اگست کی یہ شام پہلے سے خوشگوار نہ بھی ہوتی تو آج کی تقریب کے اعزاز میں ضرور گل رنگ ہو جاتی۔
فاران کلب میں آج کی شام کا ہر لمحہ تاریخ کے اوراق پہ سنہری حروف کی صورت رقم ہونے والا تھا۔
ہال جذبات کے رنگوں اور پاکیزگی کی روشنیوں کا حسین امتزاج پیش کر رہا تھا۔اسٹیج پر جماعت اسلامی کے جھنڈے کے رنگوں سے سجا پینا فلیکس تقریب کا عنوان پیش کر رہا تھا اور ترتیب سے لگے صوفوں اور کرسیوں کے عقب میں جھنڈے اپنی بہار دکھلا رہے تھے۔
مختلف شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نشستوں پر براجمان پروگرام کے آغاز کی منتظر تھیں کہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان محترمہ آمنہ عثمان نے مائک سنبھالا ۔ قرآن انسٹیٹیوٹ کی نگران محترمہ فریدہ گلزار نے سورہ ال عمران کے رکوع نمبر 11 کی روح پرور تلاوت کی اور یوں پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ “تحریر کے بے شمار رنگوں میں سے ایک رنگ تاریخ کا رنگ ہے”۔ تدوین تاریخ کمیٹی کی نگراں محترمہ روبینہ فرید محو کلام تھیں اور حاضرین محفل ان کے الفاظ اور انداز تکلم کے زیر اثر ہمہ تن گوش
یہ صرف ایک کتاب کا احوال نہیں تھا بلکہ ورثے میں ملنے والی تاریخ کی روداد تھی۔ روبینہ فرید نے اپنی گفتگو میں ان تمام مشکلات کو بڑی خوبصورتی سے الفاظ کی کڑیوں میں پرو دیا جو کتاب کا مواد اکٹھا کرنے کے دوران پیش آئیں ، ساتھ ہی انہوں نے قارئین کی آراء کو فراغ دلی سے قبول کرنے کا عندیہ دیا اور اپنی ٹیم کا نہایت خوبصورت انداز میں تعارف کرواتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے افشاں نوید، رخسانہ ضیا، منیبہ صمد، انجم افشاں، صائمہ اسماء، سمیحہ راحیل قاضی،عارفہ اقبال، فریحہ اشرف، عالیہ شمیم اور قدسیہ ملک کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے تمام شرکاء کا بھی شکریہ ادا کیا۔ روبینہ فرید کے افتتاحی کلمات کے بعد بزرگ رکن جماعت اور سابقہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل محترمہ امت الرقیب کی جانب سے بھیجی گئی نظم سنوائی جو انہوں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے بھیجی تھی۔ ان کی خوبصورت نظم نے اس پر وقار تقریب میں چار چاند لگا دئیے۔ اب اس تقریب کی سب سے خاص سرگرمی یعنی کتاب کی رونمائی کا وقت آن پہنچا تھا، سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان محترمہ دردانہ صدیقی نے ناظمہ کراچی اسماء سفیر اور روبینہ فرید کی معیت میں کتاب کی رونمائی کی۔ رونمائی کے دوران پلے بیک میں چلنے والے ترانے ”یہ راستہ حق کا راستہ ہے،جدھر ہم اہل وفا چلے ہیں“ نے اک عجب سماں باندھ دیا۔ ان خوبصورت لمحات کا تاثر ابھی قائم ہی تھا کہ محترمہ افشاں نوید کے نرم لب و لہجے میں سابقہ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان محترمہ عائشہ منور کے پیغام کے الفاظ سماعت کے ذریعے دھڑکنوں میں سماتے چلے گئے۔ عائشہ منور صاحبہ کا پیغام محض الفاظ کا مجموعہ نہ تھا بلکہ تاریخ کا ایک دور تھا جسے وہ مختصرا پیش کر گئیں۔ انہوں نے کارکنان کو پیغام دیا کہ موجودہ حالات میں نظریے کی مضبوطی کے ساتھ خود کو میدان جہاد میں ایستادہ جانیں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اشاعتِ دین کا کام کریں۔کیونکہ منزل کٹھن ہے اور رستہ دشوار ہے لیکن رکنا نہیں ہے ،مسلسل چلتے رہنا ہے۔
ابھی سے پاؤں کےچھالےنہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے
