ننھے جاسوس۔ کان کن چوہے

288

ملک جہانگیر کا پورا گھر مع قیمتی اشیا، خالی کرا لیا گیا تھا۔ جمال اور کمال کے کہنے کے مطابق حویلی کے چاروں جانب جیمرز والی گاڑیاں کھڑی کر دی گئیں تھیں۔ اسی دوران جہانگیر کو ایک پرچے کے ذریعے مجرموں نے خبردار کر دیا تھا کہ ہم نے صرف پیغام دینے کے لیے حویلی کی دیوار کا ایک حصہ گرایا ہے، جعلی کرنسی کی سزا آپ کو ضرور ملے گی اور اگر آج رات تک ہمارے خاص آدمی کو فلاں مقام پر نہیں پہنچایا گیا تو پہلے مرحلے میں ملک جہانگیر کی پوری حویلی کو خاک کا ڈھیر بنادیا جائے گا اور اس کے بعد آس پاس کی بستی کی کئی اہم عمارتوں کو دھماکوں سے اڑا دیا جائے گا۔ یہ کوئی معمولی دھمکی نہیں تھی لیکن اعلیٰ حکام کو جمال اور کمال نے اطمینان دلایا تھا کہ مجرم ایسا کچھ بھی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ یہ ایک بہت بڑا رسک تھا لیکن جمال اور کمال کے ماضی کے کارناموں کی وجہ سے سب کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ ان خطرناک مجروں کو نہ صرف گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ان کی ہر قسم کی تنصیبات کو ناکارہ بنا کر رکھ دیں گے۔ ٹھیک رات 10 بجے میدان کے گرد و نواح میں ڈرونوں کی مدد سے مختلف مقامات پر حملے کئے گئے، کئی جگہ سے شعلے بلند ہوئے اور دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ دھماکوں کے ساتھ ہی متصل جنگل نما میدان سے کچھ افراد کو بھاگنے کی دوران گرفتار کیا گیا اور پھر ایک بہت بڑا بم ڈسپوزل دستہ ملک جہانگیر کی حویلی کے گرد پھیل گیا اور دو درجن سے زیادہ مقامات سے بارود کے ڈھیر برآمد کرنے میں کامیاب ہوا۔ پو پھوٹنے سے پہلے پہلے کئی اہم عمارات سے بھی بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کا عمل بھی مکمل ہوا اور یوں بستی ایک بڑی تباہی سے بچالی گئی۔

ایک بہت بڑے حال نما کمرے میں بہت سی اعلیٰ شخصیات بیٹھیں تھیں جن میں انسپکٹر حیدر علی بھی شامل تھے۔ کل کی ساری کارروائی کی کمانڈ بظاہر ان ہی کے پاس تھی۔ جمال اور کمال کو ایک خفیہ مقام پر بٹھایا گیا تھا جو ویڈیو لنک کے ذریعے سب کاروائی دیکھ رہے تھے لیکن ان کو کسی کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ساری کارروائی کی تفصیل ان سے پوچھی جا رہی تھی۔ ان کی آواز ہال میں ضرور گونج رہی تھی لیکن کئی انسٹرومنٹس کی مدد سے ان کی آواز کو ایک بڑے رعب دار مرد کی آواز میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ یہ سب حفظِ ماتقدم کے لیے تھا اس لیے ایسے ہیروں اور نگینوں کو چھپا کر رکھنے میں ہی ملک کا مفاد وابستہ تھا۔
جمال کی آواز ہال میں گونج رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ جس کو جو صلاحیت عطا کرتا ہے اسی کے مطابق اس میں تجسس بھی پیدا کر

