شدید گرمیوں کے دنوں میں چیونٹیاں ایک روز دھوپ میں تپتی ہوئی جنگل میں اپنے لئے کھانے پینے کی چیزیں لے جارہی تھیں ۔ دوسری طرف درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں کچھ بڑے آرام کر رہے تھے ، باقی بیٹھے ہوئے اپنے موسیقی کے ساز بجا رہے تھے ۔ ایک بڑے نے چیونٹیوں سے پوچھا’’ نیک بختو ! تم اس شدید گرمی اور تپتی ہوئی زمین پر کیوں ماری ماری پھر رہی ہو ۔ ایک چیونٹی نے جواب دیا ‘‘ بھائی ٹڈے ! سردیوں میں ہمیں کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتی ۔ یوں بھی سردیوں میں گھر سے نکلنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے، اس لیے گرمیوں میں ہم بہت سی چیزیں جمع کر لیتی ہیں جنھیں سردیوں میں ہم اور ہمارے بچے آرام سے کھاتے ہیں ۔ “ اچھا تو تم سردیوں کی تیاری کر رہی ہو ، مگر اتنی جلدی کیا ہے ، ابھی تو سردیاں آنے میں بہت دن ہیں ۔ یہ تو آرام اور عیش کے دن ہیں ، ہمیں دیکھو، درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام کر رہے ہیں ، تم لوگ تو بیوقوف ہو ۔ ٹڈے نے چیونٹیوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا ۔ اچھا ابھی مزے اُڑا لو ، وقت آئے گا تو تمہیں پچھتانا پڑے گا ۔ چیونٹی نے غصے سے کہا ۔
چیونٹیاں شدید گرمی کے باوجو د محنت اور لگن سے کام کرتی رہیں اور اپنے اور اپنے بچوں کے لئے خوراک جمع کرتی رہیں۔
رفتہ رفتہ موسم بدلتا گیا گرمیاں گئیں برسات آئی اور گزر گئی۔ پھر سردیاں آگئیں اور شدید سردی پڑنے لگی۔ تمام کیڑے مکوڑے اپنے اپنے پلوں میں دبک کر بیٹھ گئے ۔ ادھر ٹڈے بہت پریشان تھے ۔ سردی میں جگہ جگہ پانی جم جاتا ہے ، کبھی کبھی برف بھی گر جاتی تھی اور برف کی وجہ سے گھاس بھی ختم ہوگئی ، ایسے میں اُنھیں کھانے پینے لے لئے کہاں سے ملتا ۔
ایک ٹڈے نے بُھوک سے نڈھال ہوتے ہوئے کہا’ ‘ ہائے میری تو
بُھوک سے جان نکلی جا رہی ہے دوسرا ٹڈا تو واقعی بُھوک کی
شدت سے بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اچانک ایک ٹڈے کو چیونٹی کا ہل نظر آیا اس نے جا کر زور دار دستک دی ” ہائے بی چیونٹی ، میں مرا ، مجھے کچھ کھانے کے لئے دو ۔“ ’’ جناب ٹڈے صاحب ! یاد کرو وہ گرمیوںکے دن جس دن تم ہمارا مذاق اُڑا رہے تھے، ہمیں بیوقوف کہہ رہے تھے ، جاؤ! اپنا وقت بے کار کاموں میں برباد کرو ۔ اب کھا کے کیا کرو گے ۔“
سبق ۔ بچو وقت ضائع نہ کریں اور اپنا کام وقت پر کریں ۔