قیصروکسریٰ قسط(119)

437

چند دن گھوڑوں پر سفر کرنے کے بعد عاصم اور ولیریس ایک دوپہر انطاکیہ میں داخل ہوئے تو انہیں یہ اطلاع ملی کہ بندرگاہ پر قسطنطنیہ کا ایک جہاز کھڑا ہے۔ چناں چہ وہ کسی توقف کے بغیر بندرگاہ کی طرف چل دیئے۔ لیکن وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ جہاز بھر چکا ہے۔ چند مسافر جنہیں اس جہاز میں جگہ نہیں ملی تھی کپتان کے ساتھ تکرار کررہے تھے۔ ایک غسانی رئیس انتہائی غصے کی حالت میں چلا رہا تھا۔ ’’میں قیصر کے لیے اپنے حکمران کی طرف سے مبارکباد کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اگر مجھے اس جہاز میں جگہ نہ ملی تو میں انطاکیہ کے حاکم سے تمہاری شکایت کروں گا۔ دیکھو میں قیصر کے لیے تحائف لے کر جارہا ہوں اور فتح کے جشن سے قبل میرا قسطنطنیہ پہنچنا ضروری ہے‘‘۔

کپتان نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے تحائف پہنچادینے کا ذمہ لے سکتا ہوں لیکن تمہارے لیے میرے جہاز پر کوئی جگہ نہیں۔ فتح کا جشن کئی دن جاری رہے گا اور تمہیں دو تین دن کے اندر کوئی جہاز مل جائے گا‘‘۔

’’لیکن میں قیصر کا جلوس دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ قیصر بہت جلد قسطنطنیہ پہنچ جائے گا‘‘۔

کپتان نے کہا۔ ’’یہ تمام مسافر قیصر کا جلوس دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ لیکن اس بات کا فیصلہ صرف میں کرسکتا ہوں کہ میرے جہاز پر کتنے آدمی سوار ہوسکتے ہیں۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ انطاکیہ سے جتنے مسافر میرے جہاز پر سوار ہوئے ہیں وہ سب قیصر کے لیے نہ کوئی تحفہ لے کر جارہے ہیں اور ان میں سے کوئی ایسا نہیں جسے قیصر کے جلوس سے دلچسپی نہ ہو‘‘۔

ولیریس اپنے مضبوط بازوئوں سے راستہ صاف کرتا ہوا آگے بڑھا۔ اور بولا۔ ’’تمہارے جہاز پر ایک تجربہ کار ملاح کو جگہ نہیں مل سکتی؟‘‘

’’ولیریس‘‘۔ کپتان نے چونک کر کہا۔ ’’آپ اتنی جلدی واپس آگئے؟ میں نے تو یہ سنا تھا کہ آپ مدائن جارہے ہیں‘‘۔

ولیریس نے جواب دیا۔ ’’مجھے وہاں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور اب میں کسی تاخیر کے بغیر قسطنطنیہ پہنچنا چاہتا ہوں۔ میرے ساتھی گھوڑوں پر اپنا سفر جاری رکھیں گے آپ کو صرف ایک اور مسافر کو جگہ دینی پڑے گی۔

کپتان نے جواب دیا۔ ’’آپ کو جہاز پر سوار ہونے کے لیے میری اجازت کی ضرورت نہیں‘‘۔

غسانی رئیس نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’لیکن آپ تو یہ کہتے تھے کہ آپ کا جہاز پُر ہوچکا ہے۔

’’میں درست کہتا ہوں۔ شاید تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ولیریس مجھے سارا جہاز خالی کرنے کا حکم دے سکتا ہے‘‘۔

تھوڑی دیر بعد ولیریس اور عاصم جہاز پر سوار ہوچکے تھے۔ ہوا موافق تھی اور چند دن بعد یہ جہاز ایک صبح بحیرئہ مارمورا سے نکل کر آبنائے باسفورس میں داخل ہوچکا تھا۔ بائیں ہاتھ قسطنطنیہ کی فصیل پر عورتوں اور مردوں کا ہجوم دکھائی دے رہا تھا۔ کئی جہاز بندرگاہ سے باسفورس کے دونوں کناروں پر رکے ہوئے تھے۔ سامنے بحیرئہ اسود کی سمت سے بیس جنگی جہاز بندرگاہ کی طرف بڑھ رہے تھے اور سب سے اگلے جہاز پر قیصر کا پرچم لہرا رہا تھا۔