۔عائشہ منور کے پیغام سے چھانے والے سحر کو اور پختہ کرنے کے لیے اب شرکاء سے معروف صحافی حمیرہ اطہر مخاطب تھیں۔ ان کا ایک ایک لفظ گواہ تھا کہ انہوں نے اس کتاب کو عرق ریزی سے پڑھا ہے اور لہجے کا اتار چڑھاؤ اس بات کا غماز تھا کہ اس کتاب سے وہ کس قدر متاثر ہوئی ہیں۔ ان کی گفتگو کو کتاب کی ابتداء سے لے کر اختتام تک کا خلاصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے جا بجا مختلف قیمات اور رہنما خواتین کے بیانات کو دہراتے ہوئے سوالات کے معیار کو بھی خوب سراہا۔ کچھ سوالات انہوں نے خاص طور پر پڑھ کر سنائے اور جواب پڑھنے کے لیے سامعین کو کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔ اس بھرپور اور دلچسپ اظہار خیال کے بعد بین الاقوامی تعلقات اور مشرق وسطیٰ کے حالات کی نامور اسکالر محترمہ طلعت وزارت شرکاء سے مخاطب تھیں، انہوں نے نظم جماعت اسلامی کو کتاب کے اجراء پر خصوصی مبارکباد پیش کی اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی کی قیادت ہمیشہ اعلی تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھ میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی خود سے وابستہ افراد کی بہترین شخصیت سازی کرتی ہے اور قیادت کےلیے میچور لیڈر شپ سامنے لاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی خواتین قیادت کی تمام صفات سے بخوبی مزین ہوتی ہیں۔ اس کے بعد سابقہ سیکرٹری جنرل کیپٹن(ر) ڈاکٹر کوثر فردوس اپنے ویڈیو پیغام کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہوئیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ تحریکوں کا سرمایہ اور ماضی کی کہانی ہوتی ہے جس سے مستقبل کے فیصلوں میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کتاب کا تعارف دلچسپ پیرائے میں بیان کیا انہوں نے پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی خواتین کے کردار کے حوالے سے کچھ اس انداز میں جھلکیاں پیش کیں کہ کتنے ہی سننے والوں نےاس کتاب کو جلد از جلد پڑھنے کا ارادہ یقیناً کر لیا ہو گا۔اس کے بعد سابقہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رخسانہ جبیں کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔انہوں نے اپنے پیغام میں کتاب کے سفر کے اتار چڑھاؤ کا مختصراً ذکر کیا اور ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قیادت کی کارکنان کے بغیر کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
اب اسٹیج پر سابقہ چیئر پرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ تاج کی آمد ہوئی۔ انہوں نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے طالب علموں کو ضرور اس کے مطالعے کا مشورہ دوں گی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے تربیتی نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بچوں کو جماعت کے افراد سے موثر ابلاغ کا طریقہ سیکھنا چاہیے ۔
معروف صحافی غزالہ فصیح صاحبہ نے خواتین کے لیے جماعت اسلامی کی خدمات کو خوب سراہا اور جماعت کی خواتین کے منظم کام کی بھی تعریف کی۔ اب وہ وقت تھا کہ جب تحریک کی روح رواں سیکرٹری جنرل محترمہ دردانہ صدیقی اپنی متانت کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھیں۔انہوں نے کتاب” قیادت کا سفر ” کی ترتیب اور طباعت جیسے مشکل اور اہم فریضہ کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے پر نگراں تدوین تاریخ جماعت کمیٹی محترمہ روبینہ فرید، ان کی پوری ٹیم اور معاونین کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا اور مبارک باد پیش کی۔انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تاریخ کو سمیٹنا،محفوظ کرنا اور قلمبند کرنا، ایک بہت ہی کٹھن کام ہے اور یہ کتاب ان افراد کے لئے یقیناً رہنمائی کا ذریعہ بنے گی جو زندگی میں عظیم نصب العین اختیار کرتے ہیں۔
تقریب میں نائب ناظمہ صوبہ سندھ محترمہ عائشہ تسنیم، سینئر اراکینِ جماعت،تمام ادارہ جات و شعبہ جات کے ذمہ داران، اضلاع کی ناظمات و نائبین، اراکینِ مرکزی، صوبائی اور مقامی شوری کے نمائندگان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین ، اساتذہ، وکلاء ، ڈاکٹرز، سماجی کارکنان ، شاعرات ، قلم کار و دیگر نے شرکت کی۔