مرد کا دل بھی حساس ہے

402

ہانیہ: ”بابا ایک بات بتائیں گے“۔
بابا:” ہاں بیٹا پوچھو؟“

ہانیہ: وہ … بابا… ہم بہن بھائیوں نے نوٹ کیا ہے کہ دادا میرا مطلب ہے کہ وہ عورتوں سے اتنا خائف کیوں رہتے ہیں عورتوں کا گھومنا پھرنا، اور ان کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا کیوں پسند نہیں ہے انہیں۔

بابا کہیں دور کھو گئے۔

بابا کو اس طرح خاموش دیکھ کر ہانیہ کو اماں نے اشارے سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

کافی دیر کے بعد بابا کے لب ہلے سب ہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں لیکن میں اپنے باپ کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ (سب بابا کی طرف متوجہ ہو گئے) بابا کی آواز کہیں دور سے آئی ہوئی محسوس ہوئی… اس وقت میں شاید ساتویں جماعت کا طالب علم تھا یا آٹھویں جماعت کا، لیکن بہت سمجھ دار اور ذہین تھا۔ میرے بابا کی کپڑے کی دکان تھی میں شام کو اپنی کتابیں لے کر بابا کے پاس دکان میں بیٹھ کر پڑھائی کرتا تھا ایک دن دکان پر بابا کا ایک دوست آیا اکثر شام کو ان کا کوئی دوست آجاتا تھا یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ لیکن ان کے دوست کی بات سن کر میں ان کی طرف متوجہ ہو گیا“۔

…٭…

دوست: ”رحیم خان ابھی تم بوڑھے تو نہیں ہوئے ماشاء اللہ جوان ہو اتنا بڑا کاروبار ہے دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے“۔ بابا نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا یار چھوڑو اس بات کو، کوئی اور بات کرو… کچھ گزر گئی ہے اور کچھ گزر جائے گی۔

دوست: ”نہیں میرے دوست اللہ تمہیں سلامت رکھے ایسی کون سی تمہاری عمر گزر گئی ہے یا تم بوڑھے ہو گئے… ہمارے کئی دوستوں نے تو تین تین شادی کر رکھی ہیں اور تم ہو کہ…“

بابا: (ان کی آوازیں میں بڑا کرب اور درد تھا جیسے میں آج بھی محسوس کرسکتا ہوں)

یار عورت چاہے ماں ہو یا بہن یا بیوی میری قسمت میں نہیں لکھی ہوئی ہر عورت میرے لیے بے وفا ہی رہی۔ اب توعورت ذات پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ اس لیے تو عورتوں سے دور بھاگتا ہوں۔

دوست: رحیم خان میں تمہاری بات کو سمجھ نہ سکا۔ عورت تو اس کا ئنات کا حسن ہے۔ لیکن تم کیا کہہ رہے ہو اور کیوں کہہ رہے ہوں ایسا…

رحیم بابا: سننا چاہتے ہو تو میرے دوست سنو… میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟(میری نظریں کتاب پر تھی لیکن کان بابا کی طرف تھے)

رحیم بابا: میں تیرہ چودہ سال کا تھا بڑا خوش حال گھرانہ تھا ہمارا ایک چھوٹا بھائی ا ور ایک بہن۔ بہن میری جان تھی۔ بلکہ ہم دونوں بہن بھائیوں کی محبت مثالی تھی۔ اماں بہت خوبصورت اور سگھڑ خاتون تھی۔ بس پھر کسی کی نظر لگ گئی ہمارے خاندان کو… (بابا کچھ دیر تک چپ ہو گئے)

دوست کی آواز پر دوبارہ بولے… میرے والد کا اچانک انتقال ہو گیا اس دن سے میری زندگی میں اندھیرے شروع ہو گئے… مشترکہ خاندان تھا کاروبار بھی مشترکہ تھا لیکن … میرے ننھیال والوں کی ایک ہی شرط تھی کہ ہماری بیٹی اس گھر میں اسی صورت میں رہ سکتی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اس گھر کا مرد شادی کر لےورنہ ہم اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت اماں کے لیے بھی ایک کڑا امتحان تھا لیکن اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا وہ ہم بچوں کونہیں چھوڑ سکتی تھی… آخر اس کی میرے تایا کے ساتھ شادی ہو گئی اکیلے میں، میں بہت رویا چیخا چلایا… اماں کو بھی اس شادی سے روکنے کی کوشش کی… لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس طرح میں اپنی ماں سے دور ہو تا گیا۔

