مغرب کے 6 بچے بمقابلہ مشرق کے 7 بچے

566

مغرب میں سخت قانون کے باوجود انسانی اخلاقیات کا بحران مشرق میں محض انسانی رویوں پر انسانی حقوق کا تحفظ

مغرب کہ جہاں انسانی حقوق و اخلاقیات کا درس نہ صرف ریاست کی سطح پر دیا جاتا ہے بلکہ ریاست انسانی حقوق کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتی ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے سے روکنے کے لیے نہ صرف ریاست وقتاً فوقتاً قانون سازی کرتی رہتی ہے بلکہ قانون پر عمل درآمد کرنے کے لیے بچوں اور خواتین کے لیے کام کرنے والے افراد کو ان قوانین سے آگاہی اور ان کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف ٹریننگ بھی دی جاتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ خواتین اور بچوں کا استحصال ( مغرب کی تعریف کے مطابق) نہ ہو، اس کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ خواتین و بچوں کے لیے کام کرنے والوں کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہ ہو، اور باقاعدہ اس کرمنل ریکارڈ کو بار بار اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تمام تر قانون سازی، احتیاط اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے باوجود کیوں مغربی معاشروں میں اب ایسے افراد بار بار دریافت ہورہے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں انتہائی سفاک واقع ہوئے ہیں؟ مغرب کا پورا نظام تربیت و قانون ایسے افراد کو ان پیشوں میں جانے سے روکنے میں کیوں ناکام رہا کہ جہاں خواتین اور بچے براہ راست ان کی رسائی میں ہوں اور بعض اوقات ان کی زندگی و موت کا معاملہ بھی شاید ان کے سپرد ہو۔ یہ وہ سوالات ہیں جو گزشتہ کچھ دنوں سے مغرب کے سامنے ہیں، اور یہ سوالات اُس وقت سامنے آئے جب ایک انتہائی سفاک قاتل خاتون نرس کو مانچسٹر کراؤن کورٹ نے 6 نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے اور 7 بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات میں سزا سنائی۔ 33 سالہ برطانوی سفید فام خاتون نرس لوسی لیٹ بی نے اپنے نرسنگ کیریئر کا آغاز 20 سال کی عمر میں کیا اور وہ نرسنگ کی ٹریننگ کے بعد چیسٹر اسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بطور نرس تعینات ہوئی کہ جہاں اس نے جون 2015 ءسے جون 2016ء تک محض ایک سال کے مختصر عرصے میں 6 نوزائیدہ بچوں کو قتل اور 7 دیگر کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے جوبرطانوی میڈیکل کی تاریخ کا ایک سفاک ترین باب بن گیا ہے۔ ابھی گوکہ ان 6 بچوں کو قتل کرنے کے جرم میں نرس کو تاحیات قید بھگتنا ہوگی۔ لیکن پولیس 13 اور بچوں کی موت کے حوالے سے بھی تحقیقات کررہی ہے۔ بچوں کی یہ اموات بھی اس دوران ہوئیں جب یہ سفاک قاتل نرس اپنی ٹریننگ کے دوران بچوں کے یونٹ میں ڈیوٹی پر تھی۔ اس سفاک قاتلہ کو سزا اور پولیس کو اس تک پہنچنے میں 5 سال کا عرصہ لگا اور 10 ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعد نرس کو بالآخر تاحیات قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ برطانیہ کی تاریخ کی سفاک ترین خاتون مجرم ہے اور تاحیات سزا پانے والی تیسری برطانوی خاتون ہے اس سے قبل سفاک ترین مجرم کا خطاب برطانوی خاتون روز ویسٹ کے پاس تھاجس نے 9 نوعمر لڑکیوں کو تشدد کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ قتل کیا تھا اور برطانوی عدالت نے 1995ءمیں سزا سنائی تھی، ایک اور برطانوی خاتون جس کو تاحیات قید کی سزا سنائی جاچکی ہے وہ جوانا کرسٹین ڈینی ہے جس کو تین افراد کے قتل کے الزام میں نومبر 2013ء میں سزا سنائی گئی۔

