دو دہائی قبل اس نئی صدی کے آغازمیں ہی اسلام اور اسلام کے شعائر کے ساتھ تعصب دنیا میں بڑھتا چلا گیا ، حجاب ،داڑھی،ٹوپی، مسجد کے مینار غرض ہر وہ چیز جو اسلام کے ساتھ وابستہ تھی ،اس کو نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔یورپ میں 2 ستمبر 2003 سے ایک گز کا کپڑے کا ٹکڑا اتنا طاقتور بن گیا کہ کبھی اس کے خلاف قوانین بنائے گئے، کبھی عدالتوں میں بحث کا نشانہ بنا اور کبھی اس کی خاطر مسلمان عورتوں نے اپنی شہریت چھوڑی اور حتیٰ کہ جان کی قربانی بھی دی گئی۔ایسے میں جولائی 2004 میں لندن کے مئیر لونگ اسٹون نے دنیا بھر کے علماء کو ایک کانفرنس میں دعوت دی اور علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں پہلی دفعہ 4 ستمبر 2004 کو عالمی یومِ حجاب منانے کا اعلان کیا گیا۔
پاکستان سے اس حجاب تحریک کی سرپرستی حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی اور قاضی حسین احمد ؒ نے معاشرے کے تمام افراد کو لے کر اس دن کو معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا۔ میڈیا نے بھی ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور پاکستان کے بیشتر چھوٹے بڑے اخبارات نے اس دن خصوصی ایڈیشنز نکالے۔
ہر سال ہم یومِ حجاب کو عورت کے تحفظ کی علامت کے طور پر مناتے ہیں۔ اب جبکہ پوری انسانیت کی ترقی کا راز ایک نظرنہ آنے والے جرثومے نے فاش کردیا ہے۔ تمام دنیا جیسے رک گئی ہے اور مسلمان عورت کے نقاب کو جس طرح نشانہ تضحیک بنایا گیا،
اس کا جواب پوری انسانیت کو ماسک پہنا کر دے دیاگیا ہے۔ اس آزمائش کے بعد کوئی مسلمان عورت کو حجاب و نقاب کی وجہ سے تعصب اور تمسخر کا نشانہ نہیں بنا سکے گا۔
اس لیے عالمی یومِ حجاب کی مناسبت سے سیاسی و سماجی تنظیموں اور دانش گاہوں کے زیر اہتمام
’’ تہذیب ہے حجاب ‘‘
Hijab: Beyond attires and forms!
کے عنوان سے ستمبر میں مہم منائی جا رہی ہے۔
قرآن و سنت میںحجاب کے ا حکام کا آغاز مردوں سے مخا طب ہو کر ہو تا ہے ا سکا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں جو حجاب کو صرف لباس خصو صا عورت کے لباس سے وا بستہ کیا گیا ہے اس سے آگے کی سو چنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے سورۃ ا لا حزاب میں پہلے مردوں سے مخا طب ہو تے ہو ئے فر ما یا:
اے لوگو جو ا یمان لائے ہو،نبیﷺکے گھروںمیںبلا ا جازت نہ چلے آیا کرو۔نہ کھا نے کا و قت تا کتے ر ہو۔ہاں ا گر تمہیں کھانے پر بلا یا جا ئے تو ضرور آؤ مگر جب کھا نا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ۔ با تیں کرنے میں نہ لگے ر ہو۔ تمہاری یہ حر کتیں نبیؐ کو تکلیف د یتی ہیںمگروہ شرم کی و جہ سے کچھ کہتے نہیںنبیؐاور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شر ما تا۔نبی ؐکی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ ما نگنا ہو تو حجاب کے پیچھے مانگا کرو۔یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پا کیز گی کے لیے ز یادہ منا سب طر یقہ ہے۔تمہارے لیے یہ ہر گز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ کو ہر بات کا علم ہے ۔ ( الا حزاب 33:53)
اس کے بعد سورہ نور میںبھی آ یات حجاب کا آ غاز مر دوںسے مخا طب ہو کر ہو تا ہے۔
ــ’’ اے نبیؐ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر ہے ۔( النور ۲۴: ۳۱)
’’ اور اے نبی ؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں‘‘
( النور ۲۴ : ۳۲)
ان واضع ہدا یات کے ہو تے ہوئے ہمیں یہ سو چنا چا ہیے کہ حجاب صرف ایک کپڑا ہی نہیں ا یک پورا نظام ہے۔ ایک پوری تہذ یب ہے۔ا للہ رب العالمین نے ا پنی کتاب ہدایت میں اس پورے نظام کی تفصیلات اور جزیات بیان کی ہیں۔
