”اِس کی باتوں میں مت آنا، یہ اعلیٰ درجے کا جھوٹا شخص ہے، لمبی لمبی ہانکتا ہے۔ یہ تم ہی ہو جو اس کے قصیدے سن لیتے ہو، ورنہ ہمارے سامنے تو زبان پیٹ میں گر جاتی ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اپنی رام لیلا ہمیں سنائے گا تو منہ کی کھائے گا۔“
”کیا ہوا حیدر بھائی، کس کو کوس رہے ہو؟ کس کی شامت آگئی ہے؟ کس نے چھیڑ دیا ہے آپ کو؟ میرا مطلب ہے آج کون عتاب میں ہے؟“
”ارے یہ لڈن ہے اور کون ہوگا! یہی الٹی سیدھی باتیں کرتا رہتا ہے۔“
”ایسا کیا ہوگیا جس پر آپ سرخ و سفید ہوئے جارہے ہو؟“
”وہی جھوٹ بولنے، وہی شیخیاں بگھارنے کی پرانی عادت… اس کے سوا اور ہے کیا اس کے پاس! جہاں بیٹھتا ہے بس اپنی پارسائی اور اپنے خاندان کے جھوٹے قصے سنانے لگتا ہے۔ ہمارا خاندان تو صدیوں سے پیسے والا ہے، انڈیا میں ہماری سیکڑوں ایکڑ زمین تھی، یہاں بھی ہمارے پاس کروڑوں روپے کی جائداد ہے، ہم نے ہمیشہ خوش حالی دیکھی ہے، ہم ایسے ہیں، ہم ویسے ہیں۔“
”حیدر بھائی اس میں جھوٹ کیا ہے! لڈن بھائی واقعی مال دار ہیں۔ اگر ان کے مکان کی قیمت لگائی جائے تو کروڑوں کا ہوگا۔ ظاہر ہے شہر کی کسی بھی مرکزی شاہراہ پر کارنر کا مکان جس میں بنی دکانوں سے لاکھوں روپے کرایہ آتا ہو میرے خیال میں اس کی مالیت پانچ، سات کروڑ سے کم کیا ہوگی۔ اس لیے میرے نزدیک تو یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ باقی اگر آپ دونوں کے درمیان کوئی اور رنجش ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں! یہ آپ دونوں کا مسئلہ ہے۔“
”واہ بھئی واہ کیا بات ہے، ابھی ابھی آئے ہو اور آتے ہی طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرنے لگے ہو! مجھے تو لگتا ہے اِس نے جو کچھ بھی تمہیں پڑھایا، تم نے حفظ کرلیا ہے۔ ارے میاں! یہ کیا ہے، کیا تھا مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہم دونوں انڈیا میں بھی ایک ہی محلے میں رہتے تھے، ہم دونوں ہم عمر ہیں۔ یہ دس بارہ سال کا تھا جب ہم پاکستان آئے۔ وہاں ایک نیکر میں گھومتا تھا، گھر میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے، ہماری حیثیت بھی کوئی اچھی نہیں تھی۔ اس کی ماں روز صبح بیسن کی پھلکیاں بنایا کرتی تھی جنہیں یہ کم عمری میں سارا دن چڈی پہن کر سڑکوں پر بیچتا تھا تب جاکر گھر کا چولہا جلتا تھا۔ اس بات کے تو کئی لوگ گواہ ہیں۔ انور بھائی کا انتقال ہوگیا، نذیر اور چراغ دین بھائی تو ابھی زندہ ہیں، دونوں لالو کھیت ڈاک خانے پر رہتے ہیں، کبھی جانا تو پوچھ لینا۔ یہ تو اچھا ہے کہ ابھی ہم زندہ ہیں، مر گئے ہوتے تو نہ جانے یہ کتنے لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا۔“
”اس میں گمراہ ہونے کی کیا بات ہے! آپ جو بھی کہہ رہے ہیں ہم نے نہیں دیکھا۔ جس طرح آپ کہہ رہے ہیں ہم سن رہے ہیں، ایسے ہی یہ جو کہتے ہیں ہم سنتے رہتے ہیں۔ انڈیا میں ان کے کیا حالات تھے ہمیں کیا خبر۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اِس وقت یہ کروڑپتی ہیں، ابھی مکان فروخت کریں تو کروڑوں روپے کیش ان کی جیب میں آجائے گا، اور یہ ضروری تو نہیں کہ لڈن بھائی وہاں غریب ہوں۔ کئی لوگ اپنی جائدادیں بھی تو چھوڑ کر آئے تھے، شاید لڈن بھائی بھی ان میں سے ایک ہوں۔“
