قیصرو کسریٰ قسط(117)

307

عاصم نے غور سے عمر رسیدہ آدمی کی طرف دیکھا اور تذبذب سا ہو کر بولا۔ ’’آپ کو ایک قیدی کی یادداشت کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔ اب میرے دل میں صرف اپنے آلام و مصائب کی یاد باقی رہ گئی ہے‘‘۔

عمر رسیدہ آدمی نے کہا۔ ’’میرا نام مہرداد ہے۔ اور تم ایک قیدی نہیں ہو‘‘۔

عاصم چند ثانیے بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ پھر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ اور تشکر کے جذبات اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آنسو بن کر چھلکنے لگے۔

مہرداد نے کہا۔ ’’تم آزاد ہو اور قید خانے کے دروازے پر ایک گھوڑا تمہارا انتظار کررہا ہے‘‘۔

عاصم نے ساسان کی طرف دیکھا اور لرزتی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ ’’کیا میں سچ مچ آزاد ہوں؟ـ‘

’’ہاں تم آزاد ہو۔ مدائن کے اکابر کا جو وفد قیصر کے پاس گیا تھا۔ وہ صلح کی شرائط طے کرنے کے بعد واپس آگیا ہے۔ اور میں اس کی واپسی کی اطلاع ملتے ہی مدائن پہنچ گیا تھا۔ میرا اولین مقصد شہنشاہ کے سامنے تمہاری رہائی کا مسئلہ پیش کرنا تھا۔ لیکن مجھے ان کی خدمت میں پیش ہونے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ شہنشاہ سے تمہاری رہائی کا فرمان ایک ایسے بزرگ نے حاصل کیا ہے جو اس وفد کے ساتھ گیا تھا‘‘۔

ساسان نے یہ کہہ کر میز سے ایک کاغذ اُٹھایا اور عاصم کے ہاتھ میں دے دیا۔

عاصم نے تشکر آمیز نگاہوں سے ساسان کی طرف دیکھا اور پھر مہرداد کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ بزرگ کون ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں‘‘۔

مہرداد نے جواب دیا۔ ’’میں اگر کوشش نہ کرتا تو بھی چند دنوں یا چند ہفتوں تک تمہاری رہائی یقینی تھی مجھے صرف اس بات کا فسوس ہے کہ اس سے قبل تمہارے حال پر توجہ دینے کا موقع نہ ملا‘‘۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’آپ ان رومیوں سے ملے تھے جو سین کے ساتھ دست گرد آئے تھے؟‘‘

’’نہیں‘‘ ان میں سے کسی کے ساتھ میری واقفیت نہیں تھی‘‘

’’آپ سے کسی رومی نے بھی میرے متعلق نہیں پوچھا؟‘‘

’’نہیں‘ وہاں کسی نے تمہارا ذکر نہیں چھیڑا۔ جب ہم قیصر کے پڑائو میں داخل ہوئے تھے تو وہاں فتح کی خوشیاں منائی جارہی تھیں‘‘۔

عاصم کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ ساسان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ تمہارے رومی دوستوں نے تمہیں فراموش کردیا ہے۔ اتنی عظیم فتوحات کے بعد لوگ اپنے ماضی کے دوستوں اور ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں‘‘۔

عاصم نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ اگر میرے دوستوں میں سے کوئی قیصر کے ساتھ ہوتا تو وہ آپ سے میرے متعلق ضرور پوچھتا۔ آپ کو معلوم ہے کہ سین اپنی بیوی اور بچے خلقدون چھوڑ آیا تھا؟‘‘

مہرداد نے جواب دیا۔ ’’ہاں مجھے معلوم ہے‘‘۔

’’اب وہ کہاں ہیں‘‘؟

’’ان کے متعلق میں نے صرف یہ سنا ہے کہ سین کے قتل کے بعد پرویز نے اس کی بیوی اور لڑکی کے متعلق یہ حکم بھیجا تھا کہ انہیں دست گرد پہنچادیا جائے۔ لیکن پرویز کا حکم پہنچنے سے دو دن قبل وہ کہیں روپوش ہوچکی تھیں۔ قلعے کے محافظ صرف اتنا جانتے تھے کہ وہ شام کے وقت سیر کے لیے نکلی تھیں اور پھر واپس نہیں آئی تھیں۔ ان کا ایک نوکر بھی ان کے ساتھ ہی لاپتا ہوچکا تھا‘‘۔

