کشمیری قیادت کا دورہ ترکیہ

291

(دوسرا اور آخری حصہ)

سعادت پارٹی کے سینئر نائب صدر اور ممبر پارلیمنٹ مصطفی کمال کایا جو بارہا ہماری میزبانی کرچکے ہیں، انہوں نے بھی اپنی پارٹی، قوم اور پارلیمنٹ کی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے قائد ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی قیادت میں اول روز ہی سے سعادت پارٹی اسے اپنا ایک ذاتی مسئلہ سمجھتی ہے۔پارٹی کے کسی بھی پروگرام میں کشمیر ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے۔ آئندہ بھی اس حوالے سے سعادت پارٹی اپنے تاریخی کردار کے تسلسل کو برقرار رکھے گی۔پارلیمنٹ کی طرف سے انہوں نے بھرپور تعاون کایقین دلایا۔ سعادت پارٹی اور حلیف گروپ کے بیس ارکانِ پارلیمان میں ایک مؤثر نظریاتی قوت ہے۔ نیو رفاہ پارٹی، اس کے چیئرمین پروفیسر اربکان کے صاحبزادے فاتح اربکان ہیں، وہ حالیہ انتخابات میں صدر اردوان کے حلیف کی حیثیت سے اپنے سمیت پانچ اہم مرکزی رہنمائوں کو پارلیمنٹ کا حصہ بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی نمائندگی ان کے ڈپٹی چیئرمین اور ممبر پارلیمنٹ برادرطوان نے کی۔ وہ خود بھی یونیورسٹی پروفیسر ہیں اور عالمی حالات پر ان کی گہری نظر ہے۔ ترک شرکاء کو ترکی کے خلاف مغربی استعمار کی جنگ کے موقع پر اسلامیانِ برصغیر کی طرف سے سیاسی اور مالی تعاون کی فراہمی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے باورکرایا کہ ہم ملتِ اسلامیہ پاکستان اور اہلِ کشمیر کے مقروض ہیں کہ ان کی جائز جدوجہد میں ہم بھرپور کردار ادا کریں۔ انہوں نے بھارتی مسلمانوں پر جاری مظالم پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ترک حکومت، عوام اور پوری مسلم دنیا اور عالمِ انسانیت کو فاشسٹ مودی کے عزائم کے آگے روک لگانا ہوگی، جنوبی ایشیا اور عالمی امن کے تحفظ کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے بھی اپنی اور اپنی قیادت اور پارٹی کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

اس طرح کویت سے آنے والے مہمان ممبر پارلیمنٹ محمدالطاہری نے اہلِ کشمیر کی مدد کرنا ایک دینی اور انسانی فریضہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مودی حکومت اور اس کی پارٹی کے مسلم دنیا کے حوالے سے فاشسٹ عزائم سے آگاہ ہیں اور کویت کی پارلیمنٹ اور حکومتی پالیسی ساز حلقوں اور اہلِ دانش کو ان عزائم کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے مسلسل کاوشیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ حدیث کے مطابق جسدِ واحد ہے، جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو وہ سارے جسم کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے کشمیر اور فلسطین میں جاری مظالم پر اپنا کردار ادا کرنا ہمارے ایمان اور ضمیر کا حصہ ہے اور امتحان بھی، جس میں سرخرو ہونا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

کویت سے آنے والے معروف وکیل اور انسانی حقوق کے علَم بردار مجیب الشریکا اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے شہرت رکھنے والی خاتون رہنما نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی، بالخصوص وہاں خواتین پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات رکھتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور اس عمل کے انسانی معاشرے پر اثرات پر جامع خطابات کیے اور یقین دلایا کہ وہ دیگر عرب اہلِ دانش سے مل کر ان مظالم کو بے نقاب بھی کریں گے اور دنیا کے ہر پلیٹ فام پر اہلِ کشمیر کی ترجمانی بھی کریں گے۔

کانفرنس میں کشمیر انٹرنیشنل ڈائسفورا فورم کے نائب چیئرمین اور کشمیر ہائوس استنبول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مبین شاہ جو سرینگر کے اہم بزنس مین ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں چیمبر آف کامرس کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر اب ترکیہ کی شہریت اختیار کرچکے ہیں، نے بھی ایک جامع خطاب کیا اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کی تفصیلات رکھیں، اور بین الاقوامی سطح پر کشمیری رہنمائوں اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتے ہوئے بین الاقوامی سفارتی کاوشوں کو مزید مربوط کرنے کے عزائم کا احاطہ کیا۔

