بالکونی میں اس نے پاکستان کا جھنڈا دیکھا، شاید نمرہ اور بچوں نے لگایا تھا۔ وہ استہزایہ انداز میں ہنسا۔
ایک نوجوان تیزی سے بغیر سائیلنسرکی موٹر سائیکل کو ریس دیتا نکل گیا۔ بالکونی سے جھانکا تو پاکستان کا تو اِکا دُکا ہی جھنڈا نظر آرہا تھا مگر مختلف سیاسی تنظیموں کے پرچم کھمبوں پر لگے تھے۔ اس نے ایک لمبی سانس کھینچی اور اندر آگیا۔
وہ آن لائن پلیٹ فارم پر نئی آنے والی فلموں کے لنک تلاش کرنے لگا۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک ہر ایپ پر پاکستانیت کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پھر تلخ مسکراہٹ رینگ گئی۔
شاید اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ تیز بجتی دروازے کی گھنٹی نے اسے بیدار کردیا۔ اس نے دروازہ کھولا۔ سامنے ایک نقاہت زدہ ضعیف آدمی جو ایک بازو سے محروم تھا، دوسرے لرزتے ہوئے ہاتھ سے کشکول پھیلائے کھڑا تھا۔
’’بیٹا! میں بہت پیاسا ہوں، مجھے پانی پلا دو۔‘‘ وہ دروازے سے اندر آنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’یہاں بیٹھو بڑے میاں، حالات بہت خراب ہیں… پتا نہیں کس گینگ کے ساتھی ہو۔‘‘ وہ تلخی سے بولتا ہوا پلاسٹک کے گلاس میں پانی لے آیا۔
بوڑھا پانی کا گلاس دیکھ کر تلخی سے ہنسا اور گلاس برابر میں رکھ لیا اور بولا ’’گھر میں اکیلے رہتے ہو؟ بیوی بچے کہاں ہیں؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟ وہ جشن آزادی منانے ننھیال گئے ہیں۔ بابا جی! پانی پیو اور اپنے گھر کا رستہ دیکھو۔‘‘
’’کیسا جشن آزادی، ناچ ناچ کر، گا گا کر…!!‘‘
’’آخر تم کون ہو اور کیوں مجھے پکا رہے ہو؟‘‘ اب وہ جھلّا گیا۔
بابا دروازے میں کچھ اس انداز سے بیٹھا تھا کہ وہ دروازہ بند کرکے اندر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ وہ لاکھ بدتمیز سہی مگر ایسا بھی نہ تھا کہ بوڑھے اپاہج کو دھکا دے دیتا۔
’’ساری نیند کا بیڑا غرق کردیا۔ لمبا ویک اینڈ ملا تھا… ساری رات نیٹ فلیکس دیکھ کر ابھی لیٹا تھا۔ بس جھنڈا لگا لیا تھا۔ اتنے سارے گھروں میں اس بڈھے کو میرا ہی گھر ملا تھا!‘‘ وہ دل ہی میں بڑبڑایا۔
’’ہاں بیٹا! بس ایک تمہارا ہی گھر ملا تھا۔‘‘
حماد کو محسوس ہوا جیسے اس بوڑھے نے اس کی سوچ کو پڑھ لیا ہو۔
’’اوہو یہ تو کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔‘‘ حماد گڑبڑا گیا۔ اب اس کے لہجے میں نرمی آگئی تھی۔
’’آپ پانی تو پئیں۔ اگر بھوک لگی ہے تو کچھ کھانے کو لاؤں؟‘‘ حماد گویا ہوا ۔
انہوں نے کھانے سے منع کردیا۔
’’اچھا یہ بتائیں میرا ہی گھر کیوں؟‘‘ اب اس کو بوڑھے کی باتوں میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی۔
’’کیوں کہ کم از کم تمہاری چھت پر پاکستان کا جھنڈا ہے۔‘‘
’’اوہو یہ غلطی ہوگئی۔‘‘ وہ پھر دل ہی دل میں پچھتایا۔
’’نہیں بیٹا! غلطی نہیں ہوئی، مجھے تمہارے اندر وطن سے محبت کی جھلک دکھائی دی۔‘‘
اب تو وہ بالکل سناٹے میں آگیا اور ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔
’’بابا! آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے؟‘‘
’’ہاں ہے… بہت ساری ہیں۔‘‘ اس نے آزردہ لہجے میں جواب دیا۔
’’پھر یہ حال؟‘‘ حماد نے پوچھا۔
’’میں نے سب کو گھر دیا، اپنے دامن میں چھپایا، مگر انہوں نے ایک بازو کاٹ دیا۔‘‘ انہوں نے کٹے بازو کی جانب اشارہ کیا۔
’’اب بھی عقل نہیں آئی، جس کشکول کو توڑنے کے لیے یہ گھر بنایا تھا آج وہی کشکول میرے حکمرانوں نے میرے ہاتھ میں تھما دیا ہے جسے لیے میں در در بھیک مانگتا ہوں، اور شاید بھیک مانگتے مانگتے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ختم ہوجاؤں گا۔‘‘ بوڑھا لاٹھی ٹیکتا اُٹھ کر چل دیا۔
باجے کی زوردار آواز سے حماد کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ہڑبڑا کر داخلی دروازے کی جانب مڑا۔ دروازہ کھولا تو ہرا پلاسٹک کا گلاس پانی سے لبالب بھرا رکھا تھا۔