آنکھوں کے تیر

230

دل سنبھالو تو سنبھلتا ہی نہیں، اُف کتنی پیاری لڑکی ہے، کوئی جو ایک بار دیکھ لے تو دیکھتا ہی چلا جائے، اور وہ پری ادھورے سے لباس میں یہاں سے وہاں اٹھلاتی پھر رہی ہے، اس بات سے بے پروا کہ کتنی ہی نظریں اس کا طواف کررہی ہیں۔ خواتین اسے سراہ رہی تھیں، تو پھر مردوں کا کیا کہنا!

میں بھی غور سے اس پیاری سی بچی کو دیکھ رہی تھی اور جو بات مجھے سوچنے پر مجبور کررہی تھی وہ یہ کہ اس معصوم کو یہ احساس بھی نہیں ہورہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ اپنی خوشی اور سادگی میں مگن اپنی سہیلیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ اچانک ایک لڑکا کہیں سے آیا اور زور سے اس سے ٹکرایا۔ یقیناً یہ حرکت اس نے جان بوجھ کر کی تھی۔ ایک دم وہ لڑکی لڑکھڑائی تو لڑکے نے جلدی سے اسے تھام لیا اور سوری کہہ کر غائب ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور وہ جلدی سے ہال میں بنے ڈریسنگ روم کی طرف دوڑی، ساتھ اس کی سہیلیاں بھی اس کے پیچھے بھاگیں۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور ڈریسنگ روم میں پہنچی۔ اب چونکہ وہ اپنی دوست کی شادی میں آئی تھی لہٰذا اس کے گھر والے تو تھے نہیں، میں نے جلدی سے اس بچی کو دلاسہ دیا اور باقی بچیوں کو ہال کی طرف بھیج دیا، اور اس کا موڈ بہتر کرتے ہوئے کہا کہ بڑے شہروں میں ایسا ہوتا ہے۔

’’نہیں آنٹی! وہ بہت بدتمیز لڑکا تھا، فضول میں میرے پیچھے لگا ہوا تھا۔‘‘

میں نے کہا ’’فضول میں نہیں، تم لگ ہی اتنی پیاری رہی ہو کہ وہ لڑکا تو کیا، پورا ہال ہی تمہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘

’’کیا واقعی آنٹی…؟‘‘

’’ہاں بھئی! کیا تمہیں اس کا احساس نہیں ہوا؟‘‘

لڑکی نے معصومیت سے نظریں جھپکائیں ’’نہیں آنٹی! میں نے تو غور نہیں کیا۔‘‘

’’میں تمہیں دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ ابھی تم بہت معصوم ہو اور تمہیں لوگوں کی نیتوں اور ارادوں کو سمجھنا اور پرکھنا نہیں آتا، تم اپنے حساب سے لوگوں کو سوچتی ہو، اور اہم بات یہ کہ اس کا احساس تمہاری والدہ نے تمہیں نہیں دلایا کہ بچیوں کو کس طرح محفل میں آنا چاہیے۔‘‘

’’کیا مطلب آنٹی؟‘‘

’’دیکھو بیٹا! ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے ہی کو باعث ِ فخر سمجھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ہوتے۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بچیوں کو جس طرح باحیا، باکردار اور باعمل بنانے کے لیے احکامات دیے ہیں ان کو بھولے بیٹھے ہیں۔ حیا بچیوں کا کُل زیور ہے۔ اپنے آپ کو ڈھانک کر، حجاب میں اپنا آپ چھپا کر جو سکون، عزت اور مقام ملتا ہے وہ یوں سرِعام کھلے پھرنے سے نہیں ملتا۔ جو وقار، خوشی، اطمینان اور حفاظت آپ کو حیا داری دیتی ہے وہ بے پردگی میں رہنے سے کبھی نہیں ملتی۔ پردہ دار کی حفاظت کے لیے اللہ پاک اپنے فرشتے بھیج دیتے ہیں۔ پھر یہ جان بوجھ کر ٹکرانے والے، گھور گھور کر دیکھنے والے، آوازے کسنے والے دَم سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب تم اپنے آپ کو ڈھانک کر نکلو گی تو تمہیں فرق پتا چلے گا۔‘‘

لڑکی کی سمجھ میں شاید میری بات آگئی، اس لیے اُس نے پورے یقین سے کہا ’’جی آنٹی! میں ضرور کوشش کروں گی، آپ بھی میرے لیے دعا کیجیے گا۔‘‘

حصہ