عاصم نے پرامید ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ قیصر کے ایلچی جو دست گرد آئے تھے وہ بخیریت قسطنطنیہ پہنچ گئے تھے‘‘۔

’’ہاں‘ انہیں ہمارے سپاہیوں نے بحفاظت باسفورس کے پار پہنچادیا تھا لیکن پرویز نے جن ایرانیوں کو خراج وصول کرنے کے لیے ان کے ساتھ بھیجا تھا ان کے متعلق ہمیں کئی مہینوں کے بعد یہ معلوم ہوا کہ وہ قتل کردیے گئے ہیں‘‘۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’کیا قیصر کے ایلچیوں نے واپسی پر خلقدون قیام کیا تھا؟‘‘

’’ہاں انہوں نے ایک رات وہاں قیام کیا تھا۔ اور ایک رومی نے قلعے میں سین کی بیٹی کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ انہیں غائب کرنے میں ان رومیوں کا ہاتھ ہے تو یہ تمہاری خوش فہمی ہے۔ وہ خلقدون سے ان کی روانگی کے دو دن بعد روپوش ہوئی تھیں۔ پرویز کے پاس جب یہ خبر پہنچی تھی تو اس نے قلعے کے بیس پہریداروں کو قتل کروادیا تھا۔ پرویز نے ان سپاہیوں کو بھی عبرت ناک سزائیں دی تھیں جو چند دن کی تاخیر سے خلقدون پہنچے تھے۔ مجھے صرف اس بات سے قیصر کے ایلچیوں پر کچھ شبہ ہوتا ہے کہ واپسی پر ان کی رفتار بہت تیز تھی۔ تحقیقات کے دوران میں راستے کی چوکیوں سے اس قسم کی شہادتیں ملی تھیں کہ ہمارے آدمی جو ان کے ساتھ روانہ ہوئے تھے اس بات کے شاکی تھے کہ رومیوں نے کسی منزل پر بھی انہیں جی بھر کر آرام کرنے نہیں دیا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’بہرحال آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ پرویز نے جو سپاہی سین کی بیوی اور بیٹی کی گرفتاری کے لیے روانہ کیے تھے۔ وہ رومیوں کے بعد خلقدون پہنچے تھے‘‘۔

’’ہاں ان کے دیر سے پہنچنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ کسریٰ کو رومیوں کی روانگی سے چند دن بعد دست گرد کے بڑے کاہن کے اصرار پر ان کی گرفتاری کا خیال آیا تھا اور دوسری وجہ یہ کہ انہوں نے کسی تاخیر کے بغیر خلقدون پہنچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ بہرحال یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سین کی بیوی اور بیٹی رومیوں کے ساتھ نہیں گئیں۔ جب ان کی تلاش جاری تھی تو میں اکثر مدائن سے دست گرد جایا کرتا تھا۔ تورج اور چند دوسرے دوستوں کی طرح مجھے بھی یہ شبہ تھا کہ کسریٰ نے انہیں قتل کروا دیا ہے اور اب ان کی تلاش سے اس کا مقصد اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اب خلقدون کے لشکر کی ایک بڑی تعداد واپس آچکی ہے اور میں کئی سپاہیوں اور افسروں سے مل چکا ہوں۔ اور وہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سین کی بیوی اور بیٹی کہیں روپوش ہوچکی ہیں اور اگر رات کی تاریکی میں قلعے سے باہر ان کے اغوا یا قتل کی کوئی سازش ہوئی ہو تو اس کے ساتھ فوج کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

عاصم کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی، اس نے ساسان کی طرف دیکھا اور کرب انگیز لہجے میں کہا ’’میں جاسکتا ہوں‘‘۔

