے سے پرہیز کیجیے۔
-6 نوالہ نہ زیادہ بڑا لیجیے اور نہ چھوٹا اور ایک نوالہ نگلنے کے بعد ہی دوسرا نوالہ منہ میں دیجیے۔
-7 روٹی سے انگلیاں ہرگز صاف نہ کیجیے، یہ بڑی گھنائونی عادت ہے۔
-8 روٹیوں کو جھاڑنے اور پٹکنے سے بھی پرہیز کیجیے۔
-9 پلیٹ میں اپنی طرف کے کنارے سے کھایئے، نہ بیچ میں ہاتھ ڈالیے اور نہ دوسروں کی طرف ے کھایئے۔
-10 نوالہ گر جائے تو اٹھا کر صاف کرلیجیے یا دھولیجیے اور کھا لیجیے۔
-11 کھانا مل جل کر کھایئے، مل جل کر کھانے سے الفت و محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور برکت بھی۔
-12 کھانے میں کبھی عیب نہ نکالیے، پسند نہ ہو تو چھوڑ دیجیے۔
-13 بہت گرم جلتا ہوا کھانا نہ کھایئے۔
-14 کھانے کے دوران ٹھٹھا مارنے اور بہت زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کیجیے۔
-15 بلا ضرورت کھانے کو نہ سونگھیے، کھانے کے دوران نہ بار بار اس طرح منہ کھولیے کہ چبتا ہوا کھانا نظر آئے اور نہ بار بار منہ میں انگلی ڈال کر دانتوں سے کچھ نکالیے اس سے دسترخوان پر بیٹھنے والوں کو گھن آتی ہے۔
-16 کھانا بھی بیٹھ کر کھایئے اور پانی بھی بیٹھ کر پیجیے۔ البتہ ضرورت پڑنے پر پھل وغیرہ کھڑے ہوکر کھاسکتے ہیں اور پانی بھی پی سکتے ہیں۔
-17 پلیٹ میں جو کچھ رہ جائے اگر رقیق نہ تو پی لیجیے ورنہ انگلی سے چاٹ کر پلیٹ صاف کرلیجیے۔
-18 کھانے پینے کی چیزوں پر پھونک نہ ماریئے، اندر سے آنے والی سانس زہریلی اور گندی ہوتی ہے۔
-19 پانی تین سانس میں ٹھہر ٹھہر کر پیجئے۔ اس سے پانی بھی ضرورت کے مطابق پیا جاتا ہے اور آسودگی بھی ہوجاتی ہے اور یکبارگی پوری برتن کا پانی پیٹ میں انڈیل لینے سے کبھی کبھی تکلیف بھی ہوجاتی ہے۔
-20اجتماعی کھانے میں، دیر تک کھانے والوں اور آہستہ کھانے والوں کی رعایت کیجیے اور سب کے ساتھ اٹھیے۔
-21 کھانے سے فارغ ہوکر انگلیاں چاٹ لیجیے اور پھر ہاتھ دھو لیجیے۔
-22 پھل وغیرہ کھارہے ہوں تو ایک ساتھ دو دو عدد یا دو دو قاشیں نہ اٹھایئے۔
-23 لوٹے کی ٹونٹی یا صراحی یا اسی طرح کی دوسری چیزوں سے پانی نہ پیجئے ایسے برتن میں پانی لے کر پیجئے جس میں پیتے وقت منہ میں جانے والا پانی نظر آئے تاکہ کوئی گندگی یا مضر چیز پیٹ میں نہ جائے۔
-24 کھانے سے فارغ ہوکر یہ دعا پڑھیے:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَناَ وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَ اٰوَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
’’حمد و ثنا اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں کھلایا اور جس نے ہمیں پلایا اور جس نے ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا‘‘۔
سونے اور جاگنے کے آداب:
-1 جب شام کا اندھیرا چھانے لگے تو بچوں کو گھر بلالیجیے اور باہر نہ کھیلنے دیجیے۔ ہاں جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو نکلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ احتیاط اسی میں ہے کہ کسی اشد ضرورت کے بغیر بچوں کو رات میں گھر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب شام ہوجائے تو چھوٹے بچوں کو گھر میں روکے رکھو، اس لیے کہ اس وقت شیاطین (زمین میں) پھیل جاتے ہیں۔ البتہ جب گھڑی بھر رات گزر جائے تو بچوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ (صحاح ستہ بحوالہ حصن حصین)
-2جب شام ہوجائے تویہ دعا پڑھیے۔ نبیؐ صحابہ کرامؓ کو یہی دعا پڑھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے:
’’الٰہی! ہم نے تیری ہی توفیق سے شام کی اور تیری ہی مدد سے صبح کی، تیری ہی عنایت سے جی رہے ہیں اور تیرے ہی اشارے پر مر جائیں گے اور انجام کار تیرے ہی پاس اٹھ کر حاضر ہوں گے‘‘۔ (ترمذی)
اور مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھیے:
الٰہی! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا، پس تو میری مغفرت فرمادے‘‘(ترمذی، ابودائود)
-3 عشا کی نماز پڑھنے سے پہلے سونے سے پرہیز کیجیے۔ اس طرح اکثر عشا کی نماز خطرے میں پڑ جاتی ہے اور کیا خبر کہ نیند کی اس موت کے بعد اللہ بندے کی جان واپس کرتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لیے ہی لے لیتا ہے۔ نبیؐ عشا سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے۔
-4 رات ہوتے ہی گھر م میں روشنی ضرور کرلیجیے۔ نبیؐ ایسے گھر میں سونے سے پرہیز فرماتے جس میں روشنی نہ کی گئی ہوتی۔
-5 رات گئے تک جاگنے سے پرہیز کیجیے۔ شب میں جلد سونے اور سحر میں جلد اٹھنے کی عادت ڈالیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’عشا کی نماز کے بعد یا تو یاد الٰہی کے لئے جاگا جاسکتا ہے یا گھر والوں سے ضرورت کی بات کرنے کے لئے‘‘۔
