یہ کوئی بیس بائیس سال پرانی بات تو ہوگی۔ ماہ رمضان کا کوئی دن تھا، میں یونیورسٹی میں کلاس لینے کے لئے پہنچا…. آج مجھے اشتہاریات کے حوالے سے ”تجارتی پروپیگنڈہ“ پہ بات کرنی تھی۔ مجھے پڑھانے کے غیر روایتی طریقے پسند ہیں سو کلاس میں آتے ہی میں نے طالب علموں سے کہا کہ وہ مجھے کاغذ پر لکھ کر دیں کہ آج وہ افطار میں کون سا ٹھنڈا مشروب پینا پسند کریں گے؟ اپنی اپنی پسند کے مطابق سب نے کوئی نہ کوئی نام لکھ کر مجھے دے دیا۔یہ تمام پرچیاں جمع کرچکا تو پھر میں نے بلیک بورڈ پہ ایک لائن کھینچ کر دو کالم بنائے۔ ایک کالم پہ Aاوردوسرے پہ Bلکھ دیا۔ اب طالب علموں سے میرااگلا سوال تھا کہ”ہم افطار میں روزہ کھولنے یا پیاس بجھانے کے لئے بازار سے لائے ہوئے جو مشروبات استعمال کرتے ہیں، ان کے نام بتائیں“۔ پوری کلاس نے یکے بعد دیگرے نام گنوانا شروع کیے اور میں یہ نام کالم Aمیں لکھتا چلا گیا۔ روح افزا، نورس، جام شیریں، پیپسی کولا، کوکا کولا، ٹینگ…. وغیرہ وغیرہ۔ کوئی پچیس نام تولکھوائے ہوں گے۔
ایک طویل فہرست مرتب ہوچکی تو… مرا دوسرا سوال تھا کہ وہ روایتی مشروبات کون سے ہیں جو گھر ہی پہ آسانی سے تیار ہوسکتے ہیں اور جو افطار کے وقت شوق سے پیئے جاتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں کوئی بیس بائیس نام کالم Bمیں لکھے جاچکے تھے… دودھ کی لسی، دہی کی لسی، تخم بالنگا،اسپغول، ستو، لیموں کا شربت، پھلوں کے جوس…وغیرہ وغیرہ۔
دونوں فہرستیں تیارتھیں A اور B, اورساتھ ہی میرا اگلا سوال بھی۔ ”کس گروپ کو آپ اپنی صحت کے لئے بہتر خیال کرتے ہیں؟“ پوری کلاس نے بہ یک زبان کہا’B‘کو۔ ”اچھا اب یہ بتائیں کہ کون سا گروپ نسبتاً سستا ہے جسے عام آدمی بھی افورڈ کرسکتا ہے؟“اس بار بھی سب کا جواب ’B‘تھا۔ یعنی وہ گروپ جو گھریلو ٹوٹکوں اور روایتی طریقوں پر مشتمل ہے اور نسبتاً سستا ہے۔ جب پوری کلاس یکسو ہوگئی کہ ’B‘ہی بہتر ہے تب میں نے اُن پرچیوں کو ایک ایک کرکے کھولنا شروع کیا جس پر اس سوال کا جواب میں پہلے ہی لکھوا چکا تھاکہ آپ افطار کے وقت کون سا شربت پینا پسند کریں گے؟ مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی جب یہ پتا چلا کہ واضح اکثریت افطار کے وقت گروپ A کے مشروبات استعمال کرتی ہے۔
میرے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا کہ،”آپ کی شخصیت میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ اچھا اور بہتر گروپ Bکو کہتے ہیں اور پورے اہتمام سے گروپ Aکی چیزیں استعمال کرتے ہیں“… یہاں بات ختم نہیں ہوئی، یہاں سے توبات شروع ہوتی ہے۔ گھنٹے بھر کے لیکچر کو یہاں دہرایا نہیں جاسکتا مگر مختصراً بتایا جاسکتا ہے کہ اشتہاری یلغار کس طرح ہمارے ذہن کو تبدیل کرتی ہے یا کرسکتی ہے۔
یہ جو بہ ظاہر چند سیکنڈ کا اشتہار ہے اس کے پیچھے پوری تشہیری صنعت سینکڑوں پیشہ ورانہ ماہرین کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے، انسانی نفسیات کے ماہرین اور ان کے تجربات و مشاہدات بھی اس میں شامل ہیں۔ انسانی پسند اور نا پسند، اس کی کمزوریاں، اس کے شوق، خوب صورت نظر آنے کاجنون اور سماجی مراتب کے حصول کا احساس پوری طرح سے اس گیم پلان کا حصہ ہیں۔ اشتہاریات کی تکرار اسے اشیا یا مصنوعات صرف دکھاتی نہیں،بلکہ ذہن نشین کرواتی ہے۔ مصنوعات کے فولڈرز، شعور سے لاشعور تک اورلاشعور سے تحت الشعور تک اتار دیتی ہے۔
