وجودِ والدین سے ہے کائنات میں وجودِ انسانی کی بقا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پانچ مقامات سورہ البقرہ، اسرائیل، سورہ لقمان میں اپنے حق کے ساتھ والدین کے حقوق کو بیان فرمایا ہے کہ ’’وبالوالدین احسانا‘‘۔ (اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو۔)
احسان دراصل یہ ہے کہ شریعت اور معاشرتی اعتبار سے جس چیز پر تمہارا کلی حق ہے اس کو دوسرے کو دے دینا۔ والدین اولاد کی پرورش میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں۔ لہٰذا اولاد کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کو خوش رکھنے کے لیے اپنا تن، من، دھن سب کچھ نچھاور کرے۔ ذرا سوچیے، نو ماہ کی تکلیفوں کے بعد جیسے ہی بچہ ماں کے شکم سے باہر آتا ہے اور ماں بچے کے رونے کی آواز سنتی ہے تو وہ اپنا جان لیوا درد بھول جاتی ہے اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔
باپ بیٹے یا بیٹی کی آمد کا سن کر مٹھائی تقسیم کرنے لگتا ہے، اور پھر اولاد کی پرورش میں والدین ایسے مگن ہوتے ہیں کہ اپنا سُکھ چین سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ’’احسان کا بدلہ احسان ہے۔‘‘
سورہ بنی اسرائیل میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنا، اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو۔ ضعیفی کی حالت میں دونوں یا ان میں سے کوئی ایک ہو، تو ان سے اُف تک نہ کرنا، نرمی سے پیش آنا، جھڑک کر بات نہ کرنا اور ان کے حق میں یہ دعا کرنا کہ اے میرے رب! ان کے ساتھ ویسے ہی شفقت کا رویہ اختیار کریں جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میرے ساتھ رکھا۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو لوگ اپنے والدین سے ناروا سلوک کرتے ہیں، اللہ ان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا دے گا۔‘‘ یہ بات سو فیصد مشاہدے میں ہے کہ لوگ اپنے والدین کے ساتھ جیسا سلوک کرتے ہیں ان کی اولادیں بڑھاپے میں ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور باپ کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہے۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو ماں باپ کو راضی نہ کرسکا وہ اللہ کی خوشنودی سے محروم ہوگیا۔ اور جو اللہ کی خوشنودی سے محروم ہوا وہ جنت سے محروم ہوا۔
ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’کیا ہم زندگی میں معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہے یا ناراض ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں تم اپنے باپ کو دیکھو، اگر وہ تم کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے تو سمجھ لو اللہ بھی تم سے خوش ہے۔ ورنہ اللہ تم سے ناراض ہے۔‘‘
ایک مرتبہ آپؐ منبرِ رسول پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے، جب پہلے زینے پر قدم رکھا تو بلند آواز سے ’’آمین‘‘ کہا، دوسرے اور تیسرے زینے پر بھی آپؐ نے بلند آواز سے ’’آمین‘‘ کہا۔ خطبے کے اختتام پر صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے غیر معمولی طور پر یہ کلمہ کیوں کہا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’پہلے زینے پر جبرائیل آئے اور کہا: جس کو رمضان المبارک کے روزے میسر ہوں اور وہ بلا عذرِ شرعی ترک کردے وہ ہلاک ہو، تو میں نے آمین کہا۔ دوسرے پر جبرائیل نے فرمایا: جس شخص کو بوڑھے والدین دونوں یا ایک ملے، اور وہ ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار نہ کرے وہ ہلاک ہو، تو میں نے آمین کہا۔ تیسرے پر جبرائیل نے کہا: جب کسی کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے اور وہ آپؐ پر درود نہ بھیجے تو وہ ہلاک ہو، تو میں نے آمین کہا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جبرائیل کی بشارت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا کتنی سخت وعید ہے۔
ایک صحابیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے بوڑھے والدین کو کاندھوں پر بٹھاکر اور لمبی مسافت طے کرکے حج کرایا ہے، کیا میں نے ان کا حق ادا کردیا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں۔‘‘
ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر جانے کی اجازت لینے آئے۔ آپؐ نے پوچھا ’’کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’میری ضعیف والدہ زندہ ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’جائو ان کی خدمت کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کائنات کا حقیقی خالق ہے اور والدین انسان کی پیدائش کے ظاہر اسباب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی تعظیم کے ساتھ ساتھ والدین کی تعظیم کو اوّلیت بخشی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے معراج کی رات جنت میں تلاوتِ قرآن کی آواز سنی۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرائیل نے کہا یہ نعمان بن حارثہ ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ احسان ہے، یہ احسان ہے‘‘۔ یعنی ماں باپ سے حسنِ سلوک کی جزا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک صحابیؓ نے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بہتر سلوک کا مستحق کون ہے؟‘‘ آپ ؐنے فرمایا ’’تمہاری ماں‘‘۔ آپؐ نے یہ بات تین بار فرمائی اور چوتھی بار کہا ’’تمہارا باپ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے والد کے فوت ہوجانے کے بعد اس کے دوستوں سے حسنِ سلوک کرو۔‘‘
