ماہ صفر کے اہم واقعات

2885

صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربوں کے گھر سفر اور جنگوں پر روانگی کے باعث رہنے والوں سے خالی ہو جاتے تھے ، اور عربی زبان میں ’’صَفِرَ المَکَانْ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی جگہ انسانوں سے خالی ہو جائے ، اس کی عربی میں جمع ’’اصفار‘‘ آتی ہے ۔

جنگ قتال کی اجازت :
جواز قتال کا حکم صفر سنہ 2ھ میں سورہ الحج کے ذریعے ہوا ۔جن جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے انہیں مغازی اور غزوات کہا جاتا ہے جن کی تعداد 28 بتائی جاتی ہے۔ جن جنگوں میں بذات خود شرکت نہیں فرمائی بلکہ اپنے صحابہ ؓ کو امیر لشکر بنا کربھیجا وہ محدثین کی اصطلاح میں سرایا اور مبعوث کہلاتی ہیںجن کی مجموعی تعداد 77تک بتائی جاتی ہے۔

سریۃ الرجیع (واقع الرجیع) :
قریش کی خبروں سے آگا ہی کے لیٔے مکہ مکرمہ کے لیٔے جاسوس بھیجے گئے ۔ 4ھ کو آنحضرتؐ نے حضرت عاصم ؓ بن ثابت کو دس صحابہ کی معیت میں عضل اور قارو کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ حضرات مقام رجیع پہنچے تو دو سو کافروں نے ان کو نرغے میں لے لیا۔ آٹھ وہیں شہید ہوگئے۔ عبد اللہ بن طارق کو آ گے چل کر شہید کر ڈالا اور دوسرے دو صحابی حضرت زید ؓ بن الوشنہ و خبیب ؓ بن عدی کو مکہ مکرمہ لے جا کر فروخت کر دیا۔ بعد میں دونوں کو ایک ہی دن شہید کر ڈالا۔ خبیب ؓ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے قتل سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔ آپ ؓ وہی صحابی ہیں جن سے کہا گیا کے آپ کی جگہ معا ذ اللہ رسول اللہ ؐ ہوں تو کیسا لگے؟ آپ ؓنے فرمایا تھا کہ میں تویہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کے حضور ؐ کوایک کانٹا بھی چبھے ۔

واقع بئر معونہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے70 اصحاب صفہ ؓ میں سے ایک جماعت کو جو قرآن مجید کے قاری تھے، اسلام کی دعوت پر تبلیغ کے لیے بھیجا۔ کافروں نے ان سب کو شہید کر ڈالا۔ صرف ایک صحابی عمروؓ بن امیہ کسی طرح بچ گئے جنہو ں نے اپنے رفقا کے قتل کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہوسلم کو دی۔ یہ خبر سن کر آنحضرت ؐ بہت غضب ناک ہوئے اورایک ماہ تک نماز فجر میں ’’قنوت نازلہ‘‘ پڑھتے رہے اور ان کے لیے بد دُعا کرتے رہے تا آنکہ اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کو منع فرمایا اور اس سلسلے میں سورۃ آل عمران کی 128آیت نازل ہوئی۔

فتح خیبر :
7ھ یہودیوں کا محرم سے دس سے زیادہ دن محاصرہ رہا اور ماہ صفر میں قلعے فتح ہوئے۔ غزوہ خیبر میں پندرہ مسلمان شہید اور 93 کافر جہنم رسید ہوئے۔ غزوہ خیبر میں آنحضرتؐ میعہ کو پہلی بارحرام قرار دیا، گدھوں کے گوشت کی حرمت کا اعلان کیا، کچی پیازاور لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا، درندوں اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں کی حرمت کا اعلان فرمایا۔ غزوہ خیبر سے فراغت کے بعد اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ بنت حبی بن اخطب سے نکاح کیا۔ وہ خیبر کے رئیس کی صاحبزادی اور حضرت ہارون ؑ کی نسل میں سے تھیں ۔

فتح بصرہ:
13ھ643 ء حضرت خالدؓ بن ولید عراق سے چلتے ہوئے شام کے راستے میں تھے کہ بصری کے بسانی حکمراں سے لڑائی کی نوبت آ گئی جو رومیوں کا طرف دار تھا۔ اہلِ بصری نے صلح کی پیش کش کی جو جزیہ کی شرط پر منظور کی گئی ۔ مدائن الشام کی یہ پہلی فتح تھی۔

جنگ حنین:
37ھ(بروز بدھ7-صفر) یہ الم ناک جنگ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت معاویہ ؓ بن ابی سفیان کے درمیان ہوئی جو بروز ہفتہ 10صفر تک جاری رہی اور بالآخر ایک معاہدہ پر ختم ہوئی۔ اس جنگ میں 70ہزار سے زیادہ مسلمان کام آئے۔

جنگ نہر وان 9 صفر 38ھ :
حضرت علی ؓ بن ابی طالب کے دورِ خلافت میں رونما ہونے والی جنگوں میں سے ایک ہے‘ جو جنگ صفین میں حکمیت کے مسئلہ میں کوفہ خوارج کی ایک جماعت تھی جو حضرت علی ؓ بن ابی طالب کی اطاعت سے اس وقت نکل گئی جب حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان دو فیصلہ کرنے والوں کو مقرر کیا گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب علی ؓ بن طالب اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگ طول پکڑ گئی تو دونوں فریق اس پر متفق ہوگئے کہ خلافت کس کا حق ہے؟

والی ٔ اندلس:
113 ھ(اپریل731ء) کو عبدالرحمن بن عبداللہ النافقی (تابعی) اموی خلیفہ حشام بن عبدالملک کے زمانہ میں والی ٔ اندلس مقرر ہوئے ۔

وفات صلاح الدین ایوبی:
27 صفر 589ھ (4مارچ 1193ء) 57سال عمر میں فاتح بیت المقدس اور دولت عبیدین (مصر)کے بعد سلطان مصر کا خطا ب پانے والے صلاح الدین ایوبیؒ کا انتقال ہوا ۔ان کے زبردست کارناموں سے تاریخیں بھری پڑی ہیں اور وہ زندہ و جاوید شخصیت کے مالک ہیں ۔

خلافت عباسیہ کا خاتمہ :
یہاں ذکر آرہا ہے خلیفہ ہارون رشید اور شہزادہ کے الف لیلوی شہر بغداد کا۔ 656 ھ (فروری 1258ء) مستعصم باللہ خاندان عباسیہ کا 37 واں اور آخری تاج دار بادشاہ تھا لیکن وہ ایک کمزور اور عاقبت نااندیش انسان تھا۔ ( یاد رہے کہ بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے بزرگ ابو جعفر بن منصور نے 762ء میں بغداد کی بنیاد رکھی تھی۔) ہلاکوخان بغداد فتح کرنے کا خواہش مند تھا لیکن اس گئے گزرے زمانے میں میں بھی خلیفہ کا ظاہری رعب اور مذہبی تقدس اتنا تھا کہ ہلاکو ڈرتا تھا۔ اس پر ہلاکو کے ایک درباری خواجہ نصیر الدین طوسی نے اس کو ابھارا اورحملے کی ترغیب دی۔ ہلاکوخان خود بغداد آیا۔ چالیس دن تک شہر کا محاصرہ کیا پھر بغداد میں داخل ہوا۔ ابن علقمی کے سوا تمام اکابرین کو قتل کروا دیا۔ خلیفہ مستعصم اور ان کے تمام خاندان سمیت تقریباً 17لاکھ مسلمانوں کو ختم کروا دیا۔ اس طرح خلافتِ عباسیہ ختم ہو گئی۔

حصہ