دیتا ہے۔ میں اور میرا بھائی جب بھی چہل قدمی کے لیے قریبی گراؤنڈ میں جاتے تھے ہر تبدیلی پر نظر رکھتے تھے۔ اسی دوران ہم نے محسوس کیا کہ میدان سے کافی فاصلے پر کچھ مٹی کے ڈھیر سے پڑے ہوئے ہیں۔ شاید یہ کوئی خاص بات نہ بھی ہوتی لیکن اگلے دن کچھ ڈھیر پہلے مقام سے ہٹ کر تھے۔ ہم نے سوچا کہ پہلے والے ڈھیر آخر کہاں گئے۔ بس یہ بات تجسس کا سبب بنی تو فیصلہ کیا کہ قریب جاکر جائزہ لیا جائے۔ قریب جانے پر پتا چلا کہ وہ تو بل ہیں۔ یہ بھی کوئی بہت چونکا دینے والی بات نہ تھی البتہ ڈھیروں کا صاف ہو جانا ضرور تجسس کا سبب بنا۔ اسی دوران ہمیں ایک جھاڑی میں چھپا چوہا نظر آیا۔ توجہ کی باعث کئی باتیں بنیں۔ ایک ان کا معمول سے کافی بڑا ہونا اور دوسرا چوہے کی ایک آنکھ کا دوسری سے مختلف ہونا لیکن یہ فرق بھی اتنا معمولی تھا جس کو ہر انسانی آنکھ محسوس نہیں کر سکتی تھی۔ پھر یہ بھی محسوس ہوا جیسے وہ ہمیں بہت غور سے دیکھ رہا ہو۔ چوہا تو چلا گیا لیکن کچھ وقفے کے بعد ہی ہماری سمت تین آدمی بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ جہاں سے وہ آ رہے تھے وہ بالکل ہی غیر آباد علاقہ تھا۔ ان تین میں وہ اہل کار جس کو کیپٹن نے ہمارے کہنے پر گرفتار کیا شامل تھا لیکن ہم اسے اس وقت باوجود کوشش کے نہ پہچان سکے جبکہ ہمیں اپنی اس صلاحیت پر بہت ناز ہے۔ اس کو تمام ذمہ داروں کے ساتھ دیکھ کر دماغ میں شدید خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ہمیں ایسا لگا کہ یہ کسی کا مخبر ہے۔ ان آدمیوں کا ہماری سمت آنا، چوہے کا ہمیں گھورنا ویسے بھی کسی جانب اشارہ کرتا نظر آ رہا تھا اس لیے یہی خیال آیا کہ اس اہلکار کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا رسیور ضرور ہوگا جس کی مدد سے وہ ہر کارروائی کہیں اور بھیج رہا ہوگا۔ چوہوں کو دیکھ لینے کے بعد ہم ہر قسم کے خطرے کی پرواہ کئے بغیر رات کی تاریکیوں میں وہاں کے چکر لگاتے رہے۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ وہ غیر آباد جگہ، جہاں کئی خطرناک موذی بھی پائے جاتے ہیں، جیسے آباد ہو لیکن ہم کسی کی واضح شکل کبھی نہیں دیکھ پائے۔ ہمیں جب مجرموں کی دھمکیوں اور رقم کے غائب ہوجانے کے متعلق علم ہوا تو ہم کہانی کے سارے تانے بانے جوڑ چکے تھے۔ دھماکے سے دیوار کے گرتے ہی ساری کہانی ہمیں سمجھ میں آ گئی۔ وہ چوہے نہایت تربیت یافتہ اور کسی حد تک ریموٹ کنٹرول کے تحت حرکت کرنے والے رہے ہونگے اور وہ سارے بل ملک جہانگیر کی حویلی اور دیگر مقامات تک بارود لے جانے کے لیے بنائے گئے ہونگے اور یہ بھی یقین ہو گیا کہ جتنے بھی چوہے ہونگے ان کی ایک آنکھ مصنوعی اور بطورِ کیمرہ استعمال کی جاتی ہو گی۔ مجرموں کی بد قسمتی سے جتنی بھی مائنز تھیں وہ ریموٹ کنٹرول سے نہیں اڑائی جا سکتی تھیں۔ ان کے لیے بیٹری کا نظام بنایا گیا تھا۔ ہمارے یقین کے مطابق وہ نظام ٹھیک ان مقامات پر نصب تھا جہاں ہم نے افراد کی چہل پہل محسوس کی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا اندازہ درست ثابت ہوا۔ جیمرز ہم نے وائرلیس سسٹم کو ناکارہ بنانے کے لیے مانگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ساری کارروائی کے دوران مجرمان بھاگنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ رہی وہ لاش وہ شاید ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی کہ یہاں ہر جانب موزی جانور ہوتے ہیں۔
ہال میں بیٹھے کیپٹن اور انسپکٹر حیدر علی کے چہرے دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے جن کی آنکھوں میں فخر کے آنسوؤں کے مو

تی صاف دیکھے جا سکتے تھے۔

حصہ