بیٹی باعث رحمت کیوں نہیں؟

298

بیٹی کا ذکر آتے ہی ہمارے دلوں میں نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی کے لیے احسان اور محبت کے جذبات امنڈ آتے ہیں جنہوں نے بیٹی کی پیدائش کو خوش خبری اور اللہ کی رحمت سے تعبیر کیا۔ آپؐ نے تین بیٹیوں کی پیدائش، تعلیم و تربیت اور شادی کے فرائض خوش دلی سے انجام دینے والے والدین کو جنت کی خوش خبری سنائی ہے۔ یہی نہیں آپؐ نے ایک بیٹی کی صورت میں بھی یہی نوید سنائی۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان بیٹی کی پیدائش پہ خوش نہ ہو اور اسے باعثِ رحمت نہ سمجھے!

ہمارے معاشرے میں کئی پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد بھی بیٹی کی پیدائش پر اس طرح خوش نہیں ہوتے جس طرح بیٹے کی پیدائش پر ہوتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہو تو مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور دھوم دھام سے عقیقہ بھی کیا جاتا ہے، جب کہ بیٹی کی پیدائش پہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ شکایتی انداز گویا اس بات کا اظہار ہے کہ وہ بیٹی کی آمد پہ خوش نہیں ہیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ نئی نسل ان باتوں سے قدرے دور ہے۔ دوسری طرف غریب، اَن پڑھ اور محنت کش طبقہ ہے جو بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز اور شادی بیاہ کی فکر میں ہلکان ہوجاتا ہے۔ ان کے خیال میں انہیں بیٹی کے جہیز کے ساتھ سسرال کے تقاضے بھی پورے کرنے پڑیں گے، لہٰذا اپنی بیٹیوں کو کم عمری میں ہی دو، چار جماعتیں پڑھاکر اسکول سے نکال لیتے ہیں اور کچھ تو سرے سے ہی اسکول نہیں بھیجتے اور گھروں میں کام کاج کے لیے بھیج دیتے ہیں، تاکہ وہ خود کماکر اپنے لیے جہیز کا سامان جمع کریں۔ اس کے برعکس بیٹوں کو تعلیم دلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ ضرور تلاش کرلیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ غربت، روزگار کی کمی اور ناسازگارحالات کی بنا پر بیٹے کو بھی تعلیم دلانے کے بجائے محنت، مزدوری پر لگا دیا جائے۔ اس کے باوجود لڑکے اور لڑکی میں فرق ضرور رکھا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لیے بہتر خوراک، آرام اور فوقیت کا اظہار کیا جاتا ہے، جب کہ لڑکیوں کو غذا میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا اور گھر گھر کام کاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگوں کے بیٹوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں تب بھی وہ گھروں میں آرام سے پڑے رہتے ہیں اور ان کی بیویاں اُن کے حصے کی ذمے داریاں سنبھالتی ہیں اور گھروں میں کام کاج کرکے اخراجات پورے کرتی ہیں۔

ان حالات میں کوئی Daughters Day کا تصور بھی کیسے کرسکتا ہے! اس کے لیے ذرا اپنے پڑوسی ملک ہندوستان کی طرف نظر ڈالنی ہوگی جہاں سے اس دن کے تصور نے جنم لیا۔ پاکستان کی نسبت ہندوستان میں لڑکیوں کی پیدائش کو دل سے قبول ہی نہیں کیا جاتا اور صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں کے صوبے راجستھان میں حمل کے دوران الٹرا سائونڈ کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کی جاتی ہے۔ اگر لڑکی ہو تو حمل ضائع کروا دیا جاتا ہے جو کہ بذاتِ خود ماں کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غربت کی وجہ سے وہاں جسم فروشی عام ہے۔ والدین خود اپنی بیٹیوں کو اس گھنائونے کام پر مجبور کرتے ہیں جو پیسہ کمانے کا آسان ترین نسخہ ہے۔ اس طرح ہندوستان بیٹیوں کے لیے بدترین جائے پناہ ہے، لیکن یاد رہے کہ وہاں اکثریت بت پرستوں کی ہے جو بیٹی کی عزت اور وقار کے تصور سے یکسر ناآشنا ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی بیٹی کو زحمت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں جن کا جاننا ضروری ہے:

