تیسرا حصہ
-10 کھانا ہمیشہ وقت پر کھایئے، پُرخوری سے بچیے۔ ہر وقت منہ چلاتے رہنے سے پرہیز کیجیے، کھانا بھوک لگنے پر ہی کھایئے اور جب کچھ بھوک باقی ہو تو آٹھ جایئے۔ بھوک سے زیادہ تو ہرگز نہ کھایئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے‘‘ (ترمذی)
صحت کا دارومدار معدے کی صحت مندی پر ہے اور زیادہ کھانے سے معدہ خراب ہوجاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل میں اس کو یوں واضح فرمایا ہے۔
’’معدہ بدن کے لیے حوض کی مانند ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہونے والی ہیں، پس اگر معدہ صحیح اور تندرست ہے تو رگیں بھی صحت سے سیراب لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی خراب اور بیمار ہے تو رگیں ہماری چوس کر لوٹیں گی‘‘ (بیہقی)
کم خوری کی ترغیب دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہے‘‘۔
-11 ہمیشہ سادہ کھانا کھایئے۔ بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھایئے، زیادہ گرم کھانا کھانے سے بھی پرہیز کیجیے۔ مسالوں، چٹخاروں اور ضرورت سے زیادہ لذت طلبی سے پرہیز کیجیے۔
ایسی غذائوں کا اہتمام کیجیے، جو زود ہضم اور سادہ ہوں اور جن سے جسم کو صحت اور توانائی ملے۔ محض لذت طلبی اور زبان کے چٹخاروں کے پیچھے نہ پڑیئے۔
نبی صلی اللہ عیلہ وسلم بغیر چھنے آٹے کی روٹی پسند فرماتے۔ زیادہ پتلی اور میدے کی چپاتی پسند نہ فرماتے، بہت زیادہ گرم کھانا جس میں سے بھاپ نکلتی ہوتی نہ کھاتے بلکہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار فرماتے۔ گرم کھانے کے بارے میں کبھی فرماتے کہ خدا نے ہم کو آگ نہیں کھلائی ہے اور کبھی ارشار فرماتے گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔ آپؐ گوشت پسند فرماتے خاص طور پر دست، گردن اور پیٹھ کا گوشت رغبت سے کھاتے، درحقیقت جسم کو قوت بخشنے اور مجاہدانہ مزاج بنانے کے لیے گوشت ایک اہم اور لازمی غذا ہے اور مومن کا سینہ ہمہ وقت مجاہدانہ جذبات سے آباد رہنا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو شخص خداکی راہ میں جہاد کیے بغیر مر گیا اور اس کے دل میں اس کی آرزو بھی نہیں تھی وہ نفاق کی ایک کیفیت میں مرا‘‘ (مسلم)
-12 کھانا نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ خوب چبا چبا کر کھایئے، غم، غصہ، رنج اور گھبراہٹ کی حالت میں کھانے سے پرہیز کیجیے۔ خوشی اور ذہنی سکون کی حالت میں اطمینان کے ساتھ جو کھانا کھایا جاتا ہے وہ جسم کو قوت پہنچاتا ہے اور رنج و فکر اور گھبراہٹ میں جو کھانا نگلا جاتا ہے وہ معدہ پر برا اثر ڈالتا ہے اور اس سے جسم کو خاطر خواہ قوت نہیں مل پاتی۔ دسترخوان پر نہ تو بالکل خاموش افسردہ اور غم زدہ ہوکر بیٹھیے اور نہ حد سے بڑھی ہوئی خوش طبعی کا مظاہرہ کیجیے کہ دستر خوان پر قہقہے بلند ہونے لگیں، کھانے کے دوران قہقہے لگانا بعض اوقات جان کے لیے خطرہ کا باعث بن جاتا ہے۔
دستر خوان پر اعتدال کے ساتھ ہنستے بولتے رہیے، خوشی اور نشاط کے ساتھ کھانا کھایے اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیجیےاور جب بیمار ہوں تو پرہیز بھی پورے اہتمام سے کیجیے، اُم منذرؓ کہتی ہیں کہ نبی ؐ میرے گھر تشریف لائے، ہمارے یہاں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے، حضورؐ ان میں سے تناول فرمانے لگے۔ حضرت علیؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے وہ بھی نوش فرمانے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا، کہ تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو تم مت کھائو، چنانچہ حضرت علیؓ رک گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے رہے، ام منذر کہتی ہیں کہ پھر میں نے تھوڑے سے جوا اور چقندر لے کر پکائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا، علی! یہ کھائو یہ تمہارے لیے مناسب کھانا ہے۔ (شمائل ترمذی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپؐ بار بار اس سے فرماتے جاتے کھایئے اور کھایئے‘‘ جب مہمان خوب سیر ہوجاتا اور ہے حد انکار کرتا تب آپؐ اپنے اصرار سے باز آتے‘‘۔
یعنی آپؐ نہایت خوش گوار فضا اور خوشی کے ماحول میں مناسب گفتگو کرتے ہوئے کھانا تناول فرماتے۔
-13 دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کیجیے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کیجیے اور کھانا کھانے کے بعد فوراً کوئی سخت قسم کا دماغی یا جسمانی کام ہرگز نہ کیجیے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے تغد تمد تعش تمش۔ دوپہر کا کھانا کھائو تو دراز ہوجائو۔ رات کا کھانا کھائوتو چہل قدمی کرو‘‘۔