نبی کر یم ﷺ کے فرمان کے مطا بق ہر د ین کا ا متیازی و صف ہو تا ہے اور ا سلام کا ا متیازی و صف حیا ہے ۔حجاب حیاسے ہے۔حجاب کو صرف لباس سے نتھی کر نااس کے پورے معا نی سے بے خبری ہے۔ہمارے خیالات ،ہماری آرزو ئیں، ہمارے خواب، ہماری عادات اور ہماری ا قدار کو اس حجاب کی تہذیب سے آراستہ ہونا چا ہیے۔ اس وقت جب اسلامو فو بیا اور فیمنزم کی اصطلاحات کے غبار میں حجاب کو بھی گرد آلودکیا جارہا ہے ۔ مسلمان عورت کو ۱متیازی سلوک کا نشانہ بھی بنا یا جا رہا ہے۔ہمیں د نیا کو حجاب ا ور پردے کے مفہوم سے آشنا کرانے کی ازحد ضرورت ہے۔ ایسے میں میرے عز یز عبد المنعم نے نواب آف بھو پال سلطان جہان بیگم کی ا یک اہم کتاب
Or Why Purdah is Necessary Al-HIJAB
ارسال کی ۔ا س کو د یکھ کر تو پہلے تو سلطان صاحبہ کی معلو مات کیں کہ ا یسی خاتون حکمران جس نے بھوپال پر 1901 سے 1926 تک پون صدی حکمرانی کی۔اورا پنی حکومت میں خوا تین کے مقام کو مستحکم کر نے کے لیے بڑے ا قدامات کیے۔ان کی تعلیم پر زور د یا۔انکے دورحکو مت میںصحت کے محکمے اور خصوصا ویکسی نیشن اور نکا سی کے نظام پربڑی تو جہ مر کوز رکھی گئی۔
وہ ایک ایسی خاتون تھیں جن کو بھوپال کی بیگمات میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا ۔ وہ اس زمانہ میں یورپ کے حکمرانوںسے رابطہ میں تھیں اور برطانوی شاہی خاندان سے ذاتی مراسم رکھتے ہوئے مغربی تہذیب سے پوری آگہی رکھتی تھیں ۔ ان سب معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1922ء میں انہوں نے حجاب پر یہ خوبصورت کتاب لکھی ۔آج کے دور میں اس کے مندرجات پر تحقیق ہونی چاہیے کہ اعلیٰ طرز حکمرانی کے باوجود ایک خاتون اپنی تہذیب اور اقدار پر کس طرح فخر کرتی ہے اور پردے کو کس طرح نظام کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔امور مملکت کو عمدہ طرز پر چلانے کے ساتھ ساتھ انہیں حجاب سے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ اس پر اس دور میں انگریزی میں پوری کتاب تحریر کردیتی ہیں۔ ابتدائیے میں ہی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ دورِ جدید میں پردے اور حجاب کورجعت پسندی سمجھتے ہوئے یا تو جدید دور کے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا جا رہا اور یا اس سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی اقدار سے بغاوت کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ آج ایک ایلیٹ سوسائٹی اور اس میں نور مقدم کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل نے جہاں اس معاشرے کے بھیانک چہرے سے نقاب نوچ کر اتار پھینکا ہے وہیں اس کتاب کی اہمیت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ اس کتاب کو ہماری دانش گاہوں میں تحقیق کے لئے اورحکمت عملی کو ترتیب دینے کے لئے ضرورپڑھنا چاہیے۔
اپنی تہذیب پر فخر وانبساط کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے لیے اپنی مخالف قوتوں کے مورچوں کی نشاندہی بھی بڑی ضروری ہے ۔ ہماری عورتوں کو لبرلزم ، فیمینزم ، آزادی، مساوات اور حقوق کے دلفریب نعروں میں اپنی اقدار سے بغاوت پر آمادہ کیا جا رہاہے۔ اسلامک فیمینزم کی نئی اصطلاح پر کام کیا جاتا رہاہے ۔2002ء تا 2007ء کے درمیان پارلیمنٹ کی رکن ہوتے ہوئے بہت سی دستاویزات کا مطالعہ کرنے کو ملا ایک رپورٹCivil Democratic Islam Partners, Resources and strategies جو کہ ایک امریکی تھنک ٹینک Rand corporation نے 2004ء میں مرتب کی تھی ۔ میرے والد قاضی حسین احمد نے اسے پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا تھا اور مجھے بھی اس کی ایک کاپی دی تھی محترم انصار عباسی صاحب نے بھی اب اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو چار حصوں Tarditionlist, Fundamentalist، Secularists اور Modernists میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر پالیسی سازوں کو اپنے مطلب کے لوگوں کی پشت پناہی کرنے کو کہا ہے اور ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو اسلام سے دور نہیں کیا جا سکتا تو Change the face of Islam
