جرائم کے اسباب و محرکات خاتمہ کیسے ہو….؟

568

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اور یہ دشمنی تاقیامت رہے گی۔ شیطان کی دوستی کا نتیجہ دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو ترغیباتِ نفس کے ذریعے نہ صرف اللہ اور رسولؐ کا باغی بناتا ہے بلکہ اپنے جیسے انسانوں کا قاتل اور دشمن بھی بناتا ہے۔ یہ جرم وہ براہِ راست شیاطین اور انسانوں کے ذریعے کراتا ہے۔ قرآن کی دو آخری سورتوں معوذتین میں تفصیل سے نہ صرف بیان ہوا ہے بلکہ اللہ سے پناہ بھی طلب کی گئی ہے۔ سورہ الناس میں ہے کہ ’’اے اللہ دل میں اٹھنے والے وسوسوں کے خناس سے اپنی پناہ میں لے لے جو چھپ کر دلوں میں جنوں اور انسانوں کے ذریعے وسوسہ ڈالتا ہے۔‘‘

یہ نظر نہ آنے والا شیطان انسانی آبادیوں میں لاتعداد انسانوں کو اپنا شاگرد بناکر اپنی کامیابی پر چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ کام کیسے کراتا ہے۔

ترغیباتِ نفس:
آدم علیہ السلام و حوّا کو بھی ترغیباتِ نفس کے ذریعے ہی جنت کے شجر ممنوع کو کھانے پر آمادہ کیا جس کے باعث انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔ آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان بھی یہی سبب بنا۔ قابیل نے ترغیبِ نفس سے مغلوب ہوکر عورت کے لیے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرڈالا جو اس کا حق نہیں بنتا تھا۔ یہ روئے زمین پر پہلا جرمِ کبیرہ تھا جو انسانی قتل کی صورت میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کے خلاف سر انجام دیا۔ اکثر جرائم نفس کی بے جا خواہشات کی وجہ سے ہی کیے جاتے ہیں جن میں لالچ، ہوسِ دنیا، احساس برتری، اَنا پرستی کا نفسانی غلبہ شامل ہیں۔

دنیا میں انسانی قتل و غارت گری اور جنگ وجدل صرف اور صرف اسی وجہ سے ہوئے۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
٭
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے واپسی پر فرمایا کہ ’’ہم اب جہادِ اصغر سے واپس ہوکر جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘

صحابہؓ نے دریافت کیا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جہادِ اکبر کیا ہے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اکبر ہے۔‘‘

بڑے موذی کو مارا نفَس امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا

نفس امارہ جو برائی کرنے کے لیے انسان کو ابھارتا ہے۔ نفسانی خواہشات کو قابو میں وہ لوگ رکھتے ہیں جن کے دلوں میں خوفِ آخرت ہوتا ہے، جو قبر اور حشر کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ جن اصحابِ رسول کو جنت کی بشارت ملی وہ پہلے سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے بن گئے۔ ورنہ آدمی شتر بے مہار کی طرح دنیا میں زندگی گزارنے لگتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے ہر طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ ایک خود احتسابی کا عمل ہے جو جرم کا سدباب کرتا ہے۔

جرائم کے فروغ کی دوسری وجہ ملک میں ظلم اور غیر منصفانہ نظام ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جہاں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور منصف طبقاتی فیصلے کرتا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک پھل ناجائز توڑ لے تو اس کے سپاہی پورا باغ اجاڑ دیں گے۔‘‘

ہمارا ملک انصاف کے معاملے میں دنیا میں 160 ویں نمبر پر ہے۔ عدلیہ، مقننہ، پولیس، انتظامیہ، حتیٰ کہ فوج جرائم کے سدباب میں اس لیے ناکام ہیں کہ یہ خود کسی نہ کسی سطح پر جرم میں ملوث ہیں۔

تیسری وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ ملک میں سیاسی افراتفری اور ریاستی اداروں میں بدعنوانی اور رشوت نے مہنگائی کو بے لگام کردیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے، بالخصوص نوجوان طبقہ چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری کی طرف مائل ہے۔ ہماری عدالتوں کا فرسودہ نظامِ انصاف عادی مجرموں کو بھی سزا دینے میں ناکام ہے۔ یہ بات بھی اب اظہر من الشمس ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے گھنائونے مقاصد کے لیے مجرموں کے بڑے بڑے گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ پولیس، بار اور بینچ کی ملی بھگت سے یہ مجرم بلاخوف ہر طرح کے جرائم کرنے میں آزاد ہیں۔ اسمگلر، ڈرگ مافیا، بھتہ خوروں کا گروہ، اسٹریٹ کرمنلز سب کے سب انتظامیہ ، پولیس اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں آزادی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرحوم دلاور فگار نے بالکل درست فرمایا ہے کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘

اب تو یہ بات بھی عام ہے کہ اپنے حق میں فیصلہ چاہیے تو وکیل کرنے کے بجائے جج کو خرید لو۔

اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے ادب بکتا ہے فن بکتا ہے
٭
ملاؤں کے سجدے بکتے ہیں پنڈت کے بھجن بک جاتے ہیں
دنیا میں چمن کی بکری کیا مُردوں کے کفن بک جاتے ہیں

اس کی سب سے بنیادی وجہ نصابِ تعلیم اور اساتذہ کا کردار ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ کسی ملک کو دیکھنا ہو تو اس ملک کے تعلیمی نصاب و نظام کو دیکھ لو۔ ہمارے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب نہیں ہے، کئی سطحی تعلیمی نصاب نے نسلِ نو کو قومی سوچ، اخلاقی اقدار، ملّی یکجہتی سے عاری کردیا ہے اور تعلیم کا مقصد حصولِ زر کے سوا کچھ نہیں رہنے دیا ہے۔ اساتذہ جو نسلِ نو کے معمار کی حیثیت رکھتے ہیں وہ بھی اپنے فرائضِ منصبی سے واقف نہیں، اور نہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں، جس کی وجہ سے طالب علم کے دل میں بھی اساتذہ کی قدر و منزلت اور عزت نہیں ہوتی جو کہ ان کا حق ہے۔

لہٰذا جب کوئی پڑھ لکھ کر کسی ادارے میں ذمہ دار بنتا ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے اور وہ اپنے اختیارات ہر جائز اور ناجائز طریقے سے استعمال کرکے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ بادی النظر میں وہ ایک معاشی بھیڑیا بن جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے ادارے کو درست کیے بغیر ملک سے جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ آج دنیا کے جس خطے میں جرائم کی شرح کم ہے وہاں قانون اور عدل کا مؤثر نظام موجود ہے۔ نیز وہاں تعلیمی نصاب قومی بیانیے پر مبنی ہے اور تعلیم قومی زبان میں دی جاتی ہے۔

یہ دور ہوائی ٹیکنالوجی یعنی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ہے۔ سرعت پذیر تبدیلیوں کا زمانہ ہے۔ انٹرنیٹ نے ہوشربا ترقی کے ذریعے ہر عمر کے انسان کے ذہن و سوچ اور اس کے دل و دماغ کو مسخر کرلیا ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک ہمارا انحصار پرنٹ میڈیا اور ٹیلی ویژن پر تھا، مگر اب سوشل میڈیا نے طلسماتی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس نے بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورت سب کو اپنا دیوانہ ہی نہیں بلکہ قیدی بنا لیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا اس قدر زود اثر ہے کہ یہ جو چاہتا ہے انسان سے کروا رہا ہے۔

یہ ایسی چڑیل کی صورت اختیار کرچکا ہے کہ انگلیوں کے اشارے پر پل بھر میں بھیس بدل کر اپنے دیکھنے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ آج اس شیطانی ایجاد نے ہر طرح کے جرائم کا نہ صرف ہنر سکھانے اور اس کے ارتکاب کا طریقہ بتانا شروع کردیا ہے بلکہ اس میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک Digitalize ہوچکے ہیں بلکہ عسکری فتوحات کا دار و مدار اس سے منسوب ہوگیا ہے۔ آج یہ جہاں ابلاغ کا سرعت پذیر ذریعہ ہے وہیں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا آلہ بھی بن چکا ہے۔ کاروباری فراڈ سے لے کر جنسی حیوانیت، قتل و غارت گری سے لے کر اغوا برائے تاوان تک کے جرائم اس سوشل میڈیا کے ذریعے کیے جاسکتے ہیں اور کیے جارہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ برائی جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے اور بھلائی پہاڑ کے اوپر چڑھنے کی مانند ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس سے ہر اچھے کام، نیکی کا ابلاغ، حتیٰ کہ کاروباراور بینکنگ سسٹم سے لے کر تمام تر مشینری حرکت کا انحصار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت ہے۔ لہٰذا مجرم بھی اس کا استعمال بڑے پیمانے پر کرتے ہیں اور بینکوں کا صفایا کردیتے ہیں۔ جہاں حکومتیں فعال ہیں اس پر کنٹرول رکھتی ہیں اور اس کو نہ صرف filter کرتی ہیں بلکہ جرائم کو فروغ دینے والی Sites کو بند بھی کردیتی ہیں۔ ایک اور جدید ٹیکنالوجی ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کی ایجاد ہو چکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ کیا حشر برپا کرنے والی ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

حصہ