خود مذمتی

789

فرد اور اجتماعیت کو احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہے

دنیا مسافر خانے کی طرح ہے، یہاں جو بھی آیا اُسے ایک مقررہ مدت گزار کر ملکِ عدم کو کوچ کر جانا ہے۔ دنیا کا سفر انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک جاری رہتا ہے۔ اس میں اسے بچپن، جوانی اور بڑھاپا، تینوں مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ اس سفر میں اسے اچھے اور برے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھے اور برے لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کچھ واقعات بڑے خوش گوار اور کچھ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان تمام حادثات اور واقعات کو صبر و سکون، حوصلے اور خوش دلی سے گزار دے تو ذہنی دباؤ اور جسمانی تکالیف سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔

ایمانِ مفصل میں ہمارا اقرار بالقلب و زبان ہے کہ ’’جو بھی قسمت میں اچھائی اور تکلیف ہے وہ سب من جانب اللہ ہے، اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ہے۔‘‘

ساتھی رے غم نہیں کرنا
جو کچھ بھی ہو آہیں نہ بھرنا
جیون ہے اک تارا
جس کا ہر سر نیارا
آسائشِ حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکونِ قلب مقدر کی بات ہے

غریب سے لے کر امیر تک، شاہ سے لے کر فقیر تک سب کو زندگی کی دھوپ چھاؤں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مگر انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتیں یاد نہیں رہتیں مگر ذرا سی تکلیف کو بھول نہیں پاتا، اور خود کو، کبھی اپنے رشتے داروں کو، کبھی دوستوں کو کوسنے لگتا ہے۔ حالانکہ دانا کا قول ہے کہ زندہ دل انسان کو ہر ناکامی کامیابی کے قریب لے جاتی ہے۔

مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تُو نہ مر جائے
کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے
٭
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

درجہ دہم کی انگریزی کی کتاب میں ایک نظم ہےThe man who wins. جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی زندگی کی بازی اپنی قوتِ ارادی سے جیتتا ہے، جس کو will power کہتے ہیں۔ اگر محمود غزنوی میں یہ power will نہ ہوتی تو وہ سولہ حملوں کی ناکامی کے بعد دل برداشتہ ہوکر بیٹھ جاتا اور سترہواں حملہ نہ کرتا اور نہ سومنات فتح کرتا، نہ ہی تاریخ میں بت شکن کے نام سے مشہور ہوتا۔ وہ ساری عمر خود کو اپنے سالاروں اور سپاہیوں کی خود مذمتی میں گزار دیتا۔

یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ کاروبار کی کامیابی ہو یا بہتر نوکری کا حصول، یا پیشہ ورانہ مہارت… ہر جگہ مقابلہ موجود ہے۔ جو لوگ ایک دو بار کی ناکامی کے بعد تھک ہارکر بیٹھ جاتے ہیں وہی خودمذمتی اور احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔

احساسِ کمتری میں مبتلا انسان یا کوئی تحریک یا کوئی قوم یا جماعت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں دیکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالات کے جبر میں نہ صرف حوصلہ دیا کرتے تھے بلکہ کامیابی کی خوش خبری بھی دیتے تھے۔ غزوہ خندق میں محصور ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسریٰ کی فتح کی نوید سنائی۔ قلیل تعداد نے عزم وحوصلے کے ساتھ بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ بڑی فوجوں کو شکست دے کر کامیابی و کامرانی کے پرچم بلند کیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جم گئے تو فرشتوں کی نصرت و تائید انہیں حاصل ہوتی ہے اور اللہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اور نعمتیں عطا کرتا ہے جس کا وعدہ ہے۔ ‘‘(القرآن)

میدانِ بدر سے لے کر تبوک، فتحِ اندلس ہو یا فتحِ سندھ، ہر جگہ رب کی تائید و نصرت کا دارومدار اللہ پر بھروسے پر ہے۔ افغانستان میں روس اور امریکا کی پسپائی، کشمیر کی جدوجہدِ آزادی، حماس کے ابابیلوں کی اسرائیلی ٹینکوں پر سنگ باری، ہر جگہ ڈٹ کر مقابلہ اور کامیابی ایمانی قوت کا ہی کرشمہ ہے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

یہ تو مسلمانوں کی تاریخ ہے، دیگر اقوام پر نظر ڈالیں تو ویت نام میں امریکی پسپائی، جاپان میں ایٹم بموں کی تباہی کے بعد جاپان کی ہوشربا ترقی ان کی استقامت اور حوصلے کی دلیل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جاپانیوں کی لغت میں لفظ ’’ناممکن‘‘ نہیں ہے۔ چینی ہمارے ساتھ آزاد ہوئے، پوری قوم افیون کے نشے کی عادی تھی مگر جب انہوں نے ترقی کرنے کی ٹھانی تو آج وہ ہر اعتبار سے دنیا بھر میں سپر پاور کی حیثیت سے اوّلیت حاصل کرنے کی جد وجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ چینیوں کا قول ہے Don’t curse the darkness light a little candle (اندھیرے کو نہ کوسو، اندھیرے کو دور کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا دِیا جلا لو)