ذہن کے مختلف حصوں میں اتنی فائلیں اور فولڈرز بنا کر رکھ دیتی ہے کہ اگر پیاس کا احساس ہو تو دھیان پانی کی طرف نہیں جاتا، بلکہ دھڑ دھڑ کرکے پیپسی کے فولڈرز کھلنے لگتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کہ اشتہارات یا اشتہاری مہم اشیاء کو سماجی مرتبے کی علامت اور ہمیں سماجی مرتبے (Status)کے حصول کا عادی بنا دیتی ہے اور یوں یہ نفسیاتی عارضہ ہمیں ایک ایسی ان دیکھی سمت لے جاتا ہے جو ہرگز ہرگز ہمارامقصود نہیں۔
اشتہاری مہمات یا Media Hammeringنئے عہد کا جادو ہیں، جادو بھی ایسا جو سر چڑھ کر بولتا ہے،یہ جادو ہماری عقل کی آنکھیں بند کرکے، ہماری ان گنت خواہشوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ ہماری خوابیدہ خواہشوں کو جگا دیتا ہے ، اشتہاری مہمات ہماری اشتہا بڑھاتی ہیں اور واضح رہے کہ یہاں اشتہا سے مراد صرف بھوک نہیں ہے ۔ گذشتہ چند دہائیوں میں زرائع ابلاغ نے نہایت کامیابی سے کچھ ایسے تجربات کیے ہیں جو خود ان کی توقعات سے بہت زیادہ کامیاب رہے۔ کھوکھلے اور کمزور لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ۔ کبھی اداکار کی صورت، کبھی گلوکار کی شکل میں، کبھی کھلاڑی کی صورت اور کبھی شعبدہ بازوں کی صورت میں ۔ ڈیڑھ یا دو صدی قبل یہ سب لوگ میلوں ٹھیلوں اور کھیل تماشوں میں کرتب دکھایا کرتے تھے اور تماشائی ان کی جانب نوٹ اچھالتے، نوٹ بھی کہاں، سکے ۔ یوں ان کی دیہاڑی بن جایا کرتی مگر اب ہمارے دور میں یہ سب رول ماڈل کہلاتے ہیں۔ عظیم رول ماڈل جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ زندگی کا قرینہ ، جینے کا سلیقہ یہ سب انہی کے دم قدم سے ہے ۔ان کی اداکاری کے انداز بدل چکے ہیں،اب یہ میلوں اور کھیل تماشوں کے بجائے براہ راست میدان سیاست میں اترتے ہیں اور اس شان سے اترتے ہیں کہ صاحبانِ فکر و نظر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں اور انہیں بے وقعت کرکے دم لیتے ہیں۔ یہ سب میڈیا ہی کا تو جادو ہے۔ میڈیا نے گذشتہ چند دہائیوں میں بہت سے لوگوں کوسوئمنگ پول… کیٹ واک اور کھیل تماشوں سے اٹھایا اور انہیں جاذب نظر بنا کر اس طرح پیش کیا کہ یہ فکر اور مطالعے سے محروم لوگوں کی پسند یدگی کا معیار بن گئے۔ ”اب دل کش و دل ربا بھی یہی ہیں اور پیکر حسن و وفا بھی یہی“۔اب حکیم و دانا بھی یہی ہیں اور راہبر و رہ نما بھی یہی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں قابل احترام لوگ پائے جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کی زندگی کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے یہ بڑے لوگ اپنے ساتھ علم ، کردار یا کارنامے کا کوئی غیر معمولی حوالہ ضرور رکھتے ہوں گے ۔
تیس سالہ تدریس ابلاغ عامہ نے یہی سکھایا کہ میڈیا سراسر فریب نظر ہے ، جسے چاہے اور جب چاہے زمین سے اٹھائے اور آسمان کی رفعتوں پہ پہنچا دے اور جسے چاہے ۔