مغرب میں حقوق کے حوالے سے قانون سازی اور نت نئی قانون سازی اپنے برگ و بار لانے میں کیوں ناکام ثابت ہورہی ہے؟ جیسے جیسے ریاست قانون سازی کرتی ہے ویسے ویسے جرائم کی نئی طرح دریافت ہوتی ہے کہ جس تک پہنچنے اور اس کو قانون کے تحت غیر قانونی قرار دینے میں ایک طویل عرصہ لگ جاتا ہے، پھر اس کے بعد مزید ایک نئی واردات سامنے آتی ہے جو پھر مغرب کے معاشرے میں ایک وقتی ارتعاش پیدا کردیتی ہے۔ لیکن اس وقتی ارتعاش اور بار بار کی قانون سازی کے باوجود مغرب کی انسانی حقوق کے تحفظ ( مغربی تصور کے مطابق) کا ہدف حاصل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ نہ تو ریاست ہے اور نہ ہی قانون سازی، بلکہ مغرب کا تصورِ انسان ہے جس کو درست کرنے، از سرنو اس پر سوچ بچار کرنے اور اس کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کا تصورِ انسان دراصل ”آج اور ابھی“ کے گرد گردش کرتا ہے جس کا مطلب محض یہی ہے کہ دنیا ایک تفریح گاہ ہے جہاں انسان کا کام دنیا کی لذات کا حصول ہے، اور اس کے لیے کامیابی و ناکامی کا جو مادی پیمانہ مقرر کردیا گیا ہے وہی کامیابی و ناکامی ہے، اس کے سوا سب محض دھوکہ و فریب ہے۔

اس انسانی تصور کے ساتھ کہ جہاں دنیا ہی سب کچھ ہو، دنیا میں آنے والی مشکلات اور معاملات انسان کا اپنا معاملہ بن جائیں کہ جہاں انسان کو محض اپنے بل بوتے پر ہی تمام کام انجام دینے ہوں، جہاں خدا، وحی، رسالت اور الہامی کتاب یقینی علم کا کوئی منبع و ماخذ نہ ہوں وہاں ریاست اگر اپنے تمام تر بہترین وسائل بروئے کار لائے تو بھی انسانی تصورِ مادیت کو کم نہیں کرسکتی۔ آج مغرب کا معاملہ بھی یہی ہے اور سفاک قاتل نرس اس کا ایک بہترین عملی نمونہ ہے جس پر اب جتنی بھی تحقیقات ہوں گی ان میں یہی بات سامنے آئے گی کہ اس کا مجرد رہنا یعنی شادی نہ کرنا، کسی ڈاکٹر سے اس کے مبینہ تعلقات جس کا وہ انکار تو کررہی ہے لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ موجود ہے اور نوزائیدہ بچوں کی جانب سے ان کے والدین کی لاپروائی نے اس کو ان بچوں کے ساتھ یہ سلوک کرنے پر مجبور کیا۔ گوکہ کہیں نہ کہیں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اس نے ان باتوں کو تحریری شکل دی ہے لیکن عدالت میں کیونکہ بیان کی اہمیت حتمی ہے لہٰذا اس کو سزا دینے کی وجہ نہیں بنایا گیا۔

گزشتہ تحاریر میں بھی مغرب میں کم شرح افزائش کی بنیادی وجوہات میں ایک بڑی وجہ آزاد زندگی کے تصور کی جانب تفصیلاً لکھا جاچکا ہے کہ جہاں بچے بھی اب نوجوانوں کو بوجھ محسوس ہوتے ہیں اور وہ اب ان سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں تاکہ وہ زندگی کے تمام مزے لوٹ سکیں اور بچے ان کی راہ میں نہ آئیں اسی طرح اپنے وسائل میں کسی اور کو شریک نہ کرنا یعنی جو بھی وسائل ان کے ہیں ان پر محض ان کا حق ہے، یہ سوچ بھی دراصل مادہ پرستی کا مظہر ہے کہ جہاں کمانے اور کھانے کا تصور کسی خدا کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق نہ ہو تو وہاں نہ رازق خدا تصور کیا جاتا ہے اور نہ اس کو بندوں کو اس رزق سے فیض پہنچانے کا تصور انسان کو خدا سے قریب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

