سوشل میڈیا پریشر

462

مہنگائی کا تیر…واپسی ممکن نہیں:
عوام کی بس ہوگئی، سندھ میں ڈاکو راج ختم کرو، خودکشی نہ کرو حق چھینو۔ جو چاہو ٹرینڈ چلا لو، جیسی چاہو گالی دے دو، جیسی چاہو میم بنالو۔ مہنگائی اُس ’تیر‘ کی مانند ہے جو کمان سے نکل جائے تو واپسی ممکن ہی نہیں۔

پھر یہ ’تیر‘ اگر آئی ایم ایف چلائے تو کیا کہنے۔ آئی ایم ایف کیسے راضی ہوسکتا ہے؟ اس کے جوابات بالکل سیدھے اور صاف ہیں۔ وہ ایک مالیاتی ادارہ ہے، اُس نے قرض دیا ہے اس شرط پر کہ وہ واپس بھی اپنی شرائط پر لے گا، تو وہ لے رہا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ قرض استعمال کہاں ہوا؟ کس کام کے لیے لیا گیا؟ اس کی شروعات کہاں سے ہوئی؟ اِس پر تو کہیں کوئی بات نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر بہت شور مچایا جارہا ہے، ایسے جیسے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ مہنگائی اب لگتا ہے روزانہ کا معمول بن گئی ہے۔

ڈیفالٹ کا ڈر… سوشل میڈیا تجاویز:
سینیٹر مشتاق احمد خان کی تجاویز بھی سوشل میڈیا پر مقبول رہیں، کہ ’’گھریلو صارفین کے لیے 200 یونٹ کے بجائے 300 یونٹ کی رعایتی حد ہو تو اس سے 2 کروڑ 43 لاکھ صارفین کے بجلی کا بل کم ہوجائے گا۔ اس پر خرچہ سالانہ 326 ارب روپے ہے۔ اس کے لیے فوج کے 2000 ارب روپے کے بجٹ میں سے 100 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کے 1500 ارب روپے کے بجٹ میں سے 100 ارب روپے، خسارے میں جانے والے ریاستی ادارے جیسے ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، واپڈا… جن کے لیے 350 ارب روپے رکھے گئے ہیں ان سے بھی 100 ارب لے لیے جائیں تو کسی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں“۔ مگر ظاہر سی بات ہے کہ اس کام کے لیے اصل اجازت تو ”کسی اور“ سے لینی ہوتی ہے، وہ دینے کو تیار نہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کی حد تک تو یہ اچھی پوسٹ رہی۔ مہنگائی کے حل کے لیے کامران شاہد کی ٹوئٹ البتہ قابلِ عمل لگی اور ہر قسم کی اجازت سے پاک بھی۔ اُنہوں نے چینی چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ یقین مانیں انتہائی جامع، مدلل ٹوئٹ تھی کہ کیمیکل سے بنی سفید چینی پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ یہ ذیابیطس، امراضِ قلب اور جگر سمیت کئی بیماریوں کا سبب ہے۔ واقعی اس کو چھوڑ دینے میں عافیت ہے، اس کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کروڑوں انسانوں کی جان بچانے کے مترادف ہوگا۔ جیو نیوز مستقل ہیڈلائن میں چینی کی قیمت سے غریب آدمی کی چائے کو موضوع بنارہا تھا مگر یہ کہنے کی جرأت نہ تھی کہ سفید چینی کو زندگی سے ترک کردیا جائے۔ مہنگائی ایسا ایشو بن گئی کہ 15دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کا تعین ہوتا تھا مگر یہاں تو صورتِ حال ایسی ہے کہ روز ہی کچھ نہ کچھ ہورہا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایشیا کپ کرکٹ کو منصوبہ بندی کے تحت موضوع بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ اگر سال بھر پہلے ’ڈیفالٹ‘ ہونے کا اعلان کردیا جاتا تو بھی ایسی ہی صورت حال ہوتی مگر کسی قسم کے قرض کا کوئی بوجھ نہ ہوتا۔ لوگ بلاوجہ ڈراتے ہیں۔ وینزویلا اور ایکواڈور دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے 10بار ڈیفالٹ کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ برازیل جو آج کل امریکی معیار پر مشتمل تیزی سے بڑھنے والی معیشت میں سے ایک ہے، 9 بار ڈیفالٹ کرچکا ہے، جبکہ کوسٹاریکا اور یوراگوئے بھی گزشتہ200برسوں میں 9 بار اپنے بیرونِ ملک سرمایہ کاروں کو مایوس کرچکے ہیں۔ یہی نہیں 1800ء کی دہائی میں امریکہ بھی ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ 1979ء میں بھی امریکہ بدترین معاشی مسائل کی وجہ سے ادائیگیوں میں ناکامی کا شکار ہوچکا ہے۔ سری لنکا کے بارے میں تو ہم نے حال ہی میں سنا ہے، مگر یقین مانیں سب آپ کے سامنے ہیں۔ میری تحریر کا موضوع معیشت نہیں، لیکن آپ کو اُن حقیقتوں تک رسائی دینا ضرور ہے جو سوشل میڈیا پر آپ ڈسکس کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ ’ترقی‘ کے نظریے کو خدا بنا لینا ہے، جب آپ اس دلدل میں جمپ مارتے ہیں تو پھر باہر نکلنے کی ہر کوشش آپ کو دھنساتی چلی جاتی ہے۔

