فل اسٹاپ

1432

’’پڑھنا پڑھانا، ملازمت، سماجی سرگرمیاں سب ختم۔ زندگی گویا شوہر،گھر اور بچے کے گرد گھومنے لگی ہے۔ یہ وہ حد ہے جس سے پرے کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ عجیب ٹینشن میں ہوں۔ شادی جیسے ’’فل اسٹاپ‘‘ لگنے لگی ہے۔‘‘

اس کی باتوں کا انداز شدید اندرونی اکھاڑ پچھاڑ کی خبر دیتا تھا۔ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا:

’’شدت سے خود کے ضائع ہونے کا احساس ہے۔ اب تو میاں کی جاب ختم ہونے اور معاشی مسائل پیش آنے پر یہ احساس مزید بڑھ گیا ہے۔ عقل اور سمجھ جیسے ختم سی ہوگئی ہے۔ ملازمت کرنے کا سوچوں تو آگے پیچھے کھائی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف معاشی مشکلات تو دوسری طرف ننھے وجود کے لیے ممتا اور اس کا مستقبل محفوظ کرنے کا احساس ہے۔ ماں اور ساس جنت سدھار گئیں۔ کوئی ہمت بندھانے والا، بچے کے معاملے میں ساتھ دینے والا بھروسا مند فرد بھی میسر نہیں۔‘‘

وہ بلکتے ہوئے اندر کا درد لفظوں اور آنسوئوں کی صورت نکالے جا رہی تھی۔

ڈاکٹر صاحبہ خاموشی اور توجہ سے سنتی رہیں۔ یہاں تک کہ وہ تھک کر خود ہی خاموش ہوگئی۔ ماحول پر سکوت طاری تھا جسے ڈاکٹر کی آواز نے توڑا۔ وہ اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیے بولیں ’’میری بہنا! کبھی زمین میں بیج ڈال کر پودا اُگنے اور پھر درخت بننے کے عمل کو ملاحظہ کیا ہے؟‘‘

سوالیہ انداز پر اس کی آنکھوں میں حیرانی کا تاثر ابھرا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بات جاری رکھی:

’’بیج ڈال کر پہلا کام یقینا انتظار کا ہوتا ہے۔ پودا کتنے ہی دن اُگتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر انتظار کرتے ہیں، کیونکہ معلوم ہے زیر زمین بیج خاص ادوار سے گزر رہا ہے، کئی طوفانوں کے زیر اثر ہے، جس سے وہ قوت جنم لیتی ہے جو بیج کو پھاڑ کر راستہ بناتی ہے اور پھر ننھی کونپل کی صورت مضبوط درخت کی بنیاد رکھتی ہے۔ ایسے میں کوئی بے صبرا مٹی کھود کر مشاہدہ کرنے لگ جائے تو بیج کا سارا تحرک، محنت نہ صرف ضائع چلی جاتی ہے بلکہ بیج پھر کسی قابل نہیں رہتا۔

یاد رکھیں بچے کو جنم دینا، پالنا،گھر سنبھالنا، شوہر کو خوب صورت اور پُرخلوص رفاقت کے حصار میں لینا ایک عظیم، پُرمشقت اور مفید کام ہے۔ بنیاد مضبوط ہو تو خیر کا ناقابلِ یقین سلسلہ چل نکلتا ہے، چھپی صلاحیتیں نمو پاتی ہیں۔ بے صبرا پن ہو تو کیا کرایا اکارت چلا جاتا ہے۔ لہٰذا سوچ کا زاویہ بدلیں، ممکنہ صورتوں پر غور کریں، بند راستے پر نظر جمانے کے بجائے اِردگرد نظر ڈالیں۔ کئی راستے کھلے اور کشادہ بھی ہوں گے، بس زاویۂ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت آپ جس عظیم مرحلے میں ہیں، لوگ لاکھ باتیں بنائیں مگر خود کو بتائیں کہ آپ کا موجودہ کام اور درپیش حالات انتہائی اہم، اور وسعت نظری کے متقاضی ہیں۔ تھوڑا صبر، انتظار، ثابت قدمی اہم ہے۔

خاندان میں بڑی بہو ہونا، ننھے بچوں کی ماں ہونا، رشتوں میں توازن رکھنے کی کوشش میں لگے رہنا بلند پایہ کام اورصلاحیت ہے۔ کانٹوں کے درمیان پھولوں کی کاشت کرنا معمولی حوصلے سے ممکن ہی کہاں ہے! مختلف مزاج کے لوگوں سے حسب ِ مراتب تعلق قبولیت، رابطے، کمال درجے کی تحمل مزاجی کا متقاضی ہے۔

اب آپ خود سوچیں،کیا یہ فل اسٹاپ ہے؟ آپ جان جائیں گی کہ یہ ایک سلسلے کا آغاز ہے… فل اسٹاپ تو تب ہوگا جب ان حالات میں منفی رویّے کے زیراثر اپنے ہر عمل کا ذمے دار دوسروں کو ٹھیرانے لگیں گی۔ حوصلہ، امید اور حواس کھو بیٹھیں گی۔ تب نہ صرف طاقت ضائع ہوگی بلکہ خود کو بھی ضائع کر بیٹھیں گی بالکل اُس تتلی کی طرح جسے تخلیقی عمل میں آسانی دینے کوئی پیوپا کاٹ ڈالے اور یہ بے صبری اسے اُڑنے کی طاقت اور پروں سے محروم کردے۔ لہٰذا اس وقت کو قیمتی جانیں۔ یقینا سخت ہے، مگر آپ کو برداشت کرنا ہے کہ نتیجے میں آپ کو خاص طاقت اور اُڑان چاہیے۔ لہٰذا گرم سرد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خوش اور مطمئن رہنا سیکھیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ تنگی اور آسانی دونوں زندگی کا حصہ ہیں جن سے ہمیشہ سابقہ رہے گا۔ رب کا وعدہ ہے ہر تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے۔ وہ بندے کو آزماتا ہے کہ وہ مشکل حالات میں اللہ پر کتنا بھروسا کرتا ہے، اس سے کتنا تعلق استوار کرتا اور اپنے حصے کے کام پر مستقل مزاجی سے جما رہتا ہے۔ اچھا وقت یقینا قریب ہے۔‘‘

حصہ