اب ظلم برداشت نہیں ہوگا

368

”خیرو بھائی السلام علیکم۔ کیا حال ہیں؟“
”خیریت ہے۔ تم سناؤ کہاں چلے؟“

”جانا کہاں ہے، بازار گیا تھا، وہیں سے آ رہا ہوں۔ تم سناؤ خیرو بھائی! آج تو چارپائی باہر نکال لی ہے، خیر تو ہے؟ کیا آج میدان میں ہی سونے کا ارادہ ہے؟“

”ہاں بابا، آج باہر ہی سوئیں گے۔“

”نہ نہ خیرو بھائی، آپ مہمان ہیں، گھر میں آرام کریں۔“

”ارے کیسا مہمان! جس دن سے کراچی آیا ہوں اُس دن سے سوائے بجلی بند ہونے کے کچھ نہیں دیکھا، گھنٹوں بعد بجلی آتی ہے، جیسے ہی لیٹنے لگتا ہوں پھر چلی جاتی ہے۔ عجیب مذاق چل رہا ہے۔ تمہارے شہر سے اچھا تو ہمارا گوٹھ ہے جہاں کم سے کم پنکھا تو چلتا ہے۔ ہم تو مہمان ہے، چلا جائے گا، بلکہ کل صبح ہی چلا جائے گا، لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس بدترین لوڈشیڈنگ میں تمہاری زندگی کیسے گزرتی ہے! خدا کی پناہ، یہاں رہنا تو کسی عذاب سے کم نہیں۔“

”خیرو بھائی! ابھی دو دن قبل ہی آئے ہو، کچھ دن تو رہو پھر چلے جانا۔ کراچی شہر گھومو پھرو۔ بجلی کا کیا ہے، زندگی تو گزر رہی ہے نا۔“

”تمہاری زندگی گزر رہی ہوگی، ہماری نہیں گزرتی- دیکھتے نہیں کتنا گرم موسم ہے، آگ برس رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں بھلا کون گھر سے نکل سکتا ہے! ایسے میں دوپہر گھروں میں کاٹی جاتی ہے، لیکن تمہارے شہر میں تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر بھی تندور بنے ہوئے ہیں، اس شہر سے تو ہمارا گوٹھ اچھا ہے جہاں بجلی جانے کا کوئی غم نہیں۔ اگر کبھی کسی خرابی کے باعث بجلی بند ہو بھی جائے تو ہم اپنی چارپائیاں درختوں کے نیچے لے جاتے ہیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لیتے ہیں۔ بس بس ہم نے سوچ لیا ہے کہ اب یہاں نہیں رکنا، صبح ہوتے ہی پہلی گاڑی سے نکل جانا ہے۔“

”اچھا خیرو بھائی، اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو چلے جانا۔ میری تو خواہش تھی کہ کچھ دن اور رک جاتے۔“

”تمہاری بڑی مہربانی، خدا تمہیں اور دے۔ میں ضرور رک جاتا لیکن یہاں پر ہونے والی بدترین لوڈشیڈنگ نے مجھے واپس جانے پر مجبور کردیا ہے۔“