آرمی چیف کا وژن:
عوام کا آرمی چیف، جنرل عاصم منیر، چیف کا معاشی وژن سمیت ٹرینڈ اس ہفتے ایک تو یہ صاف پیغام دیتے رہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرح پنڈی ہیڈ کوارٹر نے بھی ترانوں، ڈراموں، فلموں سے آگے نکل کر سوشل میڈیا پر بھی اچھی سرمایہ کاری کرلی ہے۔ اچھی بات ہے، مؤقف معلوم ہوجاتا ہے۔ آرمی چیف نے تاجر برادری سے ملاقات کی۔ اصولاً تو کسی آرمی چیف کا یہ کام نہیں، اس کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ مگر پاکستان کا معاملہ تو الگ ہے نا۔ انہوں نے انٹر بینک ریٹ میں شفافیت کو فروغ دینے اور منی ایکسچینج کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی یقین دہانی کرائی۔ اب کوئی سر پکڑ لے کہ کسی ملک کے آرمی چیف کا یہ کام کیسے ہوسکتا ہے! ایک دوست نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ بھائی! آرمی نے سیاست سے دور رہنے کا کہا تھا، معیشت سے نہیں۔ اب ہوا یہ کہ سوشل میڈیا پر اس ملاقات کا ایک جملہ زبیر موتی والا کی زبانی وائرل ہوگیا۔ اگلے دن اس جملے کی تردید کراچی کے معروف کاروباری عقیل کریم ڈھیڈی سے جیو نیوز میں کرائی گئی: ’’آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی سے ملاقات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے مخلص نہ ہونے پر کوئی بات نہیں کی‘‘۔ میں کیا، سب ہنستے رہے اور ہنستے ہی چلے گئے۔ بہرحال دعاگو ہوں کہ آرمی چیف کے نام سے نشر شدہ وعدے پورے ہوں۔

یومِ حجاب:
سوشل میڈیا پر 4 ستمبر کے عالمی یوم حجاب کے تناظر میں ہونے والی گفتگو اور مباحث دیکھ کر امسال بھی دُکھ مزید بڑھا۔ فیمن ازم کے بڑھتے اثرات کو سمجھے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو حجاب ڈے کی بنیاد فرانس میں 2004ء میں حجاب کے خلاف پابندیاں بنی تھیں، جس کے بعد ہیملٹن میں کچھ مسلم و غیر مسلم طلبہ نے سیکولر بنیادوں پر ایک ردعمل کے طور پر حجاب ڈے منایا۔ کچھ عرصے بعد فرانس، پھر کینیڈا میں یہ دن قومی سطح پر منایا جانے لگا۔ اس کے بعد اب چار ستمبر کو عالمی سطح پر حجاب کا دن منایا جاتا ہے۔

5 ستمبر کی خبر ہے کہ ’’فرانس کے اسکولوں نے عبایا پہننے والی درجنوں لڑکیوں کو گھر بھیج دیا‘‘ (الجزیرہ)۔ یہ کوئی اِس ماہ کا واقعہ نہیں ہے، ایسا مستقل 2003ء سے ہی ہورہا ہے۔ مسلم ڈیلی نے باقاعدہ تصویر لگاکر ٹوئٹ کی کہ ’’آج فرانس کے اسکول کے پہلے دن، پولیس اسکول کے دروازے کے سامنے کھڑی رہی تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ مسلم لڑکیاں عبایا پہن کر اسکول میں داخل نہ ہوسکیں۔ اب یہی وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی پوشاک کو کنٹرول کرنے پر ایران کی پولیس کی شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں کی عورتوں کو حق ہے جو چاہیں پہنیں، جبکہ اپنے ملک میں لڑکیوں کو حجاب ہٹانے پر مجبور کرتے ہیں‘‘۔ خبر میں فرانسیسی وزیر تعلیم گیبریل نے بتایا کہ تعطیلات کے بعد نئے تعلیمی سال کے پہلے دن 300 حجابی طالبات کوروکا گیا جن میں سے 67 نے حجاب اتارنے سے انکار کیا تو اُن کویہ خط دے کر واپس کردیاگیا کہ سیکولر ازم پابندی نہیں آزادی ہے۔

secularism is not a constraint, it is a liberty.