ساسان نے اُٹھ کر کہا۔ ’’نہیں تم پہلے اپنے کمرے میں جا کر ناشتہ کرلو۔ اور تمہارا لباس بھی ٹھیک نہیں، میں تمہارے لیے نئے کپڑے بھیجتا ہوں۔ کچھ اور ضروری سامان تمہارے گھوڑے کی خرجین میں رکھوا دیا جائے گا‘‘۔

مہر داد نے کہا۔ ’’ہم قلعے کے دروازے پر تمہارا انتظار کریں گے۔ لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔ عاصم نے بھرائی ہوئی آواز میں جوا دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی آنسو جنہیں وہ بڑی مشکل سے ضبط کیے ہوئے تھا اس کی آنکھوں سے اُبل پڑے۔

مہرداد نے اُٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید تمہیں یہ معلوم نہیں کہ سین میرا بہترین دوست تھا اور اگر میرا بیٹا ایرج زندہ ہوتا تو فسطینہ میری بہو ہوتی‘‘۔

’’نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں اپنے محسن کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اگر ایرج اپنی موت سے پہلے آپ سے ہمکلام ہوسکتا تو وہ آپ سے یہ کہتا کہ فسطینہ نے آپ کے بیٹے کی مسرتوں میں شریک ہونے کی بجائے ایک ایسے انسان کی بدنصیبی میں حصہ دار بننا قبول کرلیا تھا جو اُسے محبت کے آنسوئوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ نادان لڑکی مرمریں ایوانوں سے منہ پھیر کر اس غریب الدیار کی رفاقت قبول کرنے پر آمادہ ہے جو اُسے ایک جھونپڑا بھی عطا نہیں کرسکتا‘‘۔

مہرداد دیر تک سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’اگر تم فسطینہ کو تلاش کرسکو تو تمہیں جھونپڑا تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میرے گھر کا دروازہ تمہارے لیے ہر وقت کھلا رہے گا۔ میں یہی سمجھوں گا کہ ایرج ایک نئے وجود میں میرے پاس واپس آگیا ہے‘‘۔

عاصم نے تشکر آمیز لہجے میں جواب دیا۔ ’’ممکن ہے کہ میں کسی دن آپ کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہوجائوں لیکن اس وقت میں کوئی وعدہ نہیں کرسکتا‘‘۔

‘‘تم قسطنطنیہ جائو گے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’اور اس کے بعد؟‘‘

’’اس کے بعد میں ساری زندگی فسطینہ کی تلاش میں گزار دوں گا‘‘۔

ساسان نے کہا۔ ’’اگر فسطینہ کے متعلق تمہارے جذبات یہ ہیں تو اسے نادان ہونے کا طعنہ کون دے سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُسے تمہارا جھونپڑا مدائن کے سارے محلات سے زیادہ کشادہ اور خوبصورت نظر آئے گا‘‘۔

عاصم کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ نیا لباس پہن کر قلعے کے دروازے پر پہنچا تو ایک سپاہی ایک خوبصورت گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا۔ اور ساسان اور ایرج کے باپ کے علاوہ قلعے کے چند محافظ اس کا انتظار کررہے تھے۔

اس نے باری باری ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔ اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔

ساسان نے چند قدم اس کا ساتھ دیا اور دروازے سے باہر نکل کر دوبارہ اس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جب تم خرجین میں ہاتھ ڈالو گے تو تمہیں ایک چمڑے کی تھیلی ملے گی۔ یہ مہرداد کا تحفہ ہے اس کی یہ خواہش کہ تمہیں سفر کے دوران کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔

عاصم نے کئی دن دریائے فرات کے کنارے کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ مہرداد نے رخصت کے وقت جو تھیلی اس کے گھوڑے کی خرجین میں رکھوا دی تھی وہ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اور ان اشرفیوں کی بدولت اسے راستے کی منازل میں ٹھہرنے یا تازہ دم گھوڑے تبدیل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ ایران کی قدیم سرحد عبور کرنے کے بعد اس نے سیدھا ایشیائے کوچک کا رُخ کرنے کی بجائے شام کے اس راستے سفر کرنا زیادہ مناسب خیال کیا جو نسبتاً آباد علاقوں سے گزرتا تھا۔ (جاری ہے)

حصہ