یادیں

298

اگست ختم ہوا لیکن یادیں رہ رہ کرآتی ہیں کہ یہ مہینہ ہم پاکستانیوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اور اگر اس میں کوئی مذہبی تہوار بھی آجائے تو اس کی رونق مزید بڑھ جاتی ہے جیسا کہ اِس سال ہوا۔ گویا ذاتی، قومی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے بڑی گہما گہمی رہی۔ مصروفیت کے ان ہی لمحات میں ایک 2008ء کا اگست گھوم گیا۔

18 اگست 2008ء کی سہ پہر تھی۔ ہم سب ٹی وی لائونج میں جمع تھے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ امی کے گرد بیٹھے تھے اور ٹی وی چل رہا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ صدر پرویزمشرف کی الوداعی تقریر چل رہی تھی۔ مایوسی، بددلی اور نفرت اُن کے لب و لہجے سے جھلک رہی تھی اور یہ سارے جذبات ہمارے اندر منتقل ہوگئے جب انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیا:

’’پاکستان کا… اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

ہم سب دل گرفتہ تھے مگر امی جان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ وہ ٹھیریں جذباتی خاتون! ہر حکمران کی رخصتی پر یونہی روتی رہی ہیں، مگر اِس دفعہ ان کا انداز بدلا ہوا تھا۔ بہت سے ذاتی دکھ اور افسوس بھی اس میں شامل ہوگئے تھے۔ اپنے پیاروں کو امریکا منتقل ہوتے دیکھنا ان کے لیے ایسا ہی تھا جیسے اپنی اولاد کو دوسرے جہاں روانہ کرنا۔

ہر سال 14 اگست کو وہ غمگین ہوجاتیں کہ اس دن ہماری ایک بہن انتقال کرگئی تھی، مگر اس سے بھی زیادہ اس بات کا تھا کہ ہم نے پاکستان کے لیے اتنی قربانیاں دیں مگر یہ روز بہ روز بدحال ہوتا جارہا ہے کہ سب اسے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اُن کو روتے دیکھ کر کبھی کبھار ابا جان مذاق کرتے کہ ان کو اپنی گڑیا یاد آرہی ہے۔

جی ہاں! وہ کارنس پر رکھی گڑیا، بیٹھک میں لگا قد آدم گھڑیال اور دالان میں رکھے گھڑے یاد کرتیں جب بحیثیت ایک آٹھ نو سالہ بچی انہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی، تو وہ آنسوئوں کو نہ روک پاتیں! مگر اس وقت ان کے آنسو کچھ زیادہ ہی مایوسی لیے ہوئے تھے۔ شاید اس لیے کہ یہ ان کی زندگی کاآخری اگست ثابت ہوا اور وہ خوش حال پاکستان کی آس لیے دنیا سے گزر گئیں۔

اورآج نئی کابینہ کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ اچھا ہوا آپ نہ رہیں کہ وہ پرانے چہرے جو ملک کو تباہی کے حوالے کرکے کنارے ہوگئے تھے نئے سربراہ کے ساتھ دوبارہ حکومت میں آگئے ہیں۔ گیٹ اَپ بدلنے یا ہیئر اسٹائل تبدیل کرنے سے بھی بھلا کچھ بدل سکتا ہے؟

حصہ