چند سکے

170

14 اگست کو ہر کوئی جشن آزادی منانے خاندان کے ہمراہ تفریحی مقامات کا رُخ کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارے گھر والوں نے بھی پارک جانے کا پروگرام بنایا۔ وہاں پہنچے تو موسم خاصا خوش گوار تھا اور لوگوں میں بھی بہت جوش و خروش نظر آرہا تھا۔ کوئی بگھی پر سوار، تو کوئی باجے کا دیوانہ، کوئی سبز ہلالی پرچم اٹھائے ون وہیلنگ کررہا تھا، تو کوئی اپنے مکھڑے پر کاریگری کروا رہا تھا۔ غرض ہر ایک اپنے لحاظ سے خوشی منا رہا تھا۔

ہم نے بھی پارک کا ایک کونا منتخب کیا اور چادر بچھاکر کھانا کھانے کی تیاری شروع کی۔ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ ایک لڑکا جو بہ مشکل سترہ، اٹھارہ برس کا ہوگا ہماری جانب آیا اور پوچھنے لگا کہ ’’یہ آلو قیمہ ہے؟‘‘

میرے تعجب سے دیکھنے پر کہنے لگا ’’صاحب تھوڑا دے دو۔‘‘

میں نے ایک روٹی لی اور کچھ قیمہ نکال کر اُس کے ہاتھ میں دے دی۔ کھانا کھاتے ہوئے نہ جانے کیوں میں اس کے ’’آلو قیمہ‘‘ کہنے کے انداز کو ذہن میں دہرائے جارہا تھا، جو کچھ عجیب سا تاثر دے رہا تھا۔

میں نے کھانے سے فارغ ہوکر ہاتھ صاف کیے اور اس شخص کا متلاشی ہوکر نگاہ دوڑانے لگا، وہ وہیں پارک کے داخلی حصے کی جانب خاموش بیٹھا تھا۔ میرے قدم اس کی طرف بڑھ گئے۔

میں نے اس کے پاس جاکر پوچھا ’’بھائی ایک سوال کروں؟‘‘

وہ میرے اس سوال پر اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر جانے لگا۔ میں نے کہا ’’بھائی یہاں کب سے ہو؟‘‘

کہنے لگا ’’آپ جان کر کیا کرو گے؟‘‘

میں نے کہا ’’شاید کچھ کرسکوں۔‘‘

کہنے لگا ’’یاد نہیں، شاید دو ہفتے سے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’گھر بار نہیں؟‘‘

کہنے لگا ’’مجھے سچا مانو گے؟‘‘

میں نے کہا ’’یہ کیا سوال ہوا بھلا؟‘‘

کہنے لگا ’’میری بات کو سچ مانوگے تو بتاؤں گا۔‘‘

میں نے کہا ’’اچھا…‘‘

تو بولا ’’صاحب! میرا کوئی نہیں، میں 2 سال کا تھا جب باپ رخصت ہوگیا۔ میں اور میری ماں خیرآباد کے ایک چھوٹے سے 2 کمروں کے گھر میں اپنے چاچا کے ساتھ رہے۔ وہ گھر دادا کا تھا… ابو کے انتقال کے بعد چاچا کو مجھ سے خار تھی، کوئی صحیح طرح سے بات نہ کرتا۔ اماں کو بھی خاندان کے خوف سے چھت دی تھی اور کام کرنے کے عوض کھانا… سو پڑھ تو میں نہیں سکا۔ گھر سے فرار ہونے کے لیے آوارہ دوستوں میں بیٹھنے لگا۔ یوں مجھے نشے کی لت لگ گئی۔

ماں نے لاکھ سمجھایا مگر اکیلی ماں میرے قدم نہ روک سکی۔ تنگ آکر میری عادت کو چھڑوانے کے لیے ایک فلاحی اسپتال بھیجا، وہاں میرا قیام چھ ماہ تھا۔ کیوں کہ ابتدا ہی تھی اس لیے میں 5 ماہ میں وہاں سے نکل گیا۔ میں بالکل صحیح تھا اور دل میں ماں کو خوش کرنے کے بہت سے ارمان رکھتا تھا، مگر جب میں گھر آیا تو وہاں میرا منتظر کوئی نہ تھا۔ چاچا کے مطابق میری ماں میرے جانے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی دنیا کو چھوڑ گئی اور اب اس گھر میں میری کوئی جگہ نہ تھی۔ روتا ہوا، ماں کے غم اور گھر نہ ہونے کے صدمے میں مَیں چلتا گیا۔ نہ منزل تھی، نہ راستہ۔ پھر ایک بس میں سوار ہوا۔ کنڈیکٹر نے پوچھا ’’کہاں جانا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’تم کہاں رہتے ہو؟‘‘ کہنے لگا ’’تجھے اس سے کیا…؟‘‘ میں نے کہا ’’میرا گھر نہیں، کہیں بھی اتار دو۔‘‘ کہنے لگا ’’پیسے‘‘۔ میں نے کہا ’’نہیں ہیں…‘‘ اُس کو غصہ آیا اور مجھے بس سے اتار دیا۔

ایک دو دن یوں ہی بھٹک کر اس پارک میں پناہ لی۔ روز کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ کچھ دے جاتا ہے اور میں کبھی بھرے پیٹ اور کبھی آدھے پیٹ سے سوجاتا ہوں۔ صاحب! میری ماں نے مجھے اپنے ہاتھوں سے آخری بار آلو قیمہ ہی کھلایا تھا اس لیے رہا نہیں گیا اور آپ سے مانگ لیا۔‘‘

میں اس کی داستان سن کر بولا ’’ایک کام کہوں، کرو گے روزی کمانی ہے تو؟‘‘

میرے کہتے ہی اس کے چہرے پر چمک آگئی۔ میں نے کہا ’’میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
گھر والوں کی طرف آیا تو سب کہنے لگے ’’کیا ہوگیا، کہاں تھے؟‘‘ میں نے کہا ’’ابھی آیا‘‘۔ پھر بولا ’’سب اٹھو اور سامان باندھ کر یہ چادر دے دو۔‘‘
بیگم بولیں ’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’سب بتاتا ہوں۔‘‘ پھر چادر اور بسکٹ کا ایک پیکٹ لے کر اس کے پاس گیا، کہا ’’یہ چادر بچھا کر یہ بسکٹ لوگوں کو دو، میں اور سامان تمھیں جلد لا دوں گا۔‘‘
میں نے دو تین دن کے وقفے سے اس کو سامان دیا اور اب وہ فریئرہال کے داخلی دروازے پر موجود اُن افراد کا منتظر ہے جو پانچ روپے کا بسکٹ سات روپے میں لے کر کچھ روپے اس کی جیب میں ڈالنے کا سبب بن جائیں۔

حصہ