دانش چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ امتحان نزدیک تھے اس لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی وہ اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کر رہا تھا۔ کافی رات تک پڑھائی کر تا رہا تھا۔ گھر میں تنگی کی وجہ سے اس کی امی نے اپنی اسٹیل کی الماری اُس کے کمرے میں رکھ دی تھی۔ دانش نے اپنی میز کرسی اسی الماری کے قریب لگا رکھی تھی۔ پچھلی رات اس کا ٹیبل لیمپ خراب ہو گیا جس کی روشنی میں وہ پڑھا کرتا تھا۔ اسکول سے واپس آکر وہ ٹیبل لیمپ ٹھیک کرنے میں لگ گیا۔ اس کو بجلی کا تار کھلا ہوا تھا۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی ! اس کی امی نے دروازہ کھول کر دیکھا۔ سامنے ایک آدمی ہاتھ میں بڑا سا بیگ لیے ہوئے کھڑا تھا۔ اُس آدمی نے بڑے ہی نرم لہجے میں کہا۔’’ میں جھاگ والا انٹرنیشنل کمپنی سے آیا ہوں، ہماری کمپنی بہت اچھا صابن بناتی ہے ، جس سے گندے کپڑےآسانی سے صاف ہو جاتے ہیں !!‘‘
’’ ہمیں نہیں خریدنا… ! ہمارے پاس پہلے ہی بہت سا صابن رکھا ہوا ہے‘‘… دانش کی امی نے اس شخص سے کیا۔
’’ ہماری کمپنی نے یہ نیا صابن بنایا ہے اور یہ بالکل مفت میں ہے…! اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ گندے کپڑے آپ کو چند منٹوں میں صاف کر کے دکھا سکتا ہوں!! “
گندے کپڑے صاف کرنے اور مفت میں صابن ملنے کی بات سُن کر اُن کے دل میں لانچ آگیا اور انھوں نے اُس آدمی کو گھر میں بلالیا۔
آدمی نے اپنا بیگ زمین پر رکھتے ہوئے کہا آپ میلے کپڑے لے آئیے ، میں صاف کر کے دکھاتا ہوں“
جیسے ہی دانش کی امی کپڑے لانے کے لیے پیچھے کی طرف مڑیں، اُس آدمی نے اپنے پاس چھپا ہوا تیز دھار کا چمچماتا ہوا چاقو نکال کر دانش کی امی کی گردن پر رکھ دیا اور کڑک دار آواز میں کہا۔
’’ اگر ذرا بھی شور مچانے کی کوشش کی تو جان سے مار دوں گا۔ فوراً اپنے سارے زیورات اتار کر میرے حوالے کر دو !‘‘
دانش کی امی گھبرا گئیں اور ڈر کے مارے کانپنے لگیں ۔ انہوں نے فوراً اپنے سارے زیور اتار کر اس کو دے دیے۔ مگر وہ آدمی اسی پر راضی نہ ہوا… اور بولا …
’’چلو اندر چل کر بتاؤ تمہاری الماری کہاں پر رکھی ہوئی ہے ؟‘‘
مجبوراً وہ اُسے دانش کے کمرے میں لے گئیں۔ امی کی گردن پر ایک اجنبی شخص کو چاقو رکھے ہوئے دیکھ کر دانش بھی گھبرا گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کے گھر میں کوئی لٹیرا گھس آیا ہے۔ وہ کرسی سے اٹھنے لگا تو اُس آدمی نے دانش کو دھمکاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
چپ چاپ وہیں بیٹھے رہو…! ذرا بھی ہلنے کی کوشش کی تو تمہاری امی کو جان سے مار ڈالوں گا !!‘‘
یہ سن کر دانش خاموش پہلے کی طرح کرسی پر بیٹھ گیا لیکن اُس وقت اُس کا دماغ کمپیوٹر سے بھی تیز کام کرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا ابو باجی کی شادی کا سامان خریدنے کے لیے کل ہی بینک سے پچاس ہزار روپے نکال کر لائے تھے اور وہ اسی الماری میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اس لٹیرے نے روپے لے لیے تو ابو کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی… ! اس لیے مجھے ہمت اور عقل مندی سے کام لینا چاہیے!!
دانش کو چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر لٹیرے نے دانش کی امی کو دھمکاتے ہوئے کہا… ’’الماری کی چابی کہاں ہے چابی میرے حوالے کر دو ! “
دانش کی امی نے کچھ دیر سوچا۔ پھر ڈر کے مارے مجبوراً چابی لٹیرے کے حوالے کر دی۔ اسی درمیان دانش نے ٹیبل لیمپ کا کھلا بجلی کا تار اسٹیل کی الماری سے سٹا دیا اور کرنٹ چالو کردیا۔
لٹیرے نے جیسے ہی پچابی لگا کر الماری کا تالا کھولنے کی کوشش کی، بُری طرح چیخ پڑا …کیوں کہ الماری میں دوڑ رہے کرنٹ نے اُسے چپکا لیا تھا۔
دانش نے اُسے تڑپتا ہوا دیکھ کر رحم کھا کر بجلی کا کرنٹ بند کر دیا۔ لٹیرا بے دم ہوکر زمین پر گر پڑا۔ تب تک شور سن کر آس پاس کے کافی لوگ آگئے۔ دانش نے انھیں ساری بات بتا دی۔ ایک آدمی نے فون کر کے ڈاکٹر اور پولیس کو بلا لیا۔ ڈاکٹرنے آکر لٹیرے کو انجکشن لگا یا تو وہ ہوش میں آگیا۔
پولیس کی پوچھ تاچھ کرنے پر اس شخص نے شہر میں پچھلے دنوں ہوئی کئی چوریوں میں اپنے گروہ کا ہاتھ ہونے کی بات قبول کر لی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جب دو پہر کے وقت گھروں میں عورتیں اکیلی ہوتی ہیں تو اُس کے گروہ کے لوگ کسی کمپنی کا سامان بیچنے یا مفت دینے کے بہانے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور لوٹ لیا کرتے ہیں۔ اس لٹیرے کی نشان دہی پر پولیس نے اس کے گروہ کے لوگوں کو چوری کے بہت سارے سامان کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ اگلے دن اخباروں میں دانش کی تصویر کے ساتھ اس کی سمجھ داری کی خبریں بھی چھپیں ۔ پولیس افسران کی طرف سے دانش کو انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ دانش کے ابو امی اپنے بیٹے پر فخر محسوس کر رہےتھے۔