آخر میں برادر فہیم کیانی صدر تحریک کشمیر برطانیہ اور کانفرنس کے میزبان نے کانفرنس میں ایک جامع اعلامیہ پیش کیا جس میں بھارتی مظالم، انسانی حقوق کی پامالی، قائدینِ حریت کی زندگیوں کو لاحق خطرات اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسلسل کشیدگی کے مضمرات کا احاطہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی محاذ پر جدوجہد تیز تر کرنے کا اعادہ کیا۔

کانفرنس کے موقع پر مہمان مقررین اور شرکاء سے تفصیلی نشستوں کا بھی اہتمام ہوا جن میں خواتین اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ البتہ پاکستانی سفیر اپنی تقریر کے فوراً بعد بغیر وضاحت کے کانفرنس سے چلتے بنے جسے ارکانِ پارلیمنٹ اور شرکاء نے مجلسی آداب کے منافی قرار دیا۔

کانفرنس کے موقع پر ہی تینوں جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ سے گزارش کی گئی کہ وفد انقرہ کا دورہ کرنا چاہتا ہے تاکہ پارلیمانی پارٹیوں کے گروپ لیڈرز اور قائدین سے ملاقاتیں ہوسکیں۔ جس کے اہتمام کا وعدہ کیا گیا۔ راقم کے فالو اَپ پر ان رہنمائوں نے اپنی پارٹی قیادت اور دیگر ارکانِ پارلیمنٹ سے ملاقاتوں کا بھرپور اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے دیرینہ رفیق برادر عاطف ازبک جو منصورہ سے فارغ التحصیل ہیں اور استاد اربکان کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں، جن کے سارے پارلیمانی گروپس سے اہم روابط ہیں کو زحمت دی گئی کہ وہ ہمارے پروگرام کو مربوط کریں۔ ان کا بہت شکریہ کہ انہوں نے میزبانی کے لیے بھرپور وقت دیا۔ یوں ایک طرف سعادت پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں پارٹی کے صدر استاذ تامل کرام اللہ اوغلو نے پارلیمانی گروپ لیڈر برادر مصطفی کایا اور دیگر سینئر لیڈرشپ کے ساتھ وفد کا استقبال کیا، مسئلہ کشمیر کو امتِ مسلمہ کا ایک دیرینہ مسئلہ قرار دیا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادوں کے باوجود جنہیں بھارت نے بھی تسلیم کررکھا ہے، بین الاقوامی برادری کا اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس کردار ادا نہ کرنا لمحۂ فکریہ ہے۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین پر بھی اسرائیلی مظالم نظرانداز کیے جارہے ہیں اور بھارت اور اسرائیل کو ریاستی دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ انہوں نے مسلم دنیا کے کردار کو مؤثر بنانے کے لیے استاذ ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی کاوشوں اور لائحہ عمل کی تفصیلات بھی رکھیں اور یقین دلایاکہ سعادت پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر سطح پر کشمیر کاز کی ترجمانی کرے گی۔ وفد کے ارکان نے بہت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ کشمیر کی صورتِ حال رکھی اور بہترین میزبانی اور مسلسل پشتیبانی پر سعادت پارٹی کی قیادت اور پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ پارٹی ہیڈکوارٹر کی طرف سے ایک تفصیلی پریس ڈیکلیریشن بھی جاری کیا گیا جسے تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نمایاں طور پر شائع کیا۔

اسی طرح پارلیمنٹ ہائوس میں رفاہ پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین برادر دوان بیکن نے ایک پُرتکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا جس میں وفد کے ارکان کے علاوہ ان کی پارٹی کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اس موقع پر بھی ارکان وفد نے مظالم کی تفصیلات رکھیں اور بھارتی عزائم کو بے نقاب کیا۔ مجلس میں سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔ اس موقع پر طے پایا کہ برادر دوان بیکن آخری روز پارلیمنٹ کے میڈیا سنٹر میں وفد کے ارکان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کریں گے جو بحمد ﷲ دورہ کے اختتام پر بہت بھرپور Eventہوا جس میں انہوں نے مسئلہ کا مختصر پس منظر،کشمیریوں کی تاریخی جدوجہد، بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالی اور ترکی اور عالم اسلام کی اس حوالے سے ذمہ داریوں کااحاطہ کیا۔ اسے ایک بین الاقوامی سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے تمام بین الاقوامی اداروں کو کردار ادا کرنے پر متوجہ کیا۔