والدین کے حق میں نیکی یہ ہے کہ اپنی نمازوں اور روزوں میں ان کا بھی حق ادا کرو، یعنی ان کے حق میں نفل نماز پڑھو اور روزے رکھا کرو۔ یوں تو والدین کے حقوق اور فرائض کے متعلق قرآن اور حدیث میں فضیلت کے ساتھ ساتھ وعید بھی ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ جو اولاد اپنے والدین کا احترام اور ان کی خدمت نہیں کرتی اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خودغرض نہیں ہوسکتا۔
حدیث ہے کہ ایک نوجوان صحابی آپؐ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد میری اجازت کے بغیر میرا مال خرچ کردیتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کے والد کو بلوایا۔ جب وہ صحابیؓ گھر سے چلے تو راستے میں اشعار کی زبان میں بچے کی پیدائش کی آرزو سے لے کر محبت و شفقت اور پرورش کی دقتوں کو پڑھتے جارہے تھے۔ اسی دوران جبرائیل نے آکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپؐ نے جن کو بلوایا ہے پہلے اُن سے وہ سن لیجیے گا جو وہ راستے میں پڑھتے آرہے ہیں۔ جب وہ صحابیؓ آئے تو آپؐ نے کہا پہلے وہ کچھ سنایئے جو آپ پڑھتے آرہے تھے۔ صحابیؓ نے بڑی گلوگیر آواز میں وہ سب کچھ سنایا، جسے سن کر آپؐ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ آپؐ نے سخت ناراضی سے نوجوان صحابی کو کہا جو کچھ تیرا ہے وہ سب تیرے باپ کا ہے۔
آج کل کی اولاد ضعیف ماں باپ کو Old age home میں داخل کروا کر یا پھر ناروا سلوک کرکے جہنم کی سزاوار بن رہی ہے، اور یہ سب یورپ کی خودغرض جدیدیت کا کرشمہ ہے، وہ سال کی کسی مخصوص تاریخ کو مدرز ڈے اور فادرز ڈے پر ملاقات کرکے اور کچھ تحفے تحائف دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اسی ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں parents protection bill پاس کیا گیا ہے جس کے ذریعے والدین اپنی زندگی میں بچوں کو اپنے گھر سے نکال بھی سکتے ہیں اور اپنے ماہانہ اخراجات بھی لے سکتے ہیں۔ بھارت میں تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ضعیف ماں باپ کے اخراجات کے پیسے منہا ہوجاتے ہیں۔
ماں باپ جتنے بھی ضعیف ہوجائیں گھر میں سایہ دار شجر کی مانند ہوتے ہیں۔ والد تو گھر کی چھت کی مانند ہوتے ہیں۔
مدتوں بعد میسر ہوا مجھے ماں کا آنچل
مدتوں بعد مجھے نیند سہانی آئی
٭
آندھیوں سے بچا کر رکھو اپنے آنگن کا بوڑھا شجر
یہ شجر ہی اگر گر گیا پھر کہانی سنائے گا کون
اُن بچوں سے پوچھو جو والدین کے سائے سے محروم ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے، سفر کے دوران آپؐ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہؓ آپؐ سے بچھڑیں، یہ غم آپؐ زندگی بھر نہیں بھولے۔ آپؐ اپنی رضائی ماں حضرت دائی حلیمہؓ کا بے حد احترام کرتے اور اپنی رضائی بہن حضرت سعدیہؓ کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے اور تحائف دے کر رخصت کرتے۔ میرے پیارے نوجوانو! اگر دنیا میں جنت کا سودا پکا کرنا ہے تو اپنے والدین کی خدمت اور اطاعت کرو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘
میاں بیوی تکلیف اٹھاکر چار پانچ بچوں کی پرورش کردیتے ہیں، مگر جب وہ ضعیف ہوجاتے ہیں تو یہ بچے ان کی ذمہ داری اٹھانے سے کتراتے ہیں۔
منور رانا نے کیا خوب کہا:
کسی کے حصے میں مکاں آیا کسی کے حصے میں دکاں آئی
میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
اگر پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ اردو اسپیکنگ گھرانوں اور بیرونِ ملک بسنے والے لوگوں میں والدین کے حوالے سے بے توجہی پائی جاتی ہے، جبکہ دیگر لسانی اکائیوں اور قبائلی معاشرے میں آج بھی بڑے بوڑھوں کی عزت و تکریم زیادہ ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی جیسے میگا سٹی میں پُرتشدد سیاست نے زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا اور تمام اخلاقی قدریں پامال ہوگئیں۔ لڑکے اور لڑکیاں باغی ہوچکے ہیں۔ ہر شخص اپنی جوانی اپنی اولاد کے لیے اس امید پر قربان کرتا ہے کہ اس کی اولاد بڑھاپے میں اس کے لیے سہارا بنے گی۔ مگر آج یہی اولاد بوڑھے والدین کے سر پر لاٹھی بن کر برس رہی ہے۔
غیر کی شکایت پر، پھر کسی شرارت پر
مار کر مجھے عارفؔ خود بھی رو رہی ہے ماں
باپ واحد شخص ہے جو چاہتا ہے کہ بیٹا آس سے زیادہ کامیاب ہو۔
سب نے ماں کی محبت کو بے مثل پایا
ہم نے باپ کی محبت کو ماں کے مثل پایا