-14آنکھوں کی حفاظت کا پورا اہتمام کیجیے۔ تیز روشنی سے آنکھیں نہ لڑایئے۔ سورج کی طرف نگاہ جماکر نہ دیکھیے۔ زیادہ مدھم یا زیادہ تیز روشنی میں نہ پڑھیئے۔ ہمیشہ صاف اور متعدل روشنی میں مطالعہ کیجیے۔ زیادہ جاگنے سے بھی پرہیز کیجیے۔ دھول غبار سے آنکھوں کو بچایئے۔ آنکھوں میں سرمہ لگایئے اور ہمیشہ آنکھیں صاف رکھنے کی کوشش کیجیے، کھیتوں، باغوں اور سبزہ زاروں میں سیر و تفریح کیجیے، سبزہ دیکھنے سے نگاہوں پر اچھا اثر پڑتا ہے، آنکھوں کو بدنگاہی سے بچایئے۔ اس سے آنکھیں بے رونق ہوجاتی ہیں اور صحبت پر بھی بڑا اثر پڑتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ خدا کی اس نعمت کی قدر کرے اس کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے، اس کی حفاظت اور صفائی کا اہتمام کیجیے۔ وہ ساری تدبیریں اختیار کرے، جن سے آنکھوں کو فائدہ پہنچتا ہو اور ان باتوں سے بچا رہے جن سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ اسی طرح جسم کے دوسرے اعضا اور قویٰ کی حفاظت کا بھی خیال رکھیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے ’’لوگو! آنکھوں میں سرمہ لگایا کرو، سرمہ آنکھ کے میل کو دور کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے‘‘ (ترمذی)
-15دانتوں کی صفائی اور حفاظت کا اہتمام کیجیے۔ دانتوں کے صاف رکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے اور ہاضمے پر اچھا اثر پڑتا ہے اور دانت مضبوط بھی رہتے ہیں۔ مسواک کی عادت ڈالیے، منجن وغیرہ کا بھی استعمال رکھیے، پان یا تمباکو وغیرہ کی کثرت سے دانتوں کو خراب نہ کیجیے، کھانے کے بعد بھی دانتوں کو اچھی طرح صاف کرلیا کیجیے۔
دانت گندے رہنے سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے نبیؐ کا معمول تھا کہ جب نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنا منہ صاف فرماتے(متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ’’ہم نبیؐ کے لیے وضو کا پانی اور مسواک تیار رکھتے تھے، جس وقت بھی خدا کا حکم ہوتا آپؐ اٹھ بیٹھتے تھے اور مسواک کرتے تھے۔ پھر وضو کرکے نماز ادا فرماتے تھے (مسعود)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا ’’میں تم لوگوں کو مسواک کرنے کے بارے میں بہت تاکید کرچکا ہوں‘‘(بخاری)
حضرت عائشہؓ کا بیان کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا ’’مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور اللہ کو راضی کرنے والی ہے‘‘ (نسائی)
آپؐ کا ارشاد ہے ’’اگر میں اپنی امت کے لیے شاق نہ سمجھتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘ (ابودائود)
ایک بار آپؐ سے ملنے کے لیے کچھ مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے دانت صاف نہ ہونے کی وجہ سے پیلے ہورہے تھے۔ آپؐ کی نظر پڑی تو فرمایا ’’تمہارے دانت پیلے پیلے کیوں نظر آرہے ہیں، مسواک کیا کرو‘‘ (مسند احمد)
-16 پاکی، طہارت اور نظافت کا پورا پور اہتمام کیجیے۔ قرآن پاک میں ہے ’’اللہ ان لوگوں کو محبوب بناتا ہے، جو بہت زیادہ پاک و صاف رہتے ہیں‘‘ (توبہ)
اور نبیؐ کا ارشاد ہے ’’صفائی اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے‘‘۔
صفائی اور پاکیزگی اہمیت کے پیش نظر نبیؐ نے طہارت کے تفصیلی احکام دیئے ہیں اور ہر معاملے میں طہارت و نظافت کی تاکید کی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھیے، انہیں گندا ہونے سے بچایئے اور آنکھوں سے حفاظت کیجیے۔ برتنوں کو صاف ستھرا رکھیے، لباس اور لیٹنے بیٹھنے کے بستروں کو پاک رکھیے، اٹھنے بیٹھنے کی جگہوں کو صاف ستھرا رکھیے، جسم کی صفائی کے لیے وضو اور غسل کا اہتمام کیجیے، جسم اور لباس اور ضرورت کی ساری چیزوں کی صفائی اور پاکیزگی سے روح کو بھی سرور و نشاط حاصل ہوتا ہے اور جسم کو بھی فرحت اور تازگی ملتی ہے اور بحیثیت مجموعی انسانی صحت پر اس کا نہایت ہی خوش گوار اثر پڑتا ہے۔
حضرت عدیؓ بن حاتم فرماتے ہیں ’’جب سے میں اسلام لایا ہوں، ہر نماز کے لیے باوضو رہتا ہوں‘‘۔
ایک مرتبہ رسولؐ اللہ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا ’’کل تم مجھ سے پہلے جنت میں کیسے داخل ہوگئے؟ بولے ’’یا رسولؐ اللہ! میں جب بھی اذان کہتا ہوں تو دو رکعت نماز ضرور پڑھ لیتا ہوں اور جس وقت بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کرکے ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا ’’ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ہر ہفتے میں ایک دن غسل کیا کرے اور اپنے سر اوربدن کو دھویا کرے‘‘ (بخاری)
(جاری ہے)