سیاسی گورکنوں کے طریقہ واردات

443

گورکنی بھی رزق کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، مگر اس کام کو انجام دینے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے اور دل گردے یعنی بڑے جگرے کا کام ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کو مُردہ حالت میں منوں مٹی میں دفنانا صبر آزما کام ہے۔ دفنانے کے لیے معصوم اور شیرخوار بچوں کے علاوہ کڑیل جوان اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ حسین خوب صورت عورتیں اور جوان لڑکیاں لائی جاتی ہیں اور جنازے کے ساتھ آنے والے عزیز و اقارب بیٹے، بھائی اُس وقت زار و قطار روتے ہیں جب مُردے کو گورکن قبر میں اتارتا ہے۔ لہٰذا یہ کام گورکن کو پتھر دل بنا دیتا ہے۔

گورکن کی روزی روٹی لوگوں کے مرنے سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ لوگ مریں گے گورکن کو اتنی زیادہ آمدنی ہوگی۔ حتیٰ کہ وباؤں کے زمانے میں تو گورکنوں کو فرصت ہی نہیں ملتی۔ مگر جب اموات کی شرح کم ہوجائے تو گورکن یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ:

گورکن کے بال بچے بھوک سے نڈھال ہیں
کوئی مر جائے تو یہ جی اٹھیں میرے خدا

یہ تو وہ گورکن ہیں جو ہر آن آبادیوں میں ہوتے ہیں جہاں کے لوگ اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں۔ مگر میرا موضوع سیاسی گورکنوں کے بارے میں ہے جو قبرستانوں میں نہیں بلکہ عالی شان محلات میں رہتے ہیں، ایوانِ اقتدار ان کا کلب اور ڈیرا ہے۔ یہ ملکوں پر حکمرانی کرتے ہیں، یہ ظاہری طور پر بڑے شریف النفس، عوام کے ہمدرد، خدمت گار اور بہی خواہ نظر آتے ہیں، مگر درحقیقت بڑے سفاک، کرپٹ اور عوام کو اجتماعی طور پر قتل کرنے اور ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ یہ ملک کے تمام وسائل اور اختیارات پر اپنی مکاری اور چالاکی سے قبضہ کرلیتے ہیں۔ ان کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ حزبِ اقتدار ہوتا ہے اور دوسرا گروہ حزبِ اختلاف۔ یہ عوام کے سامنے ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں مگر در پردہ ایک سکے کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ اور نگہبان ہوتے ہیں۔ جب مشترکہ مفادات کی بات آتی ہے تو شیر و شکر ہوجاتے ہیں۔ یہ سمندری بلا ’ہشت پا‘ کی طرح 8 ہاتھ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان سے بچ کر کوئی شکار جا نہیں سکتا۔ قبرستان کا گورکن تو مُردوں کو دفناتا ہے، مگر یہ تو عوام کو اجتماعی طور پر زندہ درگور کرتے ہیں۔ یہ اتنے شاطر اور مکار ہیں کہ ہر بار عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں ، ارکانِِ پارلیمنٹ کا گروہ ہے جو ریاست کے تمام اداروں پر قابض ہے۔ یہ عوامی حکمرانی کے نام پر غلیظ اور اپنے آلہ کار الیکشن کمیشن کے ذریعے جعلی انتخابات کراتے ہیں اور ملک پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

ان کے ہاتھ میں قانون کا ڈنڈا اور تعزیر کا قلم ہوتا ہے جو صرف عوام کے لیے ہوتا ہے۔ یہ خود ملک کے تمام قوانین سے بالاتر ہوتے ہیں۔ روٹی چوری کرنے والے جیل میں چکی پیستے ہیں مگر یہ ملکی خزانے کے ڈاکو وزیراعظم، صدر، وزیر، مشیر بن کر غریبوں کا نوالہ کھا جاتے ہیں۔ ان کے کتّے منرل واٹر پیتے ہیں مگر غریب عوام ٹینکر کا کھارا پانی خرید کر پیتے ہیں۔ ان کا علاج لندن اور امریکا میں سرکاری خزانے سے ہوتا ہے، مگر غریب عوام کو سرکاری اسپتالوں سے ایک گولی تک نہیں ملتی۔ یہ دراصل مافیا کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج، پولیس‘ سول بیوروکریسی سب کے سب ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں۔ یہ ٹیکس نہیں دیتے بلکہ عوام کو ٹیکسوں کے ذریعے اَدھ مرا کرکے خودکشی پر مجبور کردیتے ہیں۔ جعلی دوا بنانے، سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے اور اناج کا ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف جب کوئی آواز اٹھتی ہے تو یہ اس کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتے ہیں۔

