ادبی تنظیم شہہ نشین کا مذاکرہ اور مشاعرہ

347

3 ستمبر کو برمکاں ڈاکٹر ذاکر گلستان جوہر کراچی میں ایک ادبی نشست بیادِ عارف منصور بہ اعزاز سلمان صدیقی منعقد کی گئی جس کے پہلے حصے میں اردو غزل کے محاسن اور عیوب پر گفتگو کی گئی دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا۔ پروفیسر مطلوب علی زیدی مہمان خصوصی تھے۔ فراست رضوی اس مشاعرے میں مہمان اعزازی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر فراست رضوی نے کہا کہ غزل پر صرف دو اعتراضات لگائے جاتے ہیں کہ یہ صنفِ سخن غیر مربوط اور منتشر الموضوع ہے اس کا ہر شعر الگ مضمون لیے ہوتا ہے جب کہ نظم کے تمام اشعار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ غزل پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ غزل کا مروجہ نظام ہے اس کے مروجہ اشعاروں کے سامنے شاعر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ ان استعاروں کو استعمال کرے وہ ان استعاروں کو توڑ نہیں سکتا۔ غزل ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اب غزل میں گل و بلبل کے افسانوں کے بجائے زندگی کے تمام عنوانات لکھے جا رہے ہیں اب غزل محبوب تک محدود نہیں ہے اینٹی غزل تحریک سے بھی غزل کا لب و لہجے نہیں بگڑا۔ آج کے دور میں جدید غزل سامنے آئی ہے اور زمانے بھر کے مضامین رقم کیے جارہے ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ تمام اصنافِ سخن میں غزل سب سے طاقت ور ہے اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر میں الگ الگ موضوع ہوتا ہے اس کا ہر شعر ایک نظم ہے۔ اس کے دو مصرعوں میں مکمل بات کی جا چکی ہے بڑے سے بڑا مضمون بھی غزل کے دو مصرعوں میں باندھا جا سکتا ہے غزل ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف اقسام کے پھول اپنی اپنی مہک سے نوازتے ہیں۔ غزل کہنا ایک مشکل کام ہے جب کہ نظم میں ہمارے سامنے ایک عنوان ہوتا ہے ہم اس عنوان پر ڈھیروں اشعار کہہ لیتے ہیں غزل ایک زندہ صنفِ سخن ہے اس کے مخالفین اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے غزل میں نئے نئے مضامین کی آمیزش سے غزل کا حسن بڑھتا جا رہا ہے۔ مقبول زیدی نے کہا کہ ہم ہر ماہ اس ادارے کے تحت ایک مشاعرہ ترتیب دیں گے ہم نے آج کا پروگرام عارف منصور کی یاد میں رکھا ہیض جو کہ میرے استاد تھے‘ وہ قادرالکلام شاعر تھے ان جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے‘ ان کا خلا باقی ہے ہم انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ مقبول زیدی نے مزید کہا کہ آج کی شام سلمان صدیقی کے نام ہے جو شاعر‘ ادیب‘ افسانہ نگار اور تنقید نگار اور تنقید نگار ہیں کے دو شعری مجموعے منظر نامے پر آچکے ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کی کتاب بھی ادب کا سرمایہ ہے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے حوالے سے شہرت پائی ہے آپ بہترین نظامت کار ہیں۔ ادبی تنظیم دراک اور بزمِ یارانِ سخن کے صدر ہیں ان تنظیموں کے تحت ان کی ادبی خدمات قابل تعریف ہیں۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ بیگم منزہ زیدی‘ احمد سعید خان‘ شہناز رضوی‘ خالد محمود قیصر‘ شاہد وصی نقوی‘ عدنان عکس‘ تنویر سخن‘ شائق شہاب‘ عروج واسطی‘ کاوش کاظمی‘ ہما ماریہ اور حیا زہرہ نے اپنا کلام پیش کیا۔

جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام مشاعرہ

جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام خواجہ رضی حیدر کی صدارت مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ ظفر محمد خان ظفر مہمان خصوصی اور خالد عرفان مہمان اعزازی تھے جب کہ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ وزیر علی قادری نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اکرم رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ قمر محمد خان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ جمعیت الفلاح ادب کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کر رہا ہے اب ہم نے مہینے میں ایک بار اتوار کے روز مذاکرے کا اہتمام بھی کیا ہے اس مذاکرے میں کوئی بھی اہم موضوع زیر بحث آتا ہے۔ ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں گے۔ ہمارے تنظیم کے دروازے ہر ادبی پروگرام منعقد کرنے والی تنظیم کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ جہانگیر خان نے کہا کہ جمعیت الفلاح تقریباً ایک سال سے ادبی خدمات کے لیے مشہور ہے ہم زندگی کے بہت سے اہم عنوانات پر اب مذاکرے کا انتظام کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے اس وقت ملک میں نگراں حکومت قائم ہے بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں آپ جماعت اسلامی کے منشور کا مطالعہ کریں ہمیں امید ہے آپ ہمارے ہاتھ مضبوط کریں گے۔ صاحب صدر نے کہا کہ قائداعظم کے اصولوں پر عمل کرکے پاکستان ترقی کر سکتا ہے ہم ایک پلیٹ فارم پر آجائیں‘ آپس کے اختلافات بھلا کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں ان شاء اللہ ہمارا ملک قائم رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں جشن آزادی سے متعلق اشعار سنائے گئے۔ ہر شاعر نے آزادی کے بارے میں اظہار خیال کیا اس قسم کے مشاعرے ہمارے لیے ضروری ہیں تاکہ ہم لوگوں میں پاکستانیت کو فروغ دے سکیں۔ اس موقع پر شعرا نے کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ سحرتاب‘ محمد علی گوہر‘ عطا محمد تبسم‘ ڈاکٹر نثار‘ احمد سعید خان‘ سعدالدین سعد‘ فخراللہ شاد‘ عتیق الرحمن‘ غازی بھوپالی‘ نعیم الدین نعیم‘ شائق شہاب‘ وقار زیدی‘ شاہد اقبال‘ نورالدین نور اور خلیل قریشی ایڈووکیٹ شامل تھے۔

حصہ