-6 رات کو جاگنے اور دن میں نیند پوری کرنے سے پرہیز کیجیے۔ اللہ نے رات کو آرام کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور دن کو سوکر اٹھنے اور ضروریات کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کا وقت قرار دیا ہے۔
سورۃ الفران (47) میں ہے:
’’اور وہی اللہ ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ پوش اور نیند کو راحت و سکون اور دن اٹھ کھڑے ہونے کو بنایا ہے‘‘ (الفرقان: 47/25)
اور سورۃ النبا میں ہے:
’’اور ہم نے نیند کو تمہارے لیے سکون و آرام، رات کو پردہ پوش اور دن کو روزی کی دوڑ دھوپ کا وقت بنایا‘‘ (النبا: 12-10/78)
اور سورۃ النمل (86) میں ہے:
’’کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے (تاریک) رات بنائی کہ یہ اس میں آرام و سکون حاصل کریں اور دن کو روشن (کہ دوڑ دھوپ کریں) بلاشبہ اس میں مومنوں کے لیے سوچنے کے اشارات ہیں‘‘ (النمل: 86/27)
رات کو تاریک اور سکون و آرام کا وقت بنانے اور دن کو دوڑ دھوپ اور محنت کے لیے روشن بنانے میں اشارہ یہ ہے کہ رات کو سونے کی پابندی کی جائے اور دن میں اپنی ضرورت کے لیے محنت اور کوشش کی جائے۔ دن کی روشنی میں اپنے معاش اور ضروریات کے لیے تن دہی اور سخت کوشش کے ساتھ لگے رہیے، یہاں تک کہ آپ کے اعضا اور قوتیں تکان محسوس کرنے لگیں، اس وقت رات کی پرسکون اور پردہ پوش فضا میں سکون و راحت سے ہم آغوش ہوجایئے اور دن طلوع ہوتے ہی پھر اللہ کا نام لیتے ہوئے تازہ دم میدان عمل میں اتر پڑیئے۔ جو لوگ آرام طلبی اور سستی کی وجہ سے دن میں خراٹے لیتے ہیں یا داد عیش دینے اور لہو ولعب میں مبتلا ہونے کے لیے رات بھر جاگتے ہیں، وہ قدرت کی حکمتوں کا خون کرتے ہیں اور اپنی صحت و زندگی کو برباد کرتے ہیں۔ دن میں پہروں تک سونے والے اپنے دن کے فرائض میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور جسم و جان کو بھی آرام سے محروم رکھتے ہیں، اس لیے کہ دن کی نیند رات کا بدل نہیں بن سکتی۔ نبیؐ نے تو اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ آدمی رات بھر جاگ کر اللہ کی عبادت کرے اور خود کو ناقابل برداشت مصیبت میں ڈالے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک بار نبیؐ نے پوچھا: ’’کیا یہ بات جو مجھے بتائی گئی ہے صحیح ہے کہ تم پابندی سے دن میں روزے رکھتے ہو اور رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہو؟‘‘ حضرت عبداللہؓ نے کہا جی ہاں! بات تو صحیح ہے۔ نبیؐ نے ارشاد فرمایا نہیں ایسا نہ کرو، کبھی روزہ رکھو اور کبھی کھائو پیو، اسی طرح سوئو بھی اور اٹھ کر نماز بھی پڑھو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے (بخاری)
-7زیادہ آرام دہ بستر استعمال نہ کیجئے۔ دنیا میں مومن کو آرام طلبی، سہل انگاری اور عیش پسندی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ زندگانی مومن کے لئے جہاد ہے اور مومن کو جفاکش، سخت کوش اور محنتی ہونا چاہئے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (شمائل ترمذی)
حضرت حفصہؓ سے کسی نے پوچھا، آپ کے یہاں نبیؐ کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دہرا کرکے ہم نبیؐ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا جائے تو ذرا زیادہ نرم ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے اس کو چوہرا کرکے بچھادیا، صبح کو آپؐ نے دریافت کیا، رات میرے نیچے کیا چیز بچھائی گئی تھی۔ میں نے کہا وہی ٹاٹ کا بستر تھا، البتہ رات میں نے اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہوجائے۔ نبیؐ نے فرمایا، اس کو دہرا ہی رہنے دیا کرو، رات بستر کی نری تہجد کے لئے اٹھنے میں رکاوٹ بنی۔ (شمائل ترمذی)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار ایک انصاری خاتون آئیں اور انہوں نے نبی اکرمؐ کا بستر دیکھا، گھر جاکر اس خاتون نے ایک بستر تیار کیا، اس میں اون بھر کر خوب ملائم بنادیا اور نبیؐ کے لئے بھیجا۔ نبیؐ جب گھر تشریف لائے اور وہ نرم بستر رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! فلاں انصاری خاتون آئی تھیں اور آپؐ کا بستر دیکھ گئی تھیں، اب یہ انہوں نے آپؐ کے لئے تیار کرکے بھیجا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا نہیں، اس کو واپس کردو، مجھے وہ بستر بہت ہی پسند تھا اس لئے واپس کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا مگر نبیؐ نے اتنا اصرار فرمایا کہ مجھے واپس ہی کرنا پڑا۔ (شمائل ترمذی)
(جاری ہے)