ہم کیا کچھ کھو چکے ہیں اور کیا کچھ کھو رہے ہیں… وطنِ عزیز پاکستان کے حوالے سے حوصلہ افزا خبریں اب کم ہی ملتی ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی شاید اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان سے نالاں زیادہ ہیں۔ گزشتہ دنوں مسلم اکیڈمک اسکالرز کی ایک نشست میں شرکت کا موقع ملا۔ برطانیہ اور مغرب میں مسلمان اب ایک مضبوط اقلیت ہیں اور بہت سے میدانوں میں ان کی شرکت اب واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ اس میں سے ایک سب سے بڑا شعبہ طب ہے کہ جہاں مسلمانوں کے بغیر شاید برطانیہ میں کسی اسپتال کا تصور نہیں۔ برطانیہ کے بڑے شہروں کے اسپتالوں میں مسلمان ڈاکٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، اور ان میں سے ایک معقول تعداد وہ ہے جو اپنے میدان میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ مسلم اکیڈمک اسکالرز کے پلیٹ فارم پر ماہرینِ تعلیم کو جمع کرنے والے ڈاکٹر الطاف خٹک کا تعلق خیبرپختون خوا سے ہے اور وہ یہاں ایک طویل عرصے سے مسلمان ڈاکٹرز کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مسجد میں امامت کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ اس پروگرام کی خاص بات مسلمان اسکالرز کے سامنے رول ماڈل پیش کرنا اور ان کو اعلیٰ ترین معیار کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔
جہاں مختلف ماہرینِ تعلیم نے اپنے تجربات اور زندگی کا نچوڑ بیان کیا وہاں پر انہوں نے اپنی لگن اور جہدِ مسلسل سے یہ مقام حاصل کرنے کی داستان بھی بیان کی۔ سب کی زندگی کی سعی خوب سے خوب تر تھی، اور اس میں مزید خوبی یہ کہ وہ اس تمام محنت اور مقام حاصل کرنے میں بھی اپنے دین پر عمل کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان ماہرین میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد اس وقت لیور پول یونیورسٹی اسپتال میں کنسلٹنٹ اور سرجری کے پروفیسر ہیں، ان کا شمار برطانیہ کے صفِ اوّل کے روبوٹک سرجنز میں ہوتا ہے۔ ایک منکسرالمزاج شخص، جوکہ آپ کے ساتھ بیٹھا آپ جیسا ہی نظر آئے وہ برطانیہ میں معدے کی روبوٹک سرجری کا قائد ہے، شاید اس کا کسی کو بھی یقین نہ آئے۔ اور شاید یہ بھی ناقابلِ یقین ہے کہ کریم آباد شکیل کارپوریشن کے دو کمروں کے فلیٹ میں رہنے والا، کہ جس کے والدین سیکنڈری تک بھی تعلیم حاصل نہ کرپائے تھے، جس نے گورنمنٹ دہلی اسکول و کالج سے میٹرک و انٹر کرنے کے بعد سرکاری میڈیکل کالج سندھ میڈیکل کالج جو کہ اب جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، سے تعلیم حاصل کی آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بہترین میڈیکل کالجز کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کا استاد ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد نے بتایا کہ وہ کبھی انگریزی زبان کے دیئے گئے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہوئے، جس کے بعد قسمت سے ایک موقع ملا اور ان کو برطانیہ میں جونیئر ڈاکٹر کی ملازمت بغیر ٹیسٹ کے مل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ رائل کالج کی فیلوشپ، پی ایچ ڈی اور کوریا سے روبوٹک سرجری کی ٹریننگ… اس کے بعد پروفیسر آف سرجری جیسے اعلیٰ ترین مقام کے بعد وہ اب اسپتال کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی اسکول کی یادوں میں اپنے پرنسپل کا تذکرہ بطورِ خاص کیا اور اسکول نے ان کی ہم نصابی صلاحیتوں کو نشوونما دینے میں جو کردار ادا کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاکی کا کھلاڑی جو کہ شاید حسن سردار کے ساتھ ہاکی کھیلنا چاہتا تھا، کھیل میں خوب سے خوب تر کی جستجو نے محنت کی جو عادت ڈال دی تھی اس کی بنیاد پر وہ انگریزی کے امتحان میں کامیاب نہ ہونے کے باوجود بھی ہمت نہیں ہارے۔