ظلم پروردہ تادیب کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاقِ تادیب سے انصاف کے بت گھورتے ہیں
مسندِ عَدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
مگر اے عظمتِ انساں کے سنہرے خوابو!
میں کسی تاج کی سطوت کا پرستار نہیں
میرے افکار کے عنوانِ ارادت تم ہو
میں تمہارا ہوں لٹیروں کا طرف دار نہیں

یہ گورکن اتنے سفاک اور پتھر دل ہیں کہ زلزلے کے دوران مُردوں کے کفن اور سلیب تک بیچ کھاتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان آپس میں تقسیم کرکے کھا جاتے ہیں۔ ملک کی عزت مآب بیٹیوں کو نوکری کا لالچ دے کر بردہ فروشوں کے ہاتھوں بین الاقوامی منڈی میں بیچ دیتے ہیں۔ ڈالر کے عوض مجاہدین کا سودا کرتے ہیںُ اور کیوں نہ کریں یہ اُنہی غداروں کی اولادیں ہیں جنہوں نے جنگ ِ آزادی کے وقت مجاہدینِ ہند کی مخبری کرکے اور انگریزوں کا ساتھ دے کر ’’سر‘‘ اور دیگر خطابات حاصل کیے اور بڑی بڑی جاگیریں لیں۔ ان کا ایک بڑا ادارہ اقوام متحدہ کی صورت امریکا کے شہر نیویارک میں ہے جہاں یہ اکٹھے ہو کر اقوام عالم کے مظلوم عوام کی قسمت کا فیصلہ کر تے ہیں۔ وہاں سے قرارداد پاس کرکے کبھی ویت نام ، کبھی عراق ، لبنان ، شام ،افغانستان اور کبھی افریقہ کے غریب عوام پر ٹنوں کے حساب سے بارود برسا کر لاکھوں عوام کو تہ تیغ کر دیتے ہیں، دواؤں کی بندش کے ذریعے عراق میں چار پانچ لاکھ بچوں کو ہلاک کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ کبھی بش سینئر اور جونیئر، ٹونی بلیئر، اور کبھی جنرل سیسی، پرویز مشرف ، حافظ الاسد کی صورت نمودار ہوکر اجتماعی ہلاکت کرتے ہیں اور چنگیز و ہلاکو کی روحوں کو شرمندہ کرتے ہیں۔ قرآن نے انہی کے متعلق کہا ہے کہ:

’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ)

انہوں نے ہی اسرائیل کی دہشت گردی کو اقوام متحدہ کی حمایت دے کر فلسطینی عوام کے قتل عام کا لائسنس دے رکھا ہے۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ پر قبضے کو تسلیم کیا۔ جب کہ عربوں کے سروں پر مسلط بزدل بادشاہ خاموشی سے اس ظلم میں شریکِ کار ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے پاس نہ غیرت ہے نہ حمیت ہے۔

احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے
یہ وہ موت ہے جس کی خبر نہیں ہوتی

قبرستانوں کے گورکن تو محنت کر کے زیادہ سے زیادہ مُردوں کے کفن بیچنے کا گناہ کرتے ہیں۔ مگر یہ سیاسی گورکن کفن تو کیا زندہ انسانوں کے گردے تک بیچ ڈالتے ہیں۔ معصوم بچوں کو اغوا کرکے انہیں اپاہج بناکر بھیک منگواتے ہیں۔ کون سا ایسا گھناؤنا دھندہ ہے جو یہ اپنی سرپرستی میں نہیں کرواتے! یہ تو قبرستان کی زمینوں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔

کشتیاں اب کنارے پر ڈوبنے لگیں
ساحل کے دیوتا نے کفن کی دکان کھولی ہے

یہ سلسلہ اور ظلم و جبر کا کاروبار اُس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کوئی ایسا عوامی انقلاب برپا نہیں ہو جاتا جو قوتِ مسّخرہ بن کر اِن کے عشرت کدوں کو جلا کر راکھ نہ کر دے اور ان سب کو ٹکٹکی پر نہ لٹکا دے۔

نہ گفتگو سے نہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
بجھے چراغ لٹی عصمتیں چمن اجڑا
یہ غم جس نے دیے ہیں کب خوشی سے جائے گا

ان سیاسی گورکنوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر کوچہ و بازار میں یہ نعرہ بلندکرنے کی ضرورت ہے:

اے روحِ عصر جاگ کہاں سو گئی ہے تُو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں صلیب سے

انقلاب کے داعی انقلابیوں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ کمین گاہیں بھی ہوتی ہیں۔ ان کا اکثر بسیرا جنگل‘ صحرا اور پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
مرد‘ کوہستانی یا بندۂ صحرائی

سید علی گیلانی مرحوم نے اپنی کتاب ’’رودادِ قفس‘‘ میں حفیظ میرٹھی کا یہ شعر لکھا ہے:

سارا کلیجہ کٹ کٹ کر جب اشکوں میں بہہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے

حصہ