حجاب ٹرینڈ کا فرانس و ایران میں موازنہ :
حجاب فرانس سے لے کر ایران تک موضوع بنا ہوا ہے۔ اس کو سیکولرازم کا تضاد کہنا بہت ہلکی بات ہوگی کیونکہ دوسری جانب ایران میں دیکھیں، وہاں اقوام متحدہ سمیت ساری عالمی برادری کا دباؤ ہے کہ حجاب کی پابندی ہٹائی جائے کیونکہ سب کو حق ہے مرضی کے کپڑے پہننے کا۔ ایران میں مزید سخت قانون سازی کی تیاری ہے حجاب کا قانون توڑنے پر، جسے اقوام متحدہ ’صنفی نسل کُشی‘ قرار دے رہا ہے۔ سارے مغربی میڈیا میں اس پر مستقل بحث جاری ہے۔ ایران میں عوامی مقامات پر حجاب کو واضح ہدایت کے تحت نافذ کیا گیا، جس کی پابندی نہ کرنے پر 2 ماہ قید سے لے کر 50000 ایرانی ریال تک کے جرمانے ہیں۔ اب نئے قانون میں حجاب کو توڑنے کی سزا 5 سے 10 سال قید اور 30 لاکھ ایرانی ریال تک کے جرمانے پر لے جارہے ہیں۔ یہی نہیں، نئے قانون میں سزا شخصیات کی شہرت پر بھی منحصر کی گئی ہے کہ اگر کوئی مشہور شخصیت یہ جرم کرے گی تو زیادہ سخت سزا ہوگی۔ اس قانون سازی پر اقوام متحدہ سمیت سب کو مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ وغیرہ فرانس کے معاملے پر مکمل خاموش ہیں۔فرانسیسی وزیر تعلیم صاف کہتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی علامات پر پابندی ہے (یہ انیسوی صدی سے فرانس میں لگی تھی جو رومن کیتھولک مذہبی علامات کے لیے تھی)۔ فرانس صرف عبایا اور حجاب ہی نہیں، لڑکوں کی قمیص کو بھی پابندی میں لارہا ہے۔ اچھا ایک بات بتا دوں وگرنہ آپ کنفیوژ رہیں گے۔ فرانس کے تعلیمی اداروں میں ہماری طرح کوئی یونیفارم نہیں ہوتا، ایک طرف سب کو آزاد ی ہے اپنی پسند کے کپڑے پہننے کی،دوسری طرف یہ معاملہ ہے کہ اس آزادی میں ہر مذہب کی انٹری بالکل بند ہے۔فرانس میں 2004ءمیں باقاعدہ ہیڈ اسکارف اور دیگر تمام مذہبی علامات پر پابندی لگی، اس میں صرف مسلم نہیں بلکہ عیسائی و یہودی علامات بھی شامل ہیں۔ 2010ء میں فرانس نے خواتین کے مکمل برقع پر عوامی مقامات پرپابندی لگائی۔اِس کے بعد2011ء میں کلاس روم کے اندر پگڑی، ٹوپی، ہیڈ اسکارف سمیت کپڑوں پر پابندی لگائی۔ یہی نہیں 2016ء میں ساحلِ سمندر پر خواتین کے ’برکنی سوئمنگ سوٹ‘ پر بھی پابندی لگا دی۔ برکنی سوٹ وہ ہوتے ہیں جن میں خواتین کا مکمل جسم کپڑےسے ڈھکا رہتا ہے۔ جبکہ فرانسیسی مسلم خواتین بھی نامعلوم کون سی حکمت سے اس ایشو کو ’فیمن ازم ‘کے تناظر میں ڈیل کررہی ہیں، جو اقوام متحدہ ایران کے کیس میں دلائل دے کر استعمال کررہا ہے۔اُن کا عمومی مؤقف و بیانیہ یہی ہےکہ ”یہ کون ہوتے ہیں مسلم خواتین کو یہ بتانے والے کہ ہم کیا پہنیں، کیا نہ پہنیں!“وہ اس کو ہراسمنٹ کے دائرے میں لاتی ہیں، اسلام سے اس کو نہیں جوڑتیں۔وہ اس کو صنفی اور نسلی تعصب سے جوڑتی ہیں، racial profilingکی اصطلاح لاتی ہیں،وہ کہتی ہیںکہ حکومت کیسے طے کرےگی کہ کون سی علامت مذہبی ہے، کون سی نہیں؟

وائرل وڈیواور 7ستمبر:
سوشل میڈیا پر لا تعداد وائرل وڈیوزمیں سے میںنے انتخاب کیا ہے 7 ستمبر کو یومِ ختمِ نبوت کے تناظر میں صدر کراچی میں واقع ’احمدیوں/قادیانیوں کی عبادت گاہ توڑنے کی وڈیو‘ کا۔سوشل میڈیا پر ٹرینڈ اس بار بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ بنایاگیا، کئی دکان داروں نے اس دن اپنی مصنوعات پرخصوصی رعایت دینے کی پوسٹیں شیئر کی ہوئی تھیں۔احمدی غیر مسلم مستقل پاکستان کے آئین کی دفعہ 295 کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔کئی سال سے مستقل تھانوں میں رپورٹ درج کی گئیں، پرچے کاٹے گئے مگر قانون حرکت میں نہیںآیا۔ جیسے ہی مقامی مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بڑھا اور اُنہوں نے قانون کی مدد کی،تو اُس کی وڈیو وائرل ہوگئی۔

حصہ