تحریر کے اختتام تک فروا کی خوب صورت آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اُس نے میگزین سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور بہت دیر تک تحریر کے اثر میں کھوئی رہی، کیوں کہ ہر لفظ دل پر اثر کرتا تھا۔ یہ تحریر اس کی پسندیدہ رائٹر حنا امجدکی تھی۔ کیوں کہ اُن کی الفاظ پر گرفت اتنی مضبوط ہوتی کہ حقیقت کا گماں ہوتا۔ حنا امجد اس کی آئیڈیل تھیں، اسے لگتا جیسے وہ اپنے بارے میں لکھ رہی ہوں۔ فروا ان کی بہت بڑی مداح تھی، وہ ان کو تصور کی آنکھ سے دیکھتی۔
ابھی وہ حنا امجد کی نئی تحریر پڑھ رہی تھی جس میں ایک ماڈرن گھرانے کی لڑکی اپنے گھر اور خاندان کے ماحول کے خلاف اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرتی ہے، اس پر سب گھر والے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں مگر وہ لڑکی حق پر ڈٹی رہتی ہے۔ فروا کو لگا جیسے یہ تحریر حنا امجدکی اپنی آپ بیتی ہے۔ اس تحریر سے فروا اتنی متاثر ہوئی کہ جب ایک ماڈرن لڑکی شرعی پردہ کرسکتی ہے تو وہ کیوں نہیں کرسکتی! اس نے سنجیدگی سے سوچا اور اس پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ویسے بھی عمل کے بغیر علم بے فائدہ ہوتا ہے۔ گھر والوں نے سنا تو اعتراضات کی بھرمار شروع ہوگئی، چھوٹے بھائی نے کہا ’’چار دن کی چاندنی ہے‘‘۔ بھابھی کی طنز بھری آواز آئی ’’چند دن کا بخار ہے، خود ہی اتر جائے گا‘‘۔ بڑی بہن نے برا مان کر کہا ’’اب تم شادیوں میں بھی پردہ کروگی!‘‘
’’آپی! پلیز میری بات سمجھیں، پردہ کبھی کریں اور کبھی نہیں ایسا تو ٹھیک نہیں ہے نا!‘‘ اس نے نرمی سے آپی کو سمجھایا۔
’’اس کا مطلب ہے ہم ٹھیک نہیں!‘‘ آپی بھڑک اٹھیں۔ وہ مغموم ہوکر وہاں سے اٹھ گئی۔ کالج گئی تو وہاں بھی مذاق کا نشانہ بنایا گیا، مگر وہ صحیح راستے پر تھی اس لیے ڈٹی رہی حنا امجد کے کردار کی طرح۔ وہ سوچتی کہ ’’حنا امجد کتنی عظیم ہیں، نہ جانے کتنی لڑکیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنی ہوں گی اور وہ خود کتنی باپردہ ہوں گی، کاش میں اُن سے مل پاتی۔‘‘
سب لڑکیاں کالج میں ہونے والے فنکشن کی تیاریوں میں مصروف تھیں، سہانا موسم مزید خوب صورت ہوگیا جب اردو کی لیکچرر مس ماہم نے بتایا کہ ’’کل کے فنکشن میں مشہور و معروف رائٹر حنا امجد مہمانِ خصوصی ہوں گی‘‘۔ اس اطلاع نے سب کو خوش کردیا، مگر فروا کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا، اس نے بے اختیار ’’ہُرے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کی زندگی کی بہت بڑی خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔
اگلی صبح فروا کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ خوش گوار موڈ کے ساتھ سب سے پہلے اُس نے بیگ میں آٹوگراف بک رکھی، پھر اچھی طرح عبایا اور حجاب سے خود کو مزین کرکے آئینے کے آگے کھڑی ہوئی تو احساس ہوا کہ واقعی پردہ عورت کو کتنا معتبر کردیتا ہے۔ اس کے خیال میں اب حنا امجد کے کرداروں اور اس میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔
کالج میں رنگ و نور کی دنیا آباد تھی۔ فنکشن شروع ہونے ہی والا تھا۔ وہ بھی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس کی بے تاب نگاہیں بار بار استقبالیے کی طرف اٹھ رہی تھیں، وقت جیسے ٹھیر سا گیا تھا۔ فنکشن شروع ہوچکا تھا لیکن اس کا دل کسی اور کے خیال میں اٹکا ہوا تھا۔ پھر اچانک شور سنائی دیا ’’حنا امجد صاحبہ آچکی ہیں‘‘۔
مس ناہید نے جو کہ کمپیئرنگ کررہی تھیں، ہدایت دی کہ جیسے ہی حنا امجد صاحبہ اسٹیج پر آئیں تمام طالبات کھڑی ہوکر تالیاں بجائیں۔ فروا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ بھاگ کر خود ہی حنا امجد تک پہنچ جائے۔
تھوڑی دیر بعد ایک الٹرا ماڈرن خاتون ہال میں داخل ہوئیں برائے نام دوپٹہ اور جدید فیشن کے کپڑوں میں ملبوس، بازو پر اسٹائلش بیگ۔
مس ناہید کی آواز گونجی ’’مشہور و معروف رائٹر حنا امجد صاحبہ تشریف لاچکی ہیں، ہم سب انہیں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سب لڑکیاں اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں، مگر فروا کے وجود نے اٹھنے میں اس کا ساتھ نہ دیا۔ آٹوگراف بک جو اس نے بیگ سے نکال کر ہاتھ میں تھام لی تھی لرز کر زمین بوس ہوگئی، اس کی آنکھیں حیرت سے دیکھتی رہ گئیں۔ جس چراغ تلے اندھیرا تھا، اسی چراغ کی روشنی اس کے لیے سویرا بن گئی۔