(دوسرا اور آخری حصہ)
طاہر مسعود: ہمارے اخبارات یہ بھی کرتے ہیں کہ پہلے کسی معالے کو اچھی طرح اچھالتے ہیں پھر اس معاملے کو فراموش کر دیتے ہیں مثلاً سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کا کیس پہلے خوب اچھالا پھر اسے فراموش کر دیا گیا۔
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: جی ہاں کوئی اخبار یہ نہیں پوچھ رہا کہ آخر اس قاتل کو سزا کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ اس کیس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔
طاہر مسعود: اسی طرح مہران بینک اسکینڈل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا؟ اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں۔
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: جی ہاں ایسے بے شمار معاملات ہیں جن کی پہلے نشان دہی کی گئی پھر ان کو ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ بہت سارے معاملات میں اخبارات نشان دہی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا جو کردار ہے اس میں بہت زیادہ وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
طاہر مسعود: شعبہ ابلاغ عامہ کے حوالے سے کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس شعبے سے جو طالب علم نکلتے ہیں‘ عملاً پیشے میں جا کر بہتر طریقے سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ شعبے میں طالبات کی اکثریت ہے اور یہ طالبات پروفیشن جوائن نہیں کرتیں کیوں کہ یہ شادی کے بعد اپنے گھروں کی ہو جاتی ہیں اور اس طرح سے ان کو جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو اخراجات صرف ہوتے ہیں‘ وہ سب ضائع جاتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: جس وقت ہم سب یہ باتیں کر رہے ہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ساری دنیا میں اور دنیا کے جس حصے میں ہمارا ملک واقع ہے‘ یہاں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ایک معاشرتی تبدیلی اور معاشرے کے ہر گوشے میں اس کا اثر ہے۔ اس میں یہ ہے کہ لوگوں کے پیشے کیسے ہونے چاہئیں‘ ان کی تعلیم کیسی ہونی چاہیے۔ اس میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ایک تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ تعلیم برائے ملازمت‘ تعلیم برائے تجارت‘ لوگوں کی توجہ اس طرف زیادہ ہو رہی ہے۔ ایسا ہے کہ جو نوجوان تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ان کا تعلق بالعموم متوسط طبقے سے ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جلدازجلد تعلیم مکمل کرنے کے بعد آمدنی کا ذریعہ تلاش کریں۔ ان کو چونکہ یونیورسٹی کے شعبوں میں آنریری کام کرنے کے بعد فوری طور پر ملازمت حاصل کرنے میں دشواریاں ہوتی ہیں جو اس کے برعکس ایسی تعلیم جو کمپیوٹر سے متعلق ہے یا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ہے وہاں فوری طور پر ملازمت کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں لوگوں پر جلدازجلد آمدنی ڈھونڈنے کا بوجھ ذرا زیادہ ہوتا ہے تو صحافت کی تعلیم کی طرف لڑکے بہت کم سنجیدہ ہو رہے ہیںالبتہ لڑکیاں جن کی شادیاں نہیں ہوتی ہیں‘ وہ یونیورسٹی کی تعلیم کی طرف راغب ہوجاتی ہیں اور جب لڑکی کی منگنی ہوتی ہے تو وہ یونیورسٹی آنا بند کر دیتی ہے۔ سمجھتی ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ اسی طرح ایم بی بی ایس کرنے والی بیشتر لڑکیاں بھی پریکٹس نہیں کرتیں‘ شادی کرکے بیٹھ جاتی ہیں۔ ان پر تو حکومت اور والدین کا بہت زیادہ پیسہ ضائع ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک عبوری دور ہے جس میں لڑکیاں اخباروں میں جا کر کام نہیں کرسکتیں‘ رات کو دیر تک ڈیوٹی انجام نہیںدے سکتیں۔ تو کچھ عرصے تک ایسا ہوگا لیکن جیسے جیسے معاشرے میں تبدیلی رونما ہوگی اور لڑکیوں کا اعتماد بہتر ہوگا اور وہ اس قابل ہو جائیں گی کہ اعتماد کے ساتھ میڈیا کے شعبے میں جاسکیں اور پھر معاشرے میں جرائم کی یہ حالت نہیں رہے گی اور عدم تحفظ کی بھی جو صورت حال ہے‘ آگے نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ ان میں بہتری ہوگی۔ جیسے تمام دنیا میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرکے اخباروں میں کام کرتی ہیں بلکہ اب تو باہر بھی میں دیکھ رہا ہوں کہ خاتون رپورٹروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ تو یہ ہمارے ہاں بھی ہو سکتا ہے۔ جب تک عبوری دور ہے یہ صورت حال رہے گی۔ جو لڑکے ہمارے شعبے سے نکل کر اخباروں میں جا کر کام کر رہے ہیں‘ ان میں جو اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں‘ وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہر ایک شعبے کی طرح یہاں بھی وہی حال ہے جو لوگ ذرا سنجیدہ ہوتے ہیں وہ بہت عمدہ کام کرتے ہیں اور ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیںکہ شعبے سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور اخبار میں جا کر کام شروع کیا ہے اور بہت جلد کلیدی حیثیت حاصل کرلی ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں چاہے ابلاغ عامہ کی سند لیں یا کسی بھی شعبے کی سند لیں وہ کچھ کرکے نہیں دکھا سکتے تو ایسے لوگ ابلاغ عامہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں‘ یہ بالکل قدرتی امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی شعبے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے تمام کارکنان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ لڑکیوں کی تعداد بڑھنے سے جو مسائل درپیش ہیں‘ وہ اپنی جگہ سنگین ہیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد ابلاغ کی تعلیم کا بے کار چلا جانا اس میں تبدیلی ہوگی اور یہ چیز اس طرح نہیں رہے گی اور ان کی تعلیم بھی مفید ثابت ہوگی۔
طاہر مسعود: شعبہ ابلاغ عامہ اب انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن میں تبدیل ہونے والا ہے‘ چونکہ آپ ابھی تک اس شعبے سے وابستہ ہیں تو آپ کے خیال میں انسٹی ٹیوٹ بننے کے بعد اس کی تعلیم اور عملی تربیت اور نصاب وغیرہ میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟ میرا مطلب ہے شعبہ ابلا عامہ اور انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن میں بنیادی فرق کیا ہوگا؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: میں جس طرح سوچ سکتا ہوں اس کا بڑا تعلق یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے ہے۔ (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے لے لی ہے۔ انٹرویو کے وقت یونیورسٹی گرانٹس کیمشن ہی اسلام آباد میں کام کر رہا تھا۔) عرصہ دراز سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جس انداز سے ابلاغ عامہ کی تعلیم ملک بھر میں دی جارہی ہے‘ نہایت نامناسب ہے اور اس میں ہمارے وسائل کافی حد تک ضائع چلے جاتے ہیں۔ میں ابتدا ہی سے یہ سمجھتا ہوں کہ ابلاغ عامہ کا آرٹس فیکلٹی سے الگ اس کا وجود ہونا چاہیے۔ جہاں پر ایک چار سال کے کورس میں انٹر کے بعد داخلہ دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو فوری طور پر متوجہ ہونا چاہیے کہ جس طرح سے ڈپلوما کے بعد تعلیم دی جاتی ہے اور ان کو دو سال میں ایسے کورسز پڑھائے جاتے ہیں جو نظری ہین‘ کچھ کورسز ایسے پڑھائے جاتے ہیں جو عملی ہیں۔ اس میں یہ پریشانی اور دشواری ہے کہ یہ دو سال کے کورسز ہیں اور ان دو سال میں آرٹس فیکلٹی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے نہ کورسز اس طرح بنائے جاتے ہیں نہ ان کی تکمیل اس طرح ہوتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوںکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ابلاغ عامہ کی تعلیم کا قالب بدلنے کے لیے فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ کم از کم ملک کی دو بڑی جامعہ پنجاب اور جامعہ کراچی میں کلیہ فنون سے ان شعبوں کو نکالنا چاہیے اور ان کو انسٹی ٹیوٹ بنانا چاہیے جہاں پر انٹر کے بعد چار سال کے کورس میں داخلہ دیا جائے اور میں اپنے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس چار سال کے کورس میں ابتدائی دو سال کے کورس کے تحت طالب علموں کو اخبار پڑھانے کی طرف توجہ دی جائے۔ جب اخبار پڑھنا‘ ٹیلی ویژن دیکھنا ان کے معمولات میں شامل ہو جائیں‘ اردو اور انگریزی لکھنا آجائے تب انہیں تیکنک سکھائی جائے۔ میرے ذہن میں یہ راستہ ہے کہ انسٹی ٹیوٹ بننے کے بعد پہلے تو ان کا یہ طریقہ تبدیل کیا جائے کہ چار سال کے کورس میں داخلہ دیا جائے۔ یہ تو تعلیم کا حصہ ہوا اور دوسرا ایک شعبہ ضروری ہے اور یہ ہے ابلاغی تحقیقی سے متعلق۔ ہر انسٹی ٹیوٹ کو ابلاغی تحقیق کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں ابلاغی تحقیق کی صورت حال انتہائی پس ماندہ ہے۔ بنیادی معلومات تک مہیا نہیں ہیں۔ ہم صرف اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ اخبارات کی سرکولیشن اس وجہ سے نہیں بڑھتی اور ہمارا ٹیلی ویژن سیٹلائٹ چینل سے فلاں وجہ سے مقابلہ نہیں کر پاتا۔ یہ سب ہمارے صرف اندازے ہیں‘ ہمارے پاس ابلاغی تحقیق کی شہادت کسی معاملے میں موجود نہیں ہے۔ انسٹی ٹیوٹ سے پاکستانی میڈیا ریسرچ کے بارے میں ایک جرنل نکالا جانا چاہیے جس میں پاکستانی جامعات میں جو تحقیقی کام ہوتے ہیں ان کے بارے میں مضامین شائع کیے جائیں لیکن اس سے بڑھ کر ضروری ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کے اس حصے کے لیے کچھ ایسے فنڈ فراہم کیے جائیں جس سے وہ کام ایسا کام کرسکے جس سے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی ترقی جو بہت سست رفتار ہے‘ اس میں تبدیلی واقع ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا بنیادی فریضہ ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کراچی اور لاہور میں بنائے جائیں اور ان دونوں انسٹی ٹیوٹ کے دو‘ دو حصے ہونے چاہئیں ایک ابلاغ تعلیم کا اور دوسرے میڈیا ریسرچ سے متعلق کاموں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس کا اہتمام بھی ا چھے بڑے اور مؤثر پیمانے پر کیا جائے۔
طاہر مسعود: آپ نے میڈیا ریسرچ کی بات کی جس ملک میں اخبارات کی صحیح سرکولیشن کو ایک راز کی طرح چھپایا جاتا ہو اور جس ملک میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بنیادی اعداد و شمار فراہم نہ کیے جاتے ہوں تو جن ملکوں میں حقائق ہی دستیاب نہ ہوں‘ اس ملک میں میڈیا ریسرچ کیسے ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: مشکلات کی وجہ سے کسی کام کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ مشکلات یقینا ہوں گی لیکن کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جاسکتا ہے جس کی مدد سے اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اخبار اپنی سرکولیشن نہ بتائیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں سروے کیا جائے کہ کون سا اخبار کتنی تعداد میں آرہا ہے۔ اگر مختلف اعتبار سے آبادی کے مختلف حلقے وجود رکھتے ہیں‘ اس کے اندر یہ ممکن ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون سا اخبار کتنی تعداد میں آتا ہے تو اس سے اخبار کی مجموعی سرکولیشن کے بارے میں معلومات جمع کی جاسکتی ہے۔
طاہر مسعود: یہ اندازہ ہی ہوگا‘ بالکل صحیح معلومات پھر بھی نہیں ملیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اخبار کی سرکولیشن چھپانے کی ضرورت کیا ہے؟ اسے عام کیوں نہیں کیا جاتا؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: اگر اخبار اپنی سرکولیشن بتائے تو یہ کیسے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اخبار جو سرکولیشن بتا رہا ہے اس کی سرکولیشن اتنی ہی ہے اس کے مقابلے میں یہ بات کہ سروے کے ذریعے مختلف علاقوںمیں جا کر اخبار کے بارے میں معلومات کی جائیں‘ یہ طریقہ زیادہ مستند ہے۔ ایک چھوٹا اخبار اگر دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کی سرکولیشن پچاس ہزار ہے تو کیا آپ مان لیں گے؟