ولیریس، عاصم اور چند اور مسافر جہاز کے اگلے سرے پر کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے، جہاز کے کپتان نے ولیریس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’جناب قیصر تشریف لارہے ہیں اور اب کچھ دیر ہمیں بندرگاہ سے دور رکنا پڑے گا۔ آپ کا کیا حکم ہے؟‘‘

ولیریس نے جواب دیا۔ ’’میرا خیال ہے ہم قیصر کے بیڑے کی آمد سے پہلے بندرگاہ پر پہنچ سکتے ہیں‘‘

’’جناب میں آپ کی حکم عدولی نہیں کرسکتا لیکن مجھے ڈر ہے کہ جو لوگ بندرگاہ پر قیصر کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں وہ میری اس جسارت کو پسند نہیں کریں گے‘‘۔

ولیریس نے کہا۔ ’’بہت اچھا تم کچھ دور آگے جا کر جہاز کا لنگر ڈال دو اور ہمارے لیے کشتی اتار دو۔ ہم بندرگاہ کے ایک طرف اُتر جائیں گے‘‘۔

باقی مسافر ایک ساتھ شور مچانے لگے۔ ’’جناب ہم بھی قیصر کا جلوس دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اتنی دور سے آئے ہیں۔ ہم برسوں سے اس مبارک دن کا انتظار کررہے ہیں۔

ولیریس نے کہا۔ ’’ہمارا جہاز اس وقت بندرگاہ کے قریب نہیں جاسکتا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تم سب قیصر کا جلوس دیکھ سکو گے۔ میں تمہاری مدد کروں گا‘‘۔

تھوڑی دیر بعد جب عاصم اور ولیریس کے علاوہ چند اور مسافر رسی کی سیڑھی سے اُتر کرکشتی پر سوار ہورہے تھے۔ ایک تیز رفتار کشتی ان کے قریب پہنچی اور ایک رومی افسر نے پوری قوت سے چلا کر کہا ’’ٹھہرو! تم بندرگاہ کی طرف نہیں جاسکتے؟‘‘

ولیریس نے مڑ کر رومی افسر کی طرف دیکھا۔ اور اسے کچھ اور کہنے کی جسارت نہ ہوئی۔ ولیریس نے کہا قسطنطنیہ کی بندرگاہ اتنی تنگ نہیں کہ یہ چھوٹی سی کشتی قیصر کا راستہ روک سکے‘‘۔

رومی افسر نے معذرت طلب لہجے میں کہا۔ ’’جناب میں آپ کو پہچان نہیں سکا۔ لیکن آپ جلدی کریں شہنشاہ کا بیڑا بہت قریب آچکا ہے‘‘۔

تم فکر نہ کرو۔ بیڑا ابھی کافی دور ہے اور تم اس عرصے میں اس جہاز کے مسافروں کو اُتارنے کا بندوبست کرسکتے ہو۔ یہ سب قیصر کا جلوس دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ مسافروں کو اُتارنے کے لیے دو اور کشتیاں کافی ہوں گی‘‘۔

’’بہت اچھا جناب۔ آپ کے حکم کی تعمیل میرا فرض ہے‘‘۔

ہرقل کا جہاز بندرگاہ پر لگا اور چاروں طرف مسرت کے نعرے بلند ہونے لگے۔ وہ جہاز سے اُترا۔ اور ہزاروں انسانِ فرطِ عقیدت سے دوزانو ہوگئے۔ وہ اپنے راستے میں بچھے ہوئے بیش قیمت قالینوں اور ان پر بکھرے ہوئے پھولوں کو روندتا ہوا آگے بڑھا اور شاہی رتھ پر جس کے آگے آٹھ سفید گھوڑے جُتے ہوئے تھے، سوار ہوگیا۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کیا اور لوگ نئے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگانے اور پھول نچھاور کرنے لگے۔ اس کے آگے سیکڑوں آدمی باجے اور نقارے اُٹھائے کھڑے تھے اور پیچھے جہازوں سے اُترنے والے سپاہی صفیں درست کررہے تھے۔ وہ اپنا ہاتھ بلند کرکے کبھی دائیں، کبھی بائیں طرف دیکھتا اور کبھی اس کی نگاہ فصیل پر جمع ہونے والوں کی طرف مرکوز ہو کر رہ جاتیں۔ اس کی ہرجنبش، ہر حرکت اور ہر ادا زبانِ حال سے اس امر کا اعلان کررہی تھی کہ آج خدا کی دنیا میں میرے سوا کوئی نہیں۔

