خالد عرفان زندہ دل شاعر ہیں‘ فراست رضوی

367

خالد عرفان طنز و مزاح کے معتبر شاعر ہیں‘ ان کی شاعری ذہن کو سکون اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہیں‘ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار فراست رضوی نے پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ کی جانب سے گلشن اقبال میں خالد عرفان کے اعزاز میں منعقدہ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاعری اور مشاعرے لازم و ملزوم ہیں۔ مشاعرے ہماری روایات کے علم بردار ہیں‘ ہر زمانے میں یہ ادارہ فعال رہتا ہے جو تنظیمیں مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ وی ٹرسٹ کے روح رواں پروفیسر شفیع ملک نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہمارا ٹرسٹ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیا گیا ہے لیکن ہم اردو ادب کے فروغ میں بھی اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں۔ ہم نے آج کی تقریب سے پہلے ’’یومِ خندق مشاعرہ‘‘ ترتیب دیا تھا جو کہ بہت کامیاب رہا۔ آج ہمارا دوسرا پروگرام ہے ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ آج کے مہمان خصوصی خالد عرفان ہیں جو کہ ایک کامیاب شاعر ہیں اور بے حد مقبول شخصیت ہیں۔ ہم ان کے نعتیہ مجموعے کی تعارفی تقریب کراچی آرٹس کونسل منعقد کریں گے۔ ظہیر خان نے کہا کہ خالد عرفان اردو ادب کے اہم شاعر ہیں لوگوں کے دلوں میں ان کا بہت احترام ہے‘ وہ معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ وہ خوب صورت شاعری کر رہے ہیں ان کے اشعار میں مقصدیت نمایاں ہے ان کے کلام میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے‘ وہ زندگی کے تمام عنوانات پر بات کر رہے ہیں‘ وہ طنز و مزاح میں نئے نئے مضامین رقم کر رہے ہیں۔ خالد معین نے کہا کہ خالد عرفان ایک باصلاحیت شاعر ہیں‘ وہ ہر بات کھل کر لکھ رہے ہیں۔ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے‘ ان کے بیشتر اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ ان کے کلام میں ندرت ہے‘ وہ اپنا کلام نہایت دل کش انداز میں پڑھتے ہیں اور سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ انہوں نے دبستانِ دلاور فگار سے بھی بہت کچھ حاصل کیا۔ انہوں نے اپنا لب و لہجہ خود تراشا ہے وہ کسی کی نقل نہیں کرتے‘ ان کا لہجہ‘ احتجاجی ہے‘ وہ مزاحمتی شاعری کے سرخیل ہیں انہوں نے دلاور فگار کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامیابی حاصل کی‘ ان کی مزاحیہ غزلوں میں ظریفانہ شگفتگی اور اصلاحی طنز موجود ہے‘ ان کی شاعری ہماری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ پروگرام کی نظامت آرٹس کونسل کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیت شکیل خان نے کی انہوں نے کسی بھی مقام پر تقریب کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے خالد عرفان کے بارے میں کہا کہ ان کی شاعری ہمارے دل و دماغ میں جگہ بناتی ہے‘ ان کا کلام نہایت سریع الاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرتی مسائل اجاگر کیے ہیں تاہم غمِ جاناں بھی ان کے یہاں نظر آتا ہے اس کے علاوہ غزل کے روایتی مضامین بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں ان کا ایک نعتیہ مجموعہ کلام بھی ہے جس میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خالد عرفان نے کہا کہ وہ آج کے پروگرام کے منتظمین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے ایک قابل ستائش پروگرام مرتب کیا۔ انہوں نے کہا کہ طنز و مزاح کی شاعری مشکل کام ہے اس میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ہمیں طنز و مزاح کی شاعری میں شائشتگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور بے ہودہ مضامین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس موقع پر خالد عرفان نے اپنا کلام پیش کیا۔ تمام سامعین نے انہیں خوب داد و تحسین سے نوازا۔

انجمن تسکین ذوق پاکستان کا جشن ِ آزادی مشاعرہ

گزشتہ دنوں انجمن تسکین ذوق پاکستان کے زیر اہتمام جشن آزادی مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی مجلس صدارت میں گلنار آفرین اور توقیر اے خان ایڈووکیٹ شامل تھے۔ محسن اسرار‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ سلطان مسعود شیخ اور آفتاب فاروقی مہمانانِ اعزازی تھے۔ شاہد اقبال شاہد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انجمن کی روحِ رواں عرفانہ پیرزادہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا جشن آزادی منانا ہماری روایت کا حصہ ہے اسی تناظر میں ہم نے آج جشن آزادی مشاعرہ رکھا ہے کیوں کہ ادبی پروگرام منعقد کرنا ہماری انجمن کا منشور ہے۔ انگریزوں سے آزادی کا دن ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم متحد رہیں تاکہ ہماری آزادی برقرار رہے اور ہمارے مسائل کا حل بھی نکل آئے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری سے قوموں میں انقلاب برپا ہوتا ہے‘ پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز و محور ہے‘ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ ہم نے بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان بنایا ہے‘ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق تمام افراد نے پاکستان کے لیے کام کیا۔ ادیبوں اور شاعروں نے اپنے قلم کے ذریعے آزادی کا مفہوم بیان کیا اور مسلمانانِ ہند میں آزادی کی لہر پیدا کی۔ شعرائے کرام نے آزادی کے حوالے سے مزاحمتی شاعری لکھی اور لوگوں کے جذبات بیدار کیے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا اب ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی حفاظت کریں‘ پاکستان کی آزادی برقرار رکھیں یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان آزاد ملک ہے‘ ہم نے اس آزادی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان نے ہم سے جنگیں لڑیں اور ہمارا آدھا ملک بنگلہ دیش بن گیا‘ ہم مشرقی پاکستان سے محروم ہو گئے۔ اس وقت بھی ہمارے دشمن ہمیں نیست و نابود کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم مختلف گروہوں اور طبقات میں بٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آزادی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں‘ اپنے ملک کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں تاکہ ہماری نسلیں آباد رہیں۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ عرفانہ پیرزادہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مجھے ایک ایسی محفل میں مدعو کیا جس میں شعر و سخن سے محبت کرنے والے افراد موجود ہیں۔ نئی نسل کو ادب سے جوڑنے کی ضرورت ہے‘ نئی نسل ہمارا سرمایہ ہے جن سے بے شمار امیدیں وابستہ ہیں۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ پاکستان سے محبت کرنا ہمارا فرض ہے یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ ہم نے اپنے لہو سے اس ملک کو سیراب کیا ہے۔ اس وقت ہم ایک ایٹمی قوت بن چکے ہیں لیکن ہم بے شمار مسائل کے اسیر ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کریں۔ مشاعرے میں صاحبانِ صدر‘ مہمانانِ خصوصی‘ مہمانانِ اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام نذر سامعین کیا ان میں حجاب عباسی‘ اختر سروس محمد علی گوہر‘ دل شاد اقبال‘ رفیق مغل‘ شاہدہ عروج‘ امت الحیٔ وفا‘ عارف شیخ‘ یاسر سعید صدیقی‘ عرفانہ پیرزادہ‘ صدیق راز‘ آفتاب عالمی قریشی‘ حمیدہ کشش‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ کشور عروج‘ فرح دیبا‘ جاوید اقبال‘ قمر جہاں قمر‘ فرح کلثوم‘ راحت رخسانہ‘ وفا مدارامی اور مرزا محمد شامل تھے۔

حصہ