اس لئے اسلام کا چہرہ ہی بدل دو اوراس کے لئے انہوں نے ان لوگوں کو دین سمجھانے اور سکھانے پر لگا دیا جو خود نہ دین پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہ کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔حجاب کا معاملہ بھی اسی طرح سے جدیدیت اور انسانی حقوق کے بالقابل سمجھا گیا۔ پردے اور حجاب پر نت نئی حاشیہ آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
نور مقدم کیس سے لے کر معصوم بچی رضوانہ اور سندھ کی بیٹی فاطمہ تک ملک کے چاروں صوبوں میں وحشت اور درندگی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ اس دفعہ ایسی ہی سوگوار فضا میں 4ستمبر عالمی یوم حجاب بھی آ رہاہے۔ کیا حجاب محض ایک ڈیڑھ گز کپڑے کے ٹکڑے کانام ہے ؟؟ نہیں ہرگز نہیں۔ حجاب ایک نظام عفت و عصمت ہے ۔ حیا کاچلن ہے۔
حجاب ایک پوری تہذیب کانام ہے ۔ اخلاق اور کردار کو سنوارنے کا نام ہے۔ گذشتہ دنوںاسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے محترم چیئرمین پروفیسر ڈاکٹرقبلہ ایاز صاحب نے بہت اہم طرف توجہ دلائی کہ ہم نے نوجوان نسل کو تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے مواقع فراہم کردیئے ہیں مگر اُن کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی طرف سے غفلت برت رہے ہیں۔ جس کے اثرات بہت بھیانک ہوں گے اور ہم یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں اس بے حجابانہ طرز زندگی کا بھیانک انجام دیکھ رہے ہیں۔
لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں سرعام ایک لڑکی کو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کی پیشکش کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی اس کا افسوسناک انجام بھی اب منظر عام پر آگیاہے۔ پے درپے افسوسناک واقعات کاسلسلہ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ کراچی کے ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں سرعام ہم جنس پرست لوگوں کا جھنڈا ایک گھر پر لہرا رہاہے اور دوسری طرف اسلام آباد کی اہم شاہراہ پر قائد کے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے زریں اصولوں کے نیچے ایک اخلاق باختہ جوڑا اُن کا منہ چڑاتا ہوا فوٹوشوٹ کروا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیے ہوئے ہے۔ ہم اگر معاشرتی طور پر اپنی اقدار کی حفاظت نہ کرسکے تو بہت جلد تباہی کاشکار ہوجائیں گے۔
حجاب کی تہذیب اور خاندان کے ادارے کے استحکام کی وجہ سے ہم ابھی تک اپنی اقدار پر فخر کرتے رہے ہیں مگر تہذیبی یلغار نے ہمیں اپنی اقدار سے غافل کردیا ہے۔ خاندان، معاشرے اور ریاست کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہم ستون کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرناہوگی ورنہ سب کچھ اس سیلاب میں بہہ جائے گا۔ ان واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے تنازعہ کاسبب بننے والے گھریلو تشدد بل کے مندرجات پر بھی ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بل کی کچھ شقوں کی مخالفت کرنے کاہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم گھریلو تشدد کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس قانون کاگہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نور مقدم جیسی بچیوں کاظاہر جعفر جیسے درندوں سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ خاندان کا ادارہ مستحکم ہو۔ والدین اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہوں۔ معاشرے میں نشہ آور اشیاء کی فراہمی بند ہو۔ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی اخلاق باختہ روش کے سامنے بند باندھا جائے اور اس کو معاشرے میں ناپسند یدگی کادرجہ دیاجائے۔ شرم و حیا کے کلچر کو فروغ دیاجائے۔ اس بل کے مندرجات میں ایک شق یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کوبھی روک ٹوک نہیںکرسکتے اور زوجین ایک دوسرے کا خیال نہیںکرسکتے۔ ( ایک لفظ Stalking) پر بڑا سخت اعتراض ہے کہ کیا والدین اپنے بچوں کاتعاقب نہیںکریں گے ۔ ہم تو اس بڑھاپے میں بھی اپنی والدہ کو پل پل کی رپورٹ دیتے ہیںکہ اس وقت یہ کررہی ہوں اور اس وقت ادھر ہوں۔ ایک دفعہ تھوڑا دیر سے پروگرام ختم ہوا تو اس عمر میں بھی بڑی ڈانٹ پڑی اور ماں باپ کی تربیت نہ ہو تو پھر تو آوارہ نسل ہی پروان چڑھے گی ۔ جس کی نہ کوئی اقدار ہوں گی اور نہ کسی جگہ جوابدہی کااحساس ۔