”ٹھیک ہے خیرو بھائی، تم آرام کرو، صبح ملاقات ہوگی۔“

خیرو بھائی تو اپنے جذبات کا اظہار کرکے صبح پہلی گاڑی سے ہی گوٹھ واپس چلے گئے لیکن مجھے سوچنے پر مجبور ضرور کرگئے کہ کراچی جیسا بین الاقوامی شہر لوڈشیڈنگ کے باعث کسی گوٹھ گاؤں سے بھی بدتر ہوچکاہے، بلکہ صدیوں پرانا مائی کولاچی گوٹھ بن چکا ہے۔ کراچی شہر کے بارے میں جو کچھ بھی خیرو بھائی نے کہا میرے دل پر تیر کی طرح پیوست ہے، لیکن میری مجبوری ہے کہ اُن کی کسی بھی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ظاہر ہے حقائق تو یہی ہیں کہ کبھی گیس تو کبھی آئل کی کمی کے نام پر، یا پھر بجلی کی چوری کا بہانہ بناکر شہر کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، بلکہ بعض علاقوں میں تو کئی کئی گھنٹوں کے لیے تکنیکی خرابی کے نام پر بجلی کی فراہمی معطل کردی جاتی ہے، جس سے نہ صرف بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کردیا جاتا ہے بلکہ پانی کا بحران بھی خوفناک حد تک جنم لے لیتا ہے۔ اس مرتبہ بھی موسم گرم ہوتے ہی کراچی کے بیشتر علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بے رحمی کے ساتھ جاری ہے، کئی علاقوں میں تو رات رات بھر بجلی بند کی جارہی ہے۔ لیاقت آباد، نارتھ کراچی، گلستانِ جوہر، نئی کراچی، کھارادر، لیاری، لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، ملیر، گلشن اقبال اور فیڈرل بی ایریا کے مختلف علاقوں سمیت پورے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے سبب شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، درجہ حرارت38 سے 40 ہونے کے باوجود یہاں 9 سے 11 گھنٹے تک بجلی معطل رہتی ہے، جبکہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے ”کے الیکٹرک“ کی جانب سے شہریوں کو ایک پیغام بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کے علاقے کی بجلی فرنس آئل کی کمی یا مینٹی نینس کی وجہ سے بند رہے گی۔ یہاں کے رہنے والے رات دن اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ سے بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار سب پریشان ہیں۔ پہلے ہی لوگ انتہائی معاشی تنگی کا شکار ہیں، روزگار بند ہوچکے ہیں، اس پر اِس ادارے کی جانب سے اووربلنگ بھی کی جارہی ہے، لوگ فاقے کررہے ہیں، جب کہ کے الیکٹرک ہزاروں اور لاکھوں روپے کے بل بھیج رہی ہے۔ لوگ قرض لے کر اور گھر کا سامان بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، بلکہ اب تو نوبت خودکشی تک آگئی ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے! ایک تو بجلی نہیں، اوپر سے اضافی بلنگ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسی صورت میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ کس سے فریاد کریں،کس سے منصفی چاہیں! نیپرا اور حکمرانوں کی جانب سے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور زائد بلنگ پر ”کے الیکٹرک“ کو جاری کردہ نوٹس کے بارے میں تو ہمیشہ سنتے رہتے ہیں، لیکن کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں۔ ایسے نہ جانے کتنے نوٹس اور کتنی باتیں ماضی میں ہوچکی ہیں مگر اس ادارے کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ نوازشریف دور میں بجلی کے بحران پر قابو پانے یا یوں کہیے کہ ملک سے بجلی کی قلت کو دور کرنے کےلیے خاصا کام کیا گیا، بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے جس سے ملک میں کئی کئی گھنٹے ہونے والی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا اور بجلی کے نرخ بھی خاصے کم تھے۔ لیکن ان کے د۔ور میں بھی ”کےالیکڑک کا قبلہ درست نہ ہوا، ملک سے بجلی کا بحران ختم کرنے والی نواز حکومت بھی اس ادارے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ”کے الیکٹرک“ ایک مافیا کی طرح لوگوں کی زندگی چھینتا جارہا ہے اور اس سے پوچھنے اور اسے سزا دینے والا کوئی نہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ نہ جانے کتنے ہیٹ اسٹروک آئے، نہ جانے کتنی بارشیں برسیں جن میں درجنوں بے گناہوں اور معصوم عوام کی جانیں گئیں، نہ جانے کتنے لوگ اس مافیا کے ستم کا شکار ہوئے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، کوئی سنوائی نہ ہوئی۔مجھے یاد ہے بلکہ ہر شخص خوب جانتاہے کہ گزشتہ سال کراچی میں مون سون بارشوں نے تباہی مچادی تھی اور دو ہفتے میں 33 کے قریب افراد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے تھے،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،جب کہ کرنٹ لگنے سے کئی علاقوں میں قربانی کے جانور بھی ہلاک ہوئے، جس کے بعد ”کے الیکٹرک“ کے خلاف رجسٹرڈ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 تک پہنچ گئی تھی۔ ”کے الیکٹرک“ کی لاپروائی اور غیر ذمہ دارانہ عمل نے نہ جانے کتنی ماؤں سے ان کے لختِ جگر چھین لیے، کتنے معصوم بچوں سے ان کے ماں،باپ کا سایہ چھین لیا۔ اسی طرح 2015ء کے ہیٹ اسٹروک کو یاد کیا جائے تو اُس میں بھی کراچی کے عوام کو اسی ادارے کی نااہلی کے باعث شدید گرمی کے موسم میں ہزاروں لاشیں اٹھانی پڑی تھیں۔ اُس وقت بھی بجلی نہ ہونے کے باعث لوگ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے تھے اور صورتِ حال اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ جنازے گھروں میں رکھنا ناممکن ہوگیا تھا، جس کے باعث کراچی کے شہریوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں سرد خانوں میں رکھوانی پڑیں، یہاں تک کہ سرد خانوں میں بھی جگہ نہ تھی۔