پارلیمنٹ ہائوس میں ہی صدر اردوان کے دیرینہ ساتھی اور دست راست اور ہمارے پرانے دوست برادر برہان کایا ترک سے بھی بھرپور ملاقات رہی۔ برادر برہان پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر ہیں اور لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔یوں پاکستان کی سیاسی صورت حال پر وہ ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ترکیہ پاکستانی پارلیمانی فرینڈ شپ گروپ اور ایشین پارلیمانی فورم کے بھی چیئرمین رہ چکے ہیں۔اس عرصے میں بھی ان کے ساتھ ہمیشہ روابط رہے اور ہماری دی گئی تجاویز پر انہوں نے فورم پر ہماری ترجمانی کی۔ وہ اے کے پارٹی کے بین الاقوامی امور کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں نو منتخب پارلیمان میں وہ یورپین گروپ کے چیئرمین ہیں جو ترکی اور یورپ کے ساتھ باہم تعلقات کے حوالے سے پارلیمان کا اہم گروپ ہے۔ وہ کشمیر کے حوالے سے کشمیری اور پاکستانی سیاست دانوں سے بھی زیادہ با خبر ہیں۔ بہر حال میں نے وفد کے ارکان کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کی خدمات رکھیں اور اس اہم موقع پر وفد کی آمد کا بڑا مقصد صدر اردوان اور اے کے پارٹی کی تاریخی کامیابی پر اہل کشمیر کی طرف سے مبارک باد پیش کی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ مودی کے فاشسٹ عزائم کے تدارک کے لیے ترکی قیادت اور حکومت زیادہ فعال اور فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ وفد کے سربراہ اور دیگر اراکین نے کشمیر کے حوالے سے مودی کے عزائم ڈیمو گرافی کی تبدیلی کے لیے مسلسل بھارتی اقدامات اور قائدین حریت کی زندگیوں کو در پیش لاحق خطرات کا تفصیل سے احاطہ کیا اور فوری اور موثر اقدامات کا تقاضا کیا۔ نیز یورپی ممالک میں بالخصوص جرمنی اور دیگر ممالک میں جہاں ترک نژاد کمیونٹی بڑی تعداد میں موجود ہے کو کشمیر کے حوالے سے متحرک کردارادا کرنے پر متوجہ کیا جس پر انہوں نے صدر، پارٹی اور حکومت کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ البتہ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے شدید پریشانی اور تحفظات کا اظہار کیا جس پر ہم نے تجویز پیش کی کہ صدر اروان اس حوالے سے تمام فریقین کے لیے قابل احترام ہیں وہ کردار ادا کریں جس پر انہوں نے صدر صاحب تک تجویز پہنچانے کا وعدہ کیا۔

برادر برہان کایا ترک نے سپیکر سے رابطہ کرتے ہوئے وفد کے ارکان کو اسپیکر گیلری میں مدعو کرنے کا اہتمام کیا۔ پارلیمان کا یہ خصوصی اجلاس تھا جو اپوزیشن کی تحریک پر ایک دن کے لیے ہی طلب کیاگیا تھا۔ اجلاس کے آخری مرحلہ پر جب وفد کے ارکان گیلری میں داخل ہوئے تو اسپیکر نے کشمیری وفد کا خیر مقدم کیا اور خوش آمدید کہا جس پر تمام ہائوس نے تالیوں کی گونج میں وفد کو شاندار انداز سے خوش آمدید کہا اوریوں پارلیمان کی طرف سے اہل کشمیر کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ ہوا۔اس کارروائی سے فراغت کے بعد پارلیمان لابیز میں حکومت اور اپوزیشن کے نمایاں ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام ہوا۔ وفد کی طرف سے کشمیر کی صورت حال رکھی گئی اور اراکین پارلیمان سے بھرپور تعاون کا مطالبہ کیاگیا۔ تمام پارلیمانی گروپس کو یہ تجویز بھی دی گئی کہ فرینڈز آف کشمیر کے نام سے کشمیر کاز کے لیے فورم قائم کیاجائے جس سے اتفاق کیاگیا۔ ان شاء اﷲ امید ہے اس فورم کے قیام کے نتیجے میں تمام پارلیمانی گروپس بھرپور طور پر ہماری پشتیبانی کر سکیں گے۔