عاصم جسے ولیریس کی رفاقت کی بدولت بندرگاہ پر جمع ہونے والے ہجوم سے نکلنے کے بعد فصیل کے ایک برج کے نیچے کھڑا ہونے کے لیے جگہ مل گئی تھی۔ غرور اور سطوت کے اس پیکر مجسم کی طرف دیکھ کر بار بار یہ کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ہرقل ہے‘‘۔

ولیریس نے کہا۔ ’’میرے دوست آج تم پہلی مرتبہ اسے ایک فاتح کی حیثیت میں دیکھ رہے ہو۔ آج تم قسطنطنیہ کے کسی باشندے کو نہیں پہچان سکو گے۔ آج دُنیا کی ساری توانائی اور سارا غرور سمٹ کر رومیوں کے وجود میں آگیا ہے۔ آج جب شاہی محل کی بالکنی سے تم ہرقل کی تقریر سنو گے تو یہ محسوس کرو گے کہ تم نے پہلے کبھی اس کی آواز نہیں سنی‘‘۔

عاصم اپنے دائیں بائیں ان لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا جو شراب کے مشکیزے اُٹھائے ہوئے تھے، اور اپنے حکمران کی طرف دیکھنے اور انتہائی جوش و خروش کے عالم میں چند نعرے لگانے کے بعد ہربار چند گھونٹ حلق سے اُتارنے کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔

ایک رومی شراب سے مدہوش ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا۔ ’’میں فصیل سے چھلانگ لگا کر باسفورس کے دوسرے کنارے پر پہنچ سکتا ہوں اور اس کے ساتھی چلا رہے تھے۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم بالکل جھوٹ کہتے ہو‘‘۔

شرابی نے ایک لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر سوال کیا۔ ’’تم بتائو میں جھوٹ کہتا ہوں؟‘‘

’’ہاں‘‘ اس نے نشے میں جھومتے ہوئے جواب دیا۔

’’خدا کی قسم میں سچ کہتا ہوں۔ میں بالکل سچ کہتا ہوں‘‘اور پھر کسی توقف کے بغیر فصیل سے نیچے چھلانگ لگادی۔ اس کے بعد چند تماشائی آگے جھک کر خندق میں پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھ رہے تھے اور باقی قہقہے لگا رہے تھے۔

ولیریس نے اپنے ایک یونانی دوست کے ہاتھ سے شراب کے دو جام پینے کے بعد تیسرا جام عاصم کو پیش کیا لیکن اس نے انکار کردیا۔ ولیریس نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرے دوست یہ شراب بہت اچھی ہے اور ایسا دن بار بار نہیں آتا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے لیے یہاں ٹھہرنا بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن اس وقت انہیں تلاش کرنا ممکن نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ فسطینہ، انطونیہ اور جولیا کے ساتھ ہو گی اور وہ جلوس کے اختتام سے قبل گھر نہیں پہنچیں گی۔ چند گھونٹ پینے کے بعد تمہاری پریشانی دور ہوجائے گی…‘‘

عاصم نے جواب دیا۔ ’’قید کے ایام میں میں کسی ایسے نشے کی ضرورت محسوس کیا کرتا تھا جو مجھے ہمیشہ کے لیے دنیا و مافیہا سے بے خبر کردے۔ لیکن آج میں مدہوش ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا‘‘۔

عاصم کی بات ولیریس کے یونانی دوست کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ اس نے ولیریس کے ہاتھ سے جام لے کر منہ کو لگالیا اور اسے ختم کرنے کے بعد عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دنیا میں کوئی شراب کے بغیر زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔ جب دشمن قسطنطنیہ کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا تو ہم اپنا غم غلط کرنے کے لیے پیا کرتے تھے اور اب جب ہمیں دشمن پر ایک عظیم فتح نصیب ہوئی ہے تو ہمارے لیے اپنی مسرتوں کے اظہار کے لیے بھی اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ ولیریس! معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ساتھی فتح اور شکست دونوں سے ناآشنا ہے اور اس نے کوئی بڑا غم یا کوئی بڑی خوشی نہیں دیکھی‘‘۔ (جاری ہے)

حصہ