ڈاکٹر شکیل احمد کی گفتگو ان کی سادگی، والدین، اساتذہ اور وطنِ عزیز پاکستان سے محبت کا مجموعہ تھی۔ میں ان کی گفتگو کے دوران بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں، پہلے ہم نے اپنے اعلیٰ ترین ٹیلنٹ کو کھو دیا، اور اس کے بعد اس ٹیلنٹ کو نکھارنے والے اور شکیل احمد کو پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد روبوٹک سرجن بنانے والے اداروں دہلی کالج و اسکول کو بھی پرائیویٹائز کرکے ان عمارتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیا۔ اسکول و کالج نئی عمارات میں منتقل تو ہوگئے لیکن اب ان کی حالت کیسی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سرکاری اسکول کالجز نے شکیل احمد جیسے عام طالب علم کو نکھار کر کیا سے کیا بنادیا، ورنہ شکیل کارپوریشن میں رہنے والے شکیل احمد کے والدین شاید ان کو کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں تعلیم نہ دلوا سکتے تھے۔
پاکستان میں پہلا ظلم تو یہ ہوا کہ دنیا میں سب سے اہم تسلیم کی جانے والی چیز ہیومن ریسورس کو ہم اپنے پاس سنبھال کر نہ رکھ سکے، اور اس کے بعد ہم نے ان معیاری تعلیمی اداروں کو بھی تباہ کردیا جہاں غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرکے کچھ کرنے کے قابل ہوسکتا تھا۔ آج پاکستان سے باہر جتنے بھی قابل ترین افراد موجود ہیں وہ کوئی بڑے یا امیر گھرانوں سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ زیادہ تر تو وہ تھے کہ جن کے گھر میں تین وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر تھی۔ سرکاری اسکولوں اور اردو میڈیم میں پڑھنے والے آج صرف اور صرف تعلیم، محنت اور لگن کی بنیاد پر انگریزوں کے استاد ہیں۔
میں اپنے چہار جانب آج دیکھتا ہوں تو پرائیویٹ اسکولوں کی بہار ہے اور والدین کی کوشش یہ ہے کہ اچھے سے اچھے برانڈ کے اسکول میں اپنے بچوں کو انگریزی میں تعلیم دلوائیں… اور اسکولوں کا یہ حال ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی اسکول میں اردو بولنے پر پابندی ہے۔ ہم نے زبان کو اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم نے بچوں میں سے تخلیق کی صلاحیت کو سلب کرلیا، ہم نے دوسروں کی زبان سکھانے کی وجہ سے اپنے بچوں کی قوتِ اظہار کو بھی کھودیا ہے، ہمارا بچہ سوچتا اردو میں ہے اور اس کو لکھنا انگریزی میں پڑتا ہے۔ محنت، لگن، جہدِ مسلسل کے بجائے ہم نے اپنے بچوں کو اسمارٹ بنانے کے نام پر شارٹ کٹ سکھا دیئے ہیں۔
میں جب برطانیہ اور مغرب میں پروفسیر ڈاکٹر شکیل احمد جیسوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس ملک پر اللہ نے بیش بہا انعام کیا، اس کو اعلیٰ ترین انسانی وسائل سے نوازا لیکن ہم ان انسانی وسائل کی قدر نہ کرسکے۔ پاکستان بطور ریاست جس مشکل سے دوچار ہے اس کا کرب مغرب میں محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ خطہ ایک غیر معمولی خطہ ہے کہ جہاں مجدد الف ثانی، شبیر احمد عثمانی، اشرف علی تھانوی، شیخ احمد سرہندی، قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور سید مودودی جیسے اعلیٰ ترین دماغ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد بظاہر علمی اور معاشی طور پر پسماندہ اس ملک نے انسانی وسائل میں جو خودانحصاری حاصل کی وہ بلاشبہ قدرت کا ایک بیش بہا عطیہ ہے۔ جہاں پاکستان کا ان نامساعد حالات میں ایٹمی طاقت بن جانا ایک معجزہ ہے وہیں دو اور تین دہائیوں قبل ملک چھوڑ کر اعلیٰ ترین مقام پر فائز افراد کی پاکستان سے کمٹمنٹ بھی میری نظر میں ایک معجزے سے کم نہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات دو ہیں، ایک تو وہ ریاست کو اپنا محسن سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ان کو علم کے زیور سے آراستہ کیا، اور دوسرا ان کی اردو سے لگن نے ان کا ناتا اپنے خطے سے ٹوٹنے نہیں دیا۔
میں آج نظر دوڑاتا ہوں تو سوچتا ہوں پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے اور انگریزی بولنے والے پاکستانی طالب علم کے پاس بیرونِ ملک جانے کے بعد اس خطے سے مربوط رہنے کا کون سا جواز باقی رہے گا؟