طاہر مسعود: یہ تو اے بی سی (آڈٹ بیورو آف سرکولیشن) کی ذمہ داری ہے کہ اخبار کے دعوے کو جانچ کر صحیح اعداد و شمار کا ریکارڈ اپنے پاس رکھے۔
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: اے بی سی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ یہ بھی یہی کرے گا کہ مختلف علاقوں میں جا کر سروے کرکے اخبار کے دعویٰ کو جانچے گا۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ ہر معاملے میں بدعنوانی کا عنصر بہت زیادہ ہے اور اشتہارات کی بنیاد سرکولیشن پر ہوتی ہے‘ چنانچہ رشوت دے کر ایک چھوٹا اخبار اے بی سی سے زیادہ سرکولیشن کا سرٹیفکیٹ لے لیتا ہے۔ چنانچہ اے بی سی کے فراہم کردہ اعداد و شمار سو فیصد قابل اعتماد نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں ایک ریسرچ کرنے والا غیر جانب داری سے پیسے لے کر اعداد و شمار کو اِدھر اُدھر نہیں کرے گا۔ اس کی بات زیادہ قابل اعتماد ہوگی۔
طاہر مسعود: اطلاعات تک رسائی کا ایک آرڈیننس پہلے فخرالدین جی ابراہیم نے پیش کیا تھا پھر جاوید جبار صاحب نے اس وقت پیش کیا جب وہ موجودہ حکومت سے وابستہ تھے اس پر خاصا بحث و مباحثہ بھی ہوا لیکن پھر سارا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا جیسے ایسا کوئی مسئلہ کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا تھا تو آپ اس معاملے کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ یہ آرڈیننس کیوں پیش کیا گیا تھا اور اسے منظر سے کیوں ہٹا دیا گیا؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: ایسے قانون کی ضرورت تو بالکل واضح ہے۔ میرا جو بھی صحافتی تجربہ رہا ہے اس میں‘ میں نے خود اس مشکل کا سامنا کیا کہ بالکل ایسی معلومات جو سیدھی سادی تھیں اور جس سے کسی پر زد نہیں پڑتی تھی‘ وہ سرکاری ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی اور وہ نہیں بتائی گئی۔ جہاں تک ایسے قانون کی ضرورت ہے وہ سو فیصد ضروری ہے لیکن ایسے کسی قانون کا مسودہ پیش ہونا اور پھر اس کا آگے نہ بڑھنا اس کی صرف ایک مثال نہیں ملتی۔ بلکہ کئی اور دوسرے معاملے ہیں جس میں قانون کا مسودہ پیش کیا گیا اور پھر وہ آگے نہیں چل سکا۔ مثلاً کاروکاری کا قانون بنانے کی کوشش کی گئی لیکن بیرونی مفادات کی وجہ سے اس قانون کو چلنے نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں کیوں کہ حکومتیں اپنے اندر سے اتنی کم زور ہوتی ہیں کہ ان کو حکومت چلانے کے لیے بیورو کریسی کی مدد درکار ہوتی ہے۔ بیورو کریسی پر انحصار کی وجہ سے انہیں ہر وہ بات ماننی پڑتی ہے جو بیورو کریسی چاہتی ہے کیوں کہ بیورو کریسی کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ ایسا کوئی قانون بنایا جائے۔ اس طرح یہ معاملہ ہر دفعہ شروع کیا جاتا ہے اور وہ پھر غائب ہو جاتا ہے۔ جب تک حکومت کمزور رہے گی‘ اس پر بیورو کریسی حاوی رہے گی اور ایسے معاملات اپنے انجام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
طاہر مسعود: آپ ملک میں صحافت کے لیے کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت محسوس کرے ہیں؟ ضابطۂ اخلاق کے لیے کافی عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن نہ کوئی ضابطہ اخلاق بن سکا ہے نہ پریس کونسل کی تشکیل ہو سکی ہے‘ ایسا کیوں ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: ضابطہ اخلاق نہ بن پانا ایک بہت افسوس ناک بات ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جو عامل صحافی ہیں‘ ان کو اس پروسس میں شامل نہیں کیا گیا۔ مثلاً اے پی این ایس نے ایک ایسا مسودہ بنایا اور حکومت کو پیش کیا اور حکومت نے اس کو منظور بھی کر لیا لیکن عامل صحافیوں نے کہا کہ ہمیں اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جب کوئی مسودہ قانون بناتے ہیں تو اس سے متعلق تمام شعبوں کے افراد کو اس میں شامل کیوں نہیں کرتے۔ ضابطہ اخلاق میں حکومت‘ مالکان اخبار کے ساتھ قارئین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اور اس میں عامل صحافیوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔ یہی صورت حال پریس کونسل کی ہے۔ خدا خدا کرکے پریس کونسل بھی وجود میں آگیا لیکن فعالیت اور کارکردگی تو دور خود اس کا وجود ’’ہر چند کہیں ہے نہیں ہے‘‘ کے مصداق ہے۔ اس میں بھی ورکنگ جرنلسٹس کو شامل نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح رویہ نہیں ہے ورکنگ جرنلسٹس کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔
طاہر مسعود: یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اخبارات فنی اعتبار سے تو ترقی یافتہ ہو گئے ہیںکہ ان کے پاس ٹیکنالوجی آگئی ہے لیکن مشتملات کے اعتبار سے ان کے معیار میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برعکس اس میں تنزل کی صورت نظر آتی ہے کہ زبان کی غلطیاں زیادہ ہونے لگی ہیں‘ کاپی رائٹنگ میں ترقی کی صورت نظر نہیں آتی‘ اس بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی تو واضح ہے لیکن مشتملات میں بھی کئی طرح کی ترقی ہوئی ہے۔ کھیل‘ شوبز اور تجارت کے بارے میں اتنی خبریں نہیںچھتی تھیں لیکن آج ان کے علیحدہ صحافت شائع ہوتے ہیں‘ لیکن یہ کہنا درست ہوگا کہ خبروں کی تحریر کی معروضیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ا سکا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ دیکھا جانا چاہیے کہ اخبار کی آمدنی کتنی ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے‘ معقول صحافی کو ٹھیک ٹھاک تنخواہ دے سکے۔ اخبارات اسی بات پر مجبور ہیں کہ کوئی بھی کام کرنے والا مل جائے وہ اس کی مدد سے اخبار نکال لیتے ہیں۔ ہمارے ہاںبعض بڑے اخبارات میں بھی یہ رجحان ہے کہ اچھے کام کرنے والوں کی تلاش نہ کی جائے اور جو بھی کام کرنے والا مل جائے اس سے کام چلا لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس سے خبر نویسی کیسے ترقی کر سکتی ہے۔ کام کرنے والے کا معیار مقرر نہیں ہے اور معیار مقرر ہے تو اس کی سختی سے پابندی نہیں کی جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ گزشتہ تیس سال کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ان میں زبان کے اعتبار سے کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن ان کے اندر دوسری تبدیلیاں ایسی واقع ہوئی ہیں جو تمام کی تمام منفی نہیں ہیں۔ پہلے میں سب ہی اخبار پڑھنے والے ایک ہی طرح ہوتے تھے لیکن اب مختلف طبقوں کے لوگ اخبار پڑھتے ہیں۔ مختلف قیمتوں کے اخبار اور جیسا قاری جیسی قیمت ادا کرسکتا ہے‘ وہ ویسا ہی اخبار پڑھتا ہے۔ یہ چند تبدیلیاں منفی ہوسکتی ہیں لیکن میرے نزدیک یہ سب منفی نہیں ہیں۔ اخبارات نے نئے قاری پیدا کیے ہیں‘ نئے نئے اخبارات نے مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کچھ ابتدا کی ہے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ تفتیشی رپورٹنگ جو یورپ اور بھارت تک میں بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: اس معاملے میں اردو اور انگریزی اخبارات میں واضح فرق ہے۔ انگریزی اخبارات میں تفتیشی رپورٹنگ خاصی نظر آتی ہے۔ اردو اخباروں میں البتہ اس کا رجحان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ خبروں کے ذرائع تک رسائی میں ہزاروں مشکلات درپیش ہیں۔ ایک سیدھا سادا سوال ایک رپورٹ تجارتی ادارے میں جا کر کرتا ہے تو اس پر پہلی نظر شبۂے کی پڑتی ہے کہ یہ آدمی پتا نہیں سراغ رسانی کے لیے آیا ہے یا کسی حریف نے بھیجا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اگر میں نے یہ بات بتا دی تو میں کسی مشکل میں نہ پڑ جائوں۔ اس معاملے میں ایک احساس کم تری بھی پائی جاتی ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر کو معلومات فراہم کر دی جاتی ہیں لیکن ایک اردو اخبار کے رپورٹر کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاتا۔ اس طرح امریکن اداروں کے رپورٹر جو پاکستان میں کام کرتے ہیں‘ ان کے آگے ہمارے سرکاری افسران بچھے جاتے ہیں۔ مثلاً مارک ٹیلی کو غیر معمولی معلومات فراہم کی جاتی رہی ہیں لیکن وہی معلومات ہمارے رپورٹر کو فراہم نہیںکی جاتیں۔گویا پوچھنے والے کی معاشرتی حیثیت معلومات کے حصول میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ تفتیشی رپورٹنگ پروان نہیں چڑھ پا رہی ہے۔
طاہر مسعود: ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا‘ یورپ اور بھارت وغیرہ میں سینئر صحافی حضرات اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں‘ صحافت پر کتابیں قلم بند کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کے سینئر صحافیوں میں یہ رجحان نہیں پایا جاتا۔چنانچہ ہمارے صحافی حضرات اپنے سینے میں اہم راز لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور بہت اہم باتیں ریکارڈ پر نہیں آپاتیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: اس معاملے میں مجھے آپ سے بالکل اتفاق ہے۔ یہ رجحان ہمارے ہاں نہیں ہے کہ سینئر صحافی اپنے تاثرات کو قلم بند کریں‘ ایسا صرف صحافت ہی کے شعبے میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ تمام شعبوں میں یہی صورت حال ہے۔ امریکا وغیرہ میں حکومت‘ وزارتِ خارجہ‘ سی آئی اے سے تعلق رکھنے والے لوگ کتابیں لکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بڑے وکیل‘ بڑے جج‘ بڑے آرمی آفیسر نے بہت کم کتابیںلکھی ہیں اسی طرح بہت کم صحافیوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ میرا خیال ہے اس طرف توجہ دلائی جانی چاہیے اور یہ کام پبلشنگ کے ادارے کر سکتے ہیں۔ پبلشر اگر صحافیوں سے رابطہ کرکے انہیں لکھنے کے لیے مدعو کریں تو کتابوں کی تصنیف کا کام شروع ہو سکتا ہے۔
طاہر مسعود: یہ فرمایئے کہ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں کو بیرونی چینلوں سے جو چیلنج درپیش ہے اس کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر نثار احمد زبیری: پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ایک انتہائی مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ غیر ملکی چینل خصوصاً گانوں اور فلموں کے ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں جن میں عریانی جزو اعظم ہے اور یہی عریانی ان کی بے انتہا مقبولیت اور ان کے لیے دیوانگی کا بنیادی سبب ہے۔ ان پروگراموں میں کمپیئر تک ایسا لباس پہن کر آتی ہے کہ دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان چینلوں کے مقابلے میں پی ٹی وی کے پروگرام انتہائی پاکیزہ محسوس ہوتے ہیں جن پر اندرون ملک تنقید ہوتی رہتی ہے۔ اب اس صورت حال میں مشکل یہ ہے کہ اگر پاکستانی چینل اس راہ پر نہ چلیں تو ناظرین کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور رخ بدلتی ہوئی اشتہاری کمپنیوں کے پیدا کردہ مسائل کا کیا کریں؟ اور اگر اسی راہ پر چلیں تو ان ناظرین کی تنقید کا کیا جواب دیں جو شدید عدم اطمینان ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اس مشکل کا صرف ایک ہی حل سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے پبلک ٹیلی ویژن‘ یعنی ایسا ٹیلی ویژن چینل جو اشتہارات پر منحصر نہ ہو۔ یہ چینل حکومتی زر تلافی اور ان ناظرین کی فراہم کردہ رقم سے چلایا جاسکتا ہے جو عام پاکستانی معیار کے مطابق صاف ستھرے پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں۔ عامِ طور سمجھا جاتا ہے کہ ایسے ناظرین کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک مختصر سروے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