اب میری زندگی کی خوشی صرف میری بہن تھی ۔ میرا سارا دھیان خاص طور پر اپنی بہن کی طرف رہتا تھا (اس وقت موبائل نہ تھا) گھر کی خیر خیریت بہن کم معلوم ہوتی تھی میں جلدی سے اپنے کام نمٹا کر پاکستان پہنچا تو جس خبر نے میرے ہوش اڑا دیے وہ تھی میری بہن کی شادی… میری غیر موجودگی میں میرے گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ یہ رشتہ میری موجودگی میں ہی آیا تھا لیکن میں لڑکے والوں کو منع کر چکا تھا، مجھے سب سے زیادہ اپنی بہن پر غصہ آرہا تھا کہ وہ گھر والوں کو منع کرتی یا کچھ عرصہ تک شادی رکوا دیتی … لیکن چچا اور بھائی نے بتایا کہ لڑکے کی ماں بیمار تھی وہ اسی لیے شادی جلدی کرنا چاہتے تھے۔ رحیم خان جو بظاہر بڑے مضبوط انسان نظر آتے تھے ان کی آنکھوں میں نمی آگئی جسے انہوں نے زبردستی اپنے اندر پی لیا… (کافی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی آواز آئی) اس کے بعد میں نے بہن سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ بلکہ چھوڑ دیا…

دوست: پھر… کیا ہوا؟

رحیم خان: میں اس دکھ کی وجہ سے بہت چڑ چڑا ہو گیا۔ گھر والوں نے میری اس کیفیت کو دیکھا تو میری شادی زینب سے کروا دی زینب اچھی پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی تھی شروع میں تو میں اپنی پریشانی میں اس کی طرف مائل نہ ہو سکا لیکن آہستہ آہستہ میں سنبھلتا گیا بیٹے کی پیدائش کے بعد حالات معمول پر آگئے کہ اچانک زینب ایک موذی مرض میں مبتلا ہو گئی۔اور جانبر نہ ہو سکی… یہ میری زندگی میں آنے والی تیسری عورت تھی…کافی عرصہ میں دوسری شادی کے لیے گھر والوں کو منع کرتا رہا… آخری چھوٹے بھائی کی شادی بھی ہو گئی مجھ پر گھر والوں کا دبائو بڑھتا گیا…

مجبوراً میں نے حامی بھر لی۔

جب زینب میری زندگی میں شامل ہوئی تو واقعی میں وہ عورت ہر خوبی سے آراستہ تھی۔ گرچہ میں بھی پٹھان ماں کا خوبصورت وجہہ بیٹا (مرد) تھا۔ اس عورت نے میری زندگی کی ویرانی کو ختم کر دیا۔ بلکہ میں اپنی زندگی میں آنے والی پچھلی محرومیوں کو یکسر بھول گیا لیکن…

دوست: لیکن… لیکن کیا ہوا میرے دوست، تم چپ کیوں ہو گئے۔

رحیم خان: شاید اس میں اس کا قصور نہ تھا میری زندگی میں ہی اللہ نے عورت کو شامل نہیں کرنا تھا۔ اس کامیرا ساتھ صرف چند برس کا تھا۔ چند برس کا بھی نہیں بلکہ صرف دو سال کا… بیٹے کو جنم دے کر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی… اس کے بعد میں نے سوچ لیا کہ میری زندگی میں آنے والی عورت جلدی ہی مجھے چھوڑ کر کہیں دور چلی جاتی ہے… مجھے یقین ہے کہ جو بھی آئے گی اس کے ساتھ ایسا ہی ہو گا اس لیے میری اب یہی کوشش ہے کہ کسی عورت کو اپنی زندگی کے قریب بھی نہ بھٹکنے دوں گا۔ چاہے وہ کس رشتے اور روپ میں ہی کیوں نہ ہو۔
…٭…
ہانیہ اور صائمہ (دونوں ایک ساتھ) اچھا دادا اس لیے ہم بہنوں سے بھی پیار نہیں کرتے بلکہ سب خواتین سے دور بھاگتے ہیں۔
اماں: ہاں بیٹا یہی وجہ ہے حالانکہ آپ سب کی محبت ان کے دل میں موجود ہو گیاور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے دل میں عورتوٗں کے لیے بڑی عزت اور احترام ہے۔

حصہ