-1دین کے فہم سے جزوی یا مکمل لاعلمی

-2حکمرانوں کی غلط ترجیحات اور ناقص پالیسیاں

-3معاشی ناہمواری جو غلط ترجیحات کا ہی تسلسل ہے

ان وجوہات سے نجات پا کر ہی ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کا تقدس بحال ہوگا۔ عرصے سے پاکستان میں غریب گھرانوں کی کم سن بچیاں گھروں میں نوکریاں کرتی ہیں جہاں وہ آئے دن کسی نہ کسی صورت تشد د کا شکار ہوتی ہیں اور ایسے کئی واقعات رپورٹ بھی ہوئے ہیں، جب کہ کتنے ہی رپورٹ ہونے سے رہ بھی جاتے ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ تمام وجوہات کا تجزیہ کریں کہ کہاں پر کس طرح کے عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں کم سن بچیاں آئے دن ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔

وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں میں لڑکیوں کے حوالے سے حالات مختلف ہیں لیکن ان میں کہیں نہ کہیں کوئی قدر مشترک نظر آتی ہے۔ پنجاب میں جبری مشقت اور کھیتوں میں کام کرنے کے علاوہ علاقے کے زمینداروں کی غلامی یا شہروں میں اچھے روزگار کے لیے نقل مکانی کی جاتی ہے اور پھر لڑکیوں کو جائے ملازمت پر کہیں ہراسمنٹ اور کہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ سندھ میں غریب محنت کش اور ہاری طبقے کی عورتیں اور کم سن بچیاں جاگیرداروں، وڈیروں اور پیروں کی حویلی نما جیلوںمیں قید اور جبر و تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دو قت کی روٹی کے لیے ان نام نہاد وڈیروں اور پیروں کے گھروں میں بے حرمتی اور جان کے خطرے سے مسلسل دوچار بھی رہتی ہیں۔

کے پی کے میں صورتِ حال مختلف ضرور ہے لیکن خوش آئند نہیں۔ عام پٹھان گھرانوں کی بچیاں عزت اور غیرت کے نام پر کام کاج کے لیے گھروں سے باہر نہیں جاتیں لیکن وہاں ایک دوسرا چلن عام ہے، وہاں لڑکیوں سے شادی کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کی جاتی ہے اور عمر رسیدہ آدمی کے ساتھ نوعمر لڑکی کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ ظلم یہ ہوتا ہے کہ پھر اس بچی کو اپنے خاندان والوں سے ملنے تک نہیں دیا جاتا۔ بعض اوقات اپنی بچیوں کو جسم فروشی کے لیے کسی کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جس کا قیام ہی خالصتاً اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے، وہاں بیٹیوں کی عزتیں پامال اور نیلام ہوں یہ قطعاً قابلِ قبول نہیں ہے۔

جب تک ہم ان مسائل اور وجوہات کا تدارک نہیں کریں گے ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی عزت اور وقار خطرے سے دوچار رہے گا۔ یہ تو اربابِ اختیار کا فرض ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین کریں جس میں سرفہرست تعلیم کو عام کرنا ہے۔ تعلیم کے بغیر عوام الناس میں اپنے حقوق اور عزت کی حفاظت کا شعور اور آگہی پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ تمام فلاحی اور رفاہی اداروں کو بھی تعلیم کو جہاد سمجھ کر عام کرنے کا مشن سونپنا ہوگا۔ ہمارے ملک کے طول و عرض اور قریے قریے میں اسکول اور کالجز تمام خاص وعام کے لیے اپنے دروازے کھول کر موجود ہونے چاہئیں تاکہ تعلیم کی روشنی سے یہ ملک اور اس کی گلیاں تک روشن ہوجائیں۔ آیئے دعا کریں کہ وطنِ عزیز کی کسی بھی بیٹی کو غربت کی وجہ سے کسی بھی قسم کا دکھ نہ سہنا پڑے، اور اسے نبیؐ کے قول کے مطابق عزت اور تکریم میں بیٹوں کے مقابلے میں کم تر نہ سمجھا جائے، نہ ہی اسے کسی قسم کی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑے۔

حصہ