پارلیمانی لابی میں حال ہی میں فارغ ہونے والے ترک وزیر خارجہ مہلوت جاوش اوغلو سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی جو طویل عرصے تک ترکی کے وزیر خارجہ رہے اور او آئی سی رابطہ گروپ میں اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے حوالے سے بڑا جاندار کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وفد کے ارکان نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بھارتی آئینی دہشت گردی کے تدارک اور مظالم کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرنے کا تقاضا کیا۔ صدر صاحب کو اہل کشمیر کی طرف سے تاریخی کامیابی پر مبارک باد کا پیغام پہنچانے اور فی الفور او آئی سی کی سطح پر رابطہ گروپ کو متحرک کرنے کی تجاویز دیں جس پر انہوں نے ذاتی اور حکومتی سطح پر بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے مسلم دنیا کے باہم اختلافات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے او آئی سی کے پلیٹ فارم کا متحرک اور جاندار کردار حالات کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتا رہاہے۔ مسئلہ کشمیر،مسئلہ فلسطین اور قبرص کے مسائل پر پوری ترک قوم متحداور متفق ہے۔کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول تک ہر سطح پر اہل کشمیر اور پاکستان کے شانہ بشانہ رہیں گے۔ انہوں نے بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی ختم کرتے ہوئے قومی یکجہتی قائم کرنے پر زور دیا۔

اسی طرح ترکی میں انسانی حقوق کے حوالے سے متحرک ایک بڑی تنظیم مظلوم دہر کے صدر ایان بلجن سے ان کے دفتر میں تفصیلی نشست ہوئی جس کا اہتمام برادر عاطف ازبک نے کیا۔ یہ ایک بڑے اسکالر اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والے دانشورہیں۔ وفد کے ارکان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی پر تفصیلات رکھیں اور ان کو تجویز دی کہ ان کی تنظیم انسانی حقوق کی بھارت کی طرف سے پامالی کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ تیار کر ے۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل، او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ کی رپورٹس سے استفادہ کیا جائے اور اس رپورٹ کا اہتمام سے اجراء کیا جائے جس میں ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو مدعوکیا جائے اور کشمیری قیادت کو بھی حاضری کا موقع دیاجائے جس پر اتفاق کیاگیا۔ امید ہے کہ یہ ادارہ ایک جامع رپورٹ کا اہتمام کرے گا۔

اسی طرح Free Dawahپارٹی کے صدر زکریہ یاپیشی اوغلو سے ٹیلی فون پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ وہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں استقبالیہ رکھنا چاہتے تھے لیکن ہماری مصروفیات کی وجہ سے شیڈول مرتب نہ ہوسکا البتہ انہوں نے اپنی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس گروپ کے بھی پارلیمان میں پانچ ممبران ہیں جو مسلم مسائل کے حوالے سے ہمیشہ متحرک کردار ادا کرتے ہیں۔دورے کے دوران میں برادر محمود اوغلو جو کہ کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں انطالیہ نیوز ایجنسی سے بین الاقوامی امور کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیںسے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ ترک میڈیا میں ایک بڑا نام ہیں۔ اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔انہیں باخبر رکھنے کے لیے خبروں کی مسلسل ترسیل کے اہتمام پر اتفاق ہوا۔

اسی طرح بھارت کشمیر اور بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والے معروف دانشور اور صحافی برادر افتخار گیلانی نے وفدکے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ افتخار گیلانی عظیم قائد اور رہبر تحریک سید علی گیلانی کے داماد بھی ہیں۔ یوں اس گھرانے کے ساتھ ایک روحانی عقیدت کا تعلق ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں تجاویز کا تبادلہ ہوا۔ وفد کے ارکان سے محترم سید علی شاہ گیلانی صاحب کی صاحبزادی اور افتخار گیلانی کی اہلیہ کو اہل کشمیر اور پاکستان کی طرف سے تمام خاندان کو سلام پہنچایا اور سید علی گیلانی اور ان کے گھرانے کی عزیمت اور قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا۔