گھریلو تشدد کو ضرور روکناچاہیے۔ سختی سے ختم کرنا چاہیے مگر ایسا طریق کار ہرگز تجویز نہ کیا جائے کہ والدین اپنے بچوں کو کنٹرول نہ کرسکیں اور میاں بیوی ایک دوسرے کی حفاظت نہ کرسکیں۔ قانون اور رویے ایسے بنائے جائیں کہ کوئی اور نور مقدم ، کوئی رضوانہ ، کوئی فاطمہ ظلم کا شکارنہ ہو اور نہ ظاہر جعفر اور اسی قبیل کے درندے پیدا ہوں۔تہذیبوں کی موجودہ کشمکش میں مغرب کی غالب تہذیب نے عورت کے وجود کو ہتھیار کے طورپر استعمال کیا ہے۔ کھربوں ڈالر کی انڈسٹری اس کے وجود سے وابستہ ہے۔ جنس سے لے کر فیشن تک اور حجاب کی تہذیب اس کھربوں ڈالر کی انڈسٹری کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتی ہے۔
1996ء میں انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کے قیام کے وقت پاکستان سے میں نے اور ترکی سے مروہ قواقچی نے اس میں بنیادی ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1999ء میں جب وہ ترکی کی پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی اور اپنے سر کو اسکارف میں لپیٹ کر ایوان میں داخل ہوئیں تو سیکولر ترکی میں ایک بھونچال آگیا اور اس وقت کی بلندایجوت کی حکومت نے اس پر ایوان کے دروازے بند کردیئے۔ سیکولرحکومت مشتعل ہوئی اور مروہ کی پارلیمنٹ کی رکنیت تو کیا لڑکی کی شہریت بھی ختم کردی اور اسے جلاوطن کردیاگیا۔ مروہ نے ہمارے ساتھ IMWUمیں کام جاری رکھااور امریکہ میں سیاسی پناہ لے لی ۔ قدرت نے بھی مروہ کی قربانیوں کا خوبصورت انعام ایک بہت لائق بیٹی فاطمہ ابو شناب کی صورت میں دیا۔اس نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر اسکار ف کو اپنا اعزاز بنایا اور آج کل ایوان صدر میں کام کررہی ہے۔ مروہ ملائیشیا جیسے اہم ملک میں ترکی کی سفیر کے طور پر ذمہ داری ادا کرتی رہی ہیں۔
کچھ سال پہلے میں یواین کے اجلاس میں شرکت کے لیے یواین کی بلڈنگ کے باہر اپنے سفید برقعے میں کھڑی تھی۔ ایک شخص آیا اور بڑے احترام سے سینے پر کراس کا نشان لگا کر کھڑا ہوگیا کہ آپ کا لباس بالکل Mother Maryجیسا لگ رہاہے۔ کچھ عرصہ پہلے گلگت بلتستان میں بھی ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ وہاں ایک اخلاق باختہ پارٹی منعقد کی گئی جس پر وہاں کے باشندوں نے سخت احتجاج کیا اور اپنی اہم شاہراہ پر بل بورڈ آیزاں کیا۔ حجاب ہماری تہذیب ہے ۔ اس کا احترام کرکے ’’اپنے احترام میں اضافہ کیجیے۔ ‘‘
آئیں اس دفعہ عالمی یوم حجاب کو اس عزم کے ساتھ منائیںکہ حجاب کو صرف ایک گز کا ٹکڑانہیں سمجھنا ، نہ ہی اسے صرف عورت سے وابستہ کرنا ہے۔ نہ ہی اسے لباس سے وابستہ کرنا ہے ۔ قرآن و سنت میں حجاب کے احکام کاآغاز مردوں سے مخاطب ہو کر ہوتاہے۔ حجاب تہذیب ہے۔ اسے خاندان، معاشرے اورریاست میں محبت ،احترام ، وقار ، ایثار ، قربانی اور حفاظت کے رویوں سے پروان چڑھانا ہے۔ 4ستمبر2004ء کونقاب پر پابندی پر احتجاج کے لیے یہ دن مناناشروع کیاگیا۔ مگر آج ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی درندگی نے اس دن کی اہمیت کئی گنا بڑھا دی ہے ۔ آئیں اپنے معاشرے کو ہر قسم کے تعصبات وہشت و سفاکیت سے محفوظ کرکے اپنے لوگوں کو حقوق اور شعور کی آگہی دیں۔ معاشرے کو محفوظ بنائیں ، حجاب کو انقلاب کااستعارہ بنا کر رویوں ، اخلاق اور کردار میں تبدیلی لاکر اسے تہذیب کی علامت بنا دیں ۔
حجاب کی تاریخ ، مذہب کی تاریخ ہے
کیونکہ جب سے مذہب کی شروعات ہوئی ہے
تہذیب کا آغاز ہوا!!
بس تبھی سے حجاب شروع ہوا
ہر مذہب میں حجاب کا انداز الگ رہا ہے
لیکن مقصد ایک ہے!!
آج بھی جہاں مذہب ہے
وہاں حجاب ہے، جہاں حجاب ہے
وہاں تہذیب ہے ، حجاب تہذیب ہے۔
تہذیب ہے حجاب