”ہاں ہاں بالکل… پاکستان بنانے والوں نے اس سرزمین سے محبت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا، ہمارے اجداد نے زمین و جائداد چھوڑی، محل نما مکان چھوڑے، یہاں تک کہ اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کردیے۔“
”اس سے انکار نہیں۔ میں تو لڈن کے گھرانے کی بات کررہا ہوں کہ وہ مالی طور پر انتہائی کمزور تھا۔ اور جہاں تک اس مکان کا تعلق ہے، تو یہ مکان اس کے جہز میں نہیں آیا۔ یہ تو کنگال تھا۔ جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہو وہ مکان کیسے خرید سکتا ہے؟ ارے یہ تو دعائیں دے ایوب حکومت کو، جس نے سر چھپانے کا ٹھکانہ دے دیا، ورنہ آج بھی جٹ لائن کی جھگیوں میں رہ کر ذلیل ہورہا ہوتا، یا کہیں دربدر ہوتا۔“
”حیدر بھائی سنا ہے یہ ساری آبادی ایوب خان کے دور میں آعظم خان نے بسائی تھی، میرا مطلب ہے کہ یہ مکان اُسی دور میں ملے تھے۔ اگر ایسا ہے تو جس مکان میں آپ رہتے ہو وہ بھی تو حکومت نے دیا تھا، آپ بھی پھر اسی طرح کروڑپتی ہوئے!“
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو کہ میرا مکان بھی جٹ لائن میں گرائی جانے والی جھگی کے باعث ملا، چونکہ میرا مکان آبادی کے درمیان اور گلی سے دسواں ہے اس لیے اس کی زیادہ اہمیت نہیں، جبکہ لڈن کا مکان مرکزی سڑک پر کارنر کا ہے، اس لیے کمرشل حیثیت رکھنے کے باعث قیمتی ہوگیا جس کا میں اعتراف کرتا ہوں۔ میرا نکتہ یہ نہیں، بلکہ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر اس کا مکان سڑک پر ہونے کی وجہ سے کمرشل ہوگیا تو اس میں لڈن کا کیا کمال؟ اسے تو یہ مکان جھگی کے متبادل ملا تھا۔ اب یہ جو بھی کہے، میں تو یہی کہوں گا کہ لڈن کو ایک جھگی نے کروڑپتی کر دیا۔“
لڈن بھائی حیدر بھائی کی باتوں پر خاموش رہے۔ وہ کب تک خاموش رہے میں نہیں جانتا۔ اور ان کی باتوں کا کیا نتیجہ نکلا، یہ بھی میرے علم میں نہیں۔ اور حیدر بھائی نے لڈن بھائی کے ماضی کی جو کہانی سنائی اس کی سچائی کے بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حیدر بھائی نے ایوب خان کے دور میں دیے جانے والے مکان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ قابلِ غور اور حقیقت پر مبنی نظر آتا ہے۔ یہ بات تو میرے علم میں بھی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے 1950ء کی دہائی میں قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے اطراف کچی بستیاں بسانا شروع کردیں۔ اُس وقت شہر کے بیچوں بیچ سابقہ بندر روڈ کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی جھگیوں پر مشتمل آبادی کا قائم ہونا شہر کی خوب صورتی اور انفرااسٹرکچر پر بدنما داغ تصور کیا جانے لگا۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس زمانے میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے اپنے اپنے ادوار میں ان کچی آبادیوں کو مسمار کرنا شروع کردیا، خاص طور پر ایوب خان دورِ حکومت میں مزار قائد کے ساتھ مسمار کی جانے والی جھگیوں کے متبادل مختلف علاقوں میں مکانات دیے گئے۔ ان میں لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، ملیر، نارتھ ناظم آباد، نئی کراچی جیسی کئی آبادیاں شامل ہیں۔ اس ساری کارروائی کا مقصد شہر کی خوب صورتی کو بچانا تھا۔ لیکن غیر قانونی تعمیرات یعنی کچی بستیوں کے نام پر نئے سرے سے جھگیاں ڈالی جاتی رہیں۔ متعدد بار غریب وہاں آبادی بساتے اور حکومت مسمار کردیتی۔ آخرکار 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی جونیجو حکومت نے اس مسئلے کا حل یعنی غیر قانونی تعمیرات روکنے کا بندوبست کچھ اس طرح کیا کہ ان لوگوں کو جو اُس وقت مزارِ قائد کے اطراف غیر قانونی طور پر آباد تھے 40 گز کے پلاٹ الاٹ کردیے، یوں نہ صرف غیر قانونی تعمیرات کو روک دیا بلکہ شہر کے درمیان اس کچی آبادی کو ایک نقشے کے تحت بناکر کراچی کے اس انفرااسٹرکچر کو بھی بچالیا جس کی بنیاد پر یہ شہر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ علاقے کے اُن غریبوں کے لیے جن کے سر پر اپنی ذاتی چھت نہ تھی اُس وقت کی حکومت کی طرف سے ایک ایسا تحفہ ہے جس نے لوگوں کو جائداد کا مالک بنا دیا۔ اُس وقت کی حکومت نے غریبوں کی آبادکاری کے لیے جہاں جہاں بھی ٹاؤن بنائے وہ بنیادی سہولتوں سے آراستہ تھے۔ چوڑی گلیاں، کھیل کے میدان، اسکول، رفاہی پلاٹ، ہرے بھرے پارک تعمیر کیے گئے، ہر علاقے میں روشنی کے رخ کا خاص خیال رکھا گیا۔ غرض یہ کہ بے گھروں کے لیے گھر کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی سہولتوں کا بھی بندوبست کردیا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ادارے اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگے، اقربا پروری میں اضافہ ہونے لگا، سیاسی جماعتوں میں عوامی خدمت کے نام پر کرپشن اور پیسہ کمانے کی وہ دوڑ شروع ہوگئی جس میں عوامی منصوبے ایک طرف کرکے جائز اور ناجائز طریقوں سے مال بنانے کے منصوبے بنائے جانے لگے۔ ایک طرف یہ ہوتا رہا تو دوسری جانب لوگوں کو خوف میں مبتلا کرکے سرکاری زمینوں پر قبضے کیے جانے لگے، اداروں کو گھر کی لونڈی بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جانے لگا۔ یعنی کراچی کے تمام اداروں سمیت پورے انفرااسٹرکچر میں تباہی مچا دی گئی۔ سیوریج سسٹم، پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں اور پلوں کی صورتِ حال ابتر ہونے لگی۔ مرکز صحت، تعلیمی اداروں، گزر گاہوں، کھیل کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کی جاتی رہی، چھوٹی جگہوں پر بڑے بڑے پلازہ تعمیر کرنے کے لیے جعلی اجازت نامے جاری کیے جانے لگے، یہاں تک کہ سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے بنائی جانے والی فٹ پاتھوں پر بھی قبضے کیے جانے لگے۔ عظیم تر کراچی کے نام سے متعدد بار منصوبے بنائے گئے لیکن صرف کاغذوں کی حد تک… جس کی بدولت اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ خردبرد کیے گئے جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آخر کب تک کراچی کے عوام کی حق تلفی ہوتی رہے گی؟ وہ کون سا دن ہوگا جب یہاں حکمرانی کرنے والے بااختیار ہوں گے؟ ایسے عوام دوست نمائندے جو نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی تقدیر بدل کر رکھ دیں، کب نصیب ہوں گے؟ ایسے حاکم کب ملیں گے جو اس شہر کو ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بنادیں؟ یہ ایک ہی صورت میں ممکن ہے۔ وہ صورت کیا ہے اسے میں اپنی نظم کے چند مصرعے تحریر کرکے بیان کردیتا ہوں:
”قوم کو اٹھنا پڑے گا حکمرانوں کے خلاف
جو مسلط ہو چکے ہیں ان گھرانوں کے خلاف
ظلم ہوتا ہے جہاں پر ایسے تھانوں کے خلاف
بد تمیز و بد کلام و بد زبانوں کے خلاف“