برادر ایاز خان ہمارے دیرینہ مجاہد ساتھی جو ترکی میں کاروبار کے حوالے سے منتقل ہو چکے ہیں ہمیشہ میزبانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر بھی ایک فارم ہائوس پر انہوں نے وفد کے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں مقامی دانشور اور وکلاء بھی شریک ہوئے۔ یہ مجلس بھی ترک کشمیر تعلقات اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز اجاگر کرنے کے حوالے سے مفید رہی۔ برادر ایاز کی اہلیہ محترمہ شبانہ بہن کہنہ مشق صاحب قلم ہیں اگرچہ وہاں موجود نہ تھیں لیکن پاکستان سے ہو کر ہمارے دورے کی کوریج کا اہتمام کرتی رہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس گھرانے کو اپنی برکات سے معمور رکھے اور بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین۔

دورے کی کامیابی کے لیے برادر عاطف ازبک جو خود ایک بڑے صحافی اور دانشور کی حیثیت سے کئی اداروں سے وابستہ ہیں اپنی تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے ہمہ وقت مصروف رہے۔ بروقت پارلیمنٹ اورپارلیمنٹ سے باہر ملاقاتوںکے اہتمام میں کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ اس دورہ کے موقع پر برادر طلحہ شیخ جو ہمیشہ ترکی میں ہماری میزبانی کرتے ہیں کی پاکستان میں مصروفیات کی وجہ سے کمی محسوس ہوئی۔ البتہ ڈاکٹر ندیم صاحب جو پاکستان اورکشمیر کے ہمہ وقت سفیر اور ترجمان ہیں نے بھرپور وقت دیا اور میزبانی کی۔ اسی طرح جماعت کی ٹیم کے نوجوان رہنما احسن شفیق، عبداﷲ میر اور ان کی ٹیم نے دورے کو کامیاب کرنے میں بھرپور تعاون کیا۔

ہم اپنے محسن برادر ترگے ایورن کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے کشمیر پر ایک تازہ ترانہ تیار کیا جس میں انہوں نے تہاڑ جیل اور دیگر بھارتی جیلوں میں قید قائدین حریت کے نام لے کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بھارتی مظالم کو اجاگر کیا۔ ٹیوٹر اور فیس بک پر لاکھوں کی تعداد میں یہ شیئر ہو چکا ہے بھارت کے دبائو پر بھارت میں ٹیوٹر پر پابندی لگ چکی ہے کہ وہ یہ ترانہ شیئر نہ کریں۔ وہ قبل ازیں محترم سید علی گیلانی صاحب پر اور کشمیر ی شہداء پر ترانے تیار کر چکے ہیں جو ساری دنیا میں داد حاصل کر چکے ہیں۔ان کے ترانے کے اجراء کے حوالے سے صباح الدین زعیم یونیورسٹی میں کانفرنس ہوئی جسے کامیاب کرنے کے لیے پاکستانی اور کشمیری طلبہ نے اہم کردار ادا کیا۔ترگے ایورن نے میڈیا کے محاذ پر جوشاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اس پر انہیں قومی نشان سے نوازاجانا چاہیے۔ہم شکر گزار ہیں کہ دورے کو کامیاب بنانے کے لیے وفد کے سربراہ چوہدری لطیف اکبر صاحب اسپیکر آزادکشمیر اسمبلی صحت کی خرابی اور اپنی دیگر منصبی مصروفیات کے باوجود شب و روز پوری تندہی سے اہل کشمیر کی ترجمانی کرتے رہے، اسی طرح کنونیئر آل پارٹیز حریت کانفرنس جناب محمود احمد ساغر صاحب نے ہر مجلس میں آب بیتی اور کشمیری بیتی داستان ظلم اور ستم سناتے ہوئے کانفرنسوں، سیمینارز اور ملاقاتوں میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا۔ برادر الطاف احمد بٹ صاحب نے دورے کی کامیابی کے لیے بہت اہم کردار اداکیا۔ درکار لاجسٹک سپورٹ میں کسی بخل سے کام نہ لیا اور ہر فورم پر اہل کشمیر کی ترجمانی، وفدمیں شریک ڈاکٹر مبین شاہ نے بھی کمال مہارت سے ہر موقع پر اپنا استدلال رکھتے ہوئے کشمیر کاز کی حمایت کی فضا ہموا ر کی۔

حصہ