خود مذمتی دراصل اللہ کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے۔ آج پاکستان کا ہر خاص و عام اپنے اس سونے جیسے ملک کی مذمت میں لگا ہوا ہے۔ کوئی اس کی تخلیق کو غلط کہتا ہے، کوئی مولانا ابوالکلام آزاد کی اس گفتگو کا حوالہ دیتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تخلیق کو یہ کہہ کر رد کیا تھا کہ ایک دن تم لوگوں کو پچھتانا پڑے گا۔ لوگ حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کو برا بھلا کہتے کہتے پاکستان کو ہی کوسنے لگتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا انہیں اچھا لگتا ہے، جہاں ان کی اولاد بھی ان کے قابو میں نہیں رہتی۔ اپنے ملک کے مقابلے میں بھارت کی تعریف کرتے ہیں، حالانکہ آج بھارت کے عوام کی اکثریت غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بھارت کا مسلمان شودروں کی سی زندگی بسر کررہا ہے حالانکہ ان کی تعداد 30 کروڑ سے زائد ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت ہے جس کا جان و مال کچھ بھی محفوظ نہیں۔ آئے دن ریاستی سرپرستی میں ہونے والے فسادات نے مسلمانوں کی معیشت کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔ ’’ہندوتوا‘‘ کے عَلم بردار دہشت گردوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ جبکہ اپنے ملک پاکستان کے بڑے شہروں میں بھوک سے ستائے لوگوںکو دو وقت بکرے کا قورمہ اور بریانی میسر ہے۔

یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ ملک سو سال کی جاں گسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کا ثمر، اور کلمے کی بنیاد پر بننے والی دوسری ریاست ہے جو مدینہ کی پَرتو ہے جسے ہمارے اجداد نے بیک وقت انگریز اور برہمن سامراج سے لڑ کر حاصل کیا۔ یہ ملک معجزاتی طور پر اللہ نے ہمیں بخشا ہے۔ اس کی مٹی میں ہر طرح کی معدنیات موجود ہے۔ جہاں سمندر، پہاڑ، سرسبز میدان، وسیع صحرا، دریا، چشمے، پھلوں سے لدے باغات اور دنیا کے تمام میوہ جات کی نعمتیں موجود ہیں۔ اس کی افواج اور محنت کش نوجوان دنیا میں اپنا بلند مقام رکھتے ہیں۔ ہم دنیا میں ایٹمی طاقت رکھنے والے واحد اسلامی ملک کے باشندے ہیں۔ اگر واقعی ہماری کوئی حیثیت نہیں ہوتی تو کیوں اس کے قیام سے لے کر آج تک بھارت، اسرائیل، امریکا اور دیگر مسلم دشمن ممالک اس کے وجود کے درپے ہوتے!

بنگلہ دیش کے قیام میں جہاں اپنوں کے غیر مساویانہ طرزعمل کا دخل تھا، وہیں بھارت کی سازشیں اور عالمی طاقتوں کی دغا بازی تھی۔ آج ایک بار پھر ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ اس کے لیے سوشل میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان میں مایوسی پھیلائی جارہی ہے اور سلامتی کے تمام ادارے بالخصوص فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی کی آڑ میں علیحدگی پسند جماعتیں اور کچھ سیاسی عناصر ملک کو دولخت کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے جہاں حکمران عوام کے ووٹوں کے ذریعے برسراقتدار آتے ہیں۔ لہٰذا عوام کو اپنا شعور بیدار کرنا ہوگا اور ایمان دار و مخلص قیادت کو ووٹ دینا ہوگا۔ اللہ کا حکم ہے کہ ’’ایمان والو! امانت اہل لوگوں کے سپرد کرو۔‘‘

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نبوت سے پہلے ہی اہلِ مکہ کی نظر میں ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ اللہ کا حکم ہے کہ ’’ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘

اے اہلِ وطن! سوچو تو ذرا یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بربادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی یہ پھولوں کا بیوپاری ہے

لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اہلِ وطن کلمے کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس مملکتِ خداداد ’’پاکستان‘‘ کو بچانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور مایوسی پھیلانے والے اور خود مذمتی کرنے والے ملک دشمن عناصر کے پھندے میں نہ پھنسیں۔ مایوسی کفر ہے۔

’’یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے‘‘

حصہ