قسط 2
پروگرام کے مطابق سب کو اگلی صبح روانہ ہونا تھا۔ سفر کے مطابق سارا سامان باندھ لیا گیا تھا۔ جب شام کے سائے زیادہ گہرے ہو گئے تو جمال اور کمال نے اپنے والد سے کہا کہ کیا یہ اچھا نہیں کہ ہم ساتھ لے جانے والے سامان کو اپنی گاڑی میں رکھ لیں تاکہ صبح ہی صبح روانہ ہوتے وقت کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ والد صاحب کا جواب سن کر جمال اور کمال شدید حیران ہوئے کہ انسپکٹر حیدر علی نے ان سب کے لیے ایک بڑی اور مضبوط جیپ کا انتظام کیا ہوا ہے جو ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہی ہوگی۔ یا اللہ، انسپکٹر حیدر علی کب سے اتنے امیر ہو گئے ہیں، اس سوال کا اٹھنا بجائے خود ایک معما تھا لیکن فوری طور پر جمال اور کمال نے اس شدید حیرت کے اظہار کو اپنے ہی سینے میں رہنے دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بڑی پاور فل جیپ گھر کے دروازے پر آ کر رکی جس میں ایک ڈرائیور کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ لیکن جمال اور کمال کی تیز نگاہیں یہ بھانپ چکی تھیں کہ ڈرائیور ایک مضبوط اعصاب کا انسان ہے اور ان کے خیال میں اگر یہ جیپ حیدر علی نے ہی بھیجی ہے تو پھر بظاہر جیپ پر کسی بھی قسم کے سرکاری نشانات نہ ہونے کے باوجود، جیپ سرکاری ہی ہے اور یہ ڈرائیور بھی پولیس کے محکمے کا ہی ہوگا بلکہ جس رکھ رکھاؤ کا بندہ نظر آ رہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی مناسب عہدے پر فائز ہوگا۔ جمال اور کمال خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ شمالی علاقوں کی ساری تفریح گاہوں کے راستے بہت بلندی اور دشوار گزار راستوں پر ہی واقع ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ 16 سو کلو میٹر کا تمام راستہ ہی مخدوش ہے۔ سارے تفریح پسند لوگ اور سیاح پہاڑوں کے دامن تک اپنی اپنی چھوٹی بڑی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں۔ پھر جہاں سے مزید آگے گاڑی لے جانا ممکن نہیں رہتا، وہاں سے جیپیں کرایے پر لے کر بلند مقامات تک جاتے ہیں لیکن حیدر علی کا آغازِ سفر سے ہی جیپ فراہم کرنا بھی ایک معما تھا۔ یہ سب اشارے اس بات کی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے کہ ایسا سب کچھ صرف تفریح ہی نہیں تھا بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور بھی تھے جس کو جمال اور کمال سے فی الحال چھپایا جا رہا تھا۔
جب سفر کا آغاز ہوا تو خلافِ توقع جمال اور کمال نے انسپکٹر حیدر علی کو اپنے ہمراہ نہ پا کر بہت حیرت محسوس کی۔ تقریباً 800 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لینے کے بعد ڈرائیور نے ایک غیر معروف مقام سے اپنی جیپ کچے راستے پر ڈال دی۔ یہ بالکل بھی روایتی راستہ نہیں لگ رہا تھا۔ رات کیونکہ گہری ہو چلی تھی اس لئے جیپ کی ہیڈ لائیٹوں کی روشنی میں صاف دیکھا جا سکتا کہ جس راستے پر جیپ رواں دواں ہے اس پر کسی بھی قسم کی گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات موجود نہیں۔ جمال اور کمال نے کہا کہ ہم تم تو پھر بھی اس قسم کی مہم جوئی اور خطرات کے عادی ہیں لیکن والد و والدہ ایسی مہم جوئی کے کب عادی ہیں۔ اس سلسلے میں بھی جمال اور کمال بہت حیرت کا شکار نظر آ رہے تھے کہ آخر انسپکٹر حیدر علی نے ان کے والد کو راضی کیسے کر لیا جبکہ یقیناً حیدر علی نے سفر کی دشواریوں کے متعلق انھیں ضرور آگاہ کیا ہوگا۔ پھر یہ کہ والد صاحب نے ان کی والدہ کو بھی ضرور آگاہ کیا ہوگا۔ والدہ ایک گھریلو خاتون ہونے کے باوجود ہنسی خوشی کیسے مان گئی ہونگی۔ یہ بات بھی بہت غور طلب تھی کہ اگر واقعی یہ ایک خالص سرکاری مہم تھی تو کیا یہ بات ضروری تھی ایسی مہم میں فیملی کا ساتھ میں ہونا ضروری تھا بصورتِ دیگر اس مہم کو سر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جیپ کچے راستے پر ہچکولے کھاتی بڑھتی جا رہی تھی اور جمال اور کمال کے ذہن میں سوالات پر سوالات جنم لیتے چلے جا رہے تھے۔ چاروں جانب اندھیرے کی حکمرانی تھی بس جیپ کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں سامنے کا راستہ دیکھا جا سکتا تھا۔ جمال اور کمال کے لیے یہ بات بھی بہت خوش کن تھی کہ راستے کی تمام تر دشواریوں کے باوجود ان کی والدہ و والد سفر سے انجوائے کرتے نظر آئے۔ بات یہ ہے کہ اگر کوئی کام بھی دل کی مکمل رضا و خوشی سے کیا جا رہا ہو تو پھر دشواریاں یا بے آرامی اپنی حیثیت کھودیا کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں خوش باش اور تر و تازہ دکھائی دے رہے تھے۔ اب تک جتنا سفر کیا تھا وہ رکتے رکاتے اور کھاتے پیتے کیا تھا۔ شاید اس لئے بھی تھک جانے کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ کوئی آدھ گھنٹے سفر کے بعد جس مقام پر جیپ روکی گئی یہ ایک اور حیران کن منظر تھا۔ یہ کافی حد تک ایک بہت ہی چھوٹا سا مسطح مقام تھا۔ یہان سات خوبصورت خیمے کچھ اس طرح لگائے گئے تھے کہ درمیان میں بیٹھنے کی جگہ بن سکے۔ خیموں سے چند گز کے فاصلے پر پہلے سے ویسی ہی 5 اور جیپیں کھڑی نظر آئیں جیسی یہ جیپ تھی جس پر جمال اور کمال کی فیملی سفر کرتی چلی آ رہی تھی۔ ڈرائیور نے ان ہی جیپوں کے ساتھ نہایت سلیقے سے اپنی جیپ کو پارک کرنے کے بعد روک دیا۔ اس چھوٹی سی عارضی بستی میں ایک اور حیرت انگیز منظر ان سب کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ درجن بھر پیٹرومکس لیمپ روشن تھے۔ جنگل میں منگل والا محاورہ تو وہ کتابوں میں پڑھتے ہی آئے تھے لیکن آج وہ اپنی آنکھوں سے جنگل میں منگل برپا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (جاری ہے)