”کے الیکٹرک“ کا یہ بھی وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی نااہلی چھپانے کےلیے ہمیشہ بجلی کی بندش کا ذمہ دار گرم اور مرطوب موسم کو ٹھیراتا ہے، بجلی کی طلب و رسد کا رونا روتا ہے، جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایک پڑھا لکھا شہری خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ ”کے الیکٹرک“ ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرکے لوگوں سے نہ صرف نائز طور سے پیسے بٹور رہا ہے بلکہ مال کمانے کے لالچ میں انسانی زندگیاں تک نگلتا جارہاہے، یہ اتنا مضبوط مافیا ہے کہ ماضی میں اس محکمے نے سارے شہر سے تانبے کے تارے اتار کر اس کی جگہ انتہائی ناقص سلور کے تار نصب کردیے۔ یوں اعلیٰ قسم کے تانبے کی مد میں اربوں روپے کی ڈکیتی ماری گئی۔ عوام کی جیبوں پر اگلے مرحلے میں میٹر کی تبدیلی کے نام پر ڈاکہ مارا گیا، اس طرح اربوں روپے مزید کمائے گئے۔ خالص تانبا کہاں گیا؟ اس کے پیسے کن کی جیبوں میں گئے؟ کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ نصب کیے گئے میٹروں کی رفتار کیا ہے؟ ان میں کیا خرابی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے والے گھر میں پانچ ہزار سے سات ہزار کے درمیان بل بھیجا جاتا ہے، شکایت کرنے پر وہی پرانا گھسا پٹا جواب دیا جاتا ہے کہ ”یہ بل تو آپ کو ادا کرنا ہوگا“۔ اس محکمے نے لوگوں کو ناجائز طور پر اس قدر مقروض کردیا ہے کہ لوگ اپنے گھر تک بیچنے پر مجبور ہیں- ظاہر ہے بیس سے پچیس ہزار روپے ماہوار کمانے والا شخص کس طرح پندرہ سے بیس ہزار روپے کا ناجائز بل ادا کرسکتا ہے! یہی وہ ناانصافی اور ظلم ہے جو عوام کو ایسی راہ کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، یعنی تنگ آمد بجنگ آمد۔ ایسے حالات لوگوں کو انقلابی راستے پر گامزن کردیا کرتے ہیں۔ پھر ایسا انقلاب آتا ہے جو اپنے سامنے آنے والوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسا انقلاب جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی نہ ٹھیر سکے۔ اب جبکہ اس مافیا سے کیا جانے والا معاہدہ ختم ہوچکا ہے، میرے نزدیک وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس ادارے کا احتساب کیا جائے۔ اس کے لیے کراچی کے شہریوں کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سڑکوں پر آنا ہوگا، اس غیر منصفانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، ایسے ادارے کے خلاف تو ضرور نکلنا ہوگا جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔ تو آئیے اس مردِ مجاہد حافظ نعیم الرحمٰن کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ناجائز بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں شریک ہوں جو خالصتاً عوامی مسائل ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ”ہم قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے، کے الیکٹرک کے عملے کو عوام کے ساتھ مت لڑائیں،15 دن تک کراچی میں کےالیکٹرک کی کوئی گاڑی میٹر کاٹنے نہیں آنی چاہیے، عملے اور عوام کو لڑا کر مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ”کےالیکٹرک 800 ارب کا نادہندہ ہے لیکن اس کا لائسنس منسوخ نہیں ہوتا، کراچی کا شہری ایک ماہ کا بل اد انہ کرے تو اس کا کنکشن کیوں کاٹا جاتا ہے؟بجلی کے بل میں 7.50 اضافہ فوری طور پر واپس لیا جائے،بجلی کے بل پر جتنے بھی غیرمنصفانہ ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ سارے ختم کیے جائیں، کراچی میں رہنے والا بہت بڑاطبقہ کرائے کے گھروں میں ہے،فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر کراچی کے عوام سے اربوں لوٹے گئے اور لوٹے جارہے ہیں جس کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، اب ظلم برداشت نہیں ہوگا، کےالیکٹرک کی اجارہ داری اب کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، جو لوگ معاشی اعداد و شمار پر لیکچر دیتے ہیں وہ سن لیں دانشورانہ سوچ اور باتوں سے بھوکے کی بھوک ختم نہیں ہوسکتی،جن کی 25 ایکڑ سے زائد زمین ہے ان سے بھی ٹیکس لیا جائے، جبکہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایک ہزارسی سی گاڑی استعمال کریں۔ وزرا، مشیر اور افسران کے لیے بھی ہزار سی سی گاڑی کا انتخاب کریں۔“

یہ تو ہیں حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے عزائم، جنہیں سن کر لگتا ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جوکہ اب دور نہیں جب روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں میں ڈبو دینے اور ناجائز طور پر واجبات کے نام سے بھتہ وصول کرنے والے ادارے”کے الیکٹرک“ سے عوام جلد ہی خود حساب لیں گے۔

حصہ