محض لوسی ہی نہیں پورا مغربی معاشرہ ہی جہاں آج اور ابھی کا تصور موجود ہے کسی نہ کسی طور پر ان جرائم کا ارتکاب کرتا نظر آتا ہے، کہیں یہ عمل بچوں کی ولادت کو روکنے، ان کو قبل از وقت رحم مادر میں قتل کردینے یا پھر ان بچوں کو اگر وہ اپنی خواہش کے برعکس پیدا ہوجائیں تو ریاست کے حوالے کرکے خود آزاد زندگی گزارنے کا تصور دیتا ہے۔ مغرب میں ان سفاک تصورات کی اصل وجہ یہ ہے اس نئی نسل نے کسی کو اپنے ساتھ بطور والدین اس طور منسلک نہیں پایا، نہ ان کو معلوم ہوا کہ والدین اپنی ہر خوشی و غمی، رزق اور وسائل میں اپنے بچوں کو کیسے شریک کرتے ہیں۔ جب یہ انسانی نمونہ ان کے سامنے موجود ہی نہ ہو تو محض کتابوں یا قانون سے انسانوں کی تربیت ممکن نہیں ہوتی۔ انسانوں کی تربیت کے لیے کامل انسانی رویوں کا مشاہدہ ضروری ہے۔

مغرب جسےآج اپنی کامیابی تصور کررہا ہے وہ اس کا مادی انقلاب ہے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات بہرکیف سامنے آرہی ہے کہ انسان بلند ترین مادی وسائل رکھنے کے باوجود بھی خوش نہیں۔ آپ پورے مغرب کا مشاہدہ کریں تو یہ بات بخوبی واضح ہوگی کہ جہاں جہاں مادی وسائل کی فراوانی ہے وہاں انسان سکون کی تلاش میں اب نشے کا سہارا لے رہا ہے۔ بلند ترین فی کس آمدن والے علاقوں میں نشے کی شرح زیادہ ہے اور مغرب اس سے نمٹنے میں ناکام ہے، اور اس کو بہت سے مغربی ممالک نے کسی نہ کسی طور قانونی بھی قرار دے دیا ہے۔

مغرب کا موازنہ جب بھی کہیں مشرق کے انسانی حقوق و رویوں سے کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ یہ بات قانون کی حد تک تو درست ہے لیکن محض قانون نہیں بلکہ انسانی رویّے مل کر معاشروں کو تشکیل دیتے ہیں۔ آج برطانیہ کے اخبارات کے صفحہ اول پر دوخبریں شائع ہوئی ہیں ایک سفاک قاتل نرس لوسی کے حوالے سے اور دوسری 7 بچوں کو جوکہ بٹگرام پاکستان میں ایک چیئر لفٹ میں پھنس گئے تھے ان کی مدد کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ہے۔ ان دونوں خبروں میں ایک تصور واضح ہے کہ مغرب جہاں انسانی حقوق کے بہترین قوانین موجود ہیں وہاں بھی 6 بچوں کو ایک سفاک نرس کے ہاتھوں موت سے نہ بچایا جاسکا، اور وہ مشرق یا پاکستان جہاں انسانی حقوق کے قوانین بہت تھوڑے ہیں وہاں مستحکم انسانی اخلاقیات کی بناء پر ریاست سے لے کر عام افراد تک ان 7 بچوں کو انتہائی معمولی وسائل کے ہوتے ہوئے بھی بچانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ آج مغرب کے 6 بچے بمقابلہ مشرق کے 7 بچے ہیں کہ جہاں انسانی وسائل، قانون، اخلاقیات کے محاذ پر بہت پیچھے نظر آنے والا مشرق کامیاب ہوا، اس کی بنیادی وجہ انسان کا تصورِ انسان ہے۔ انسان کو مادیت کے بجائے خدا پر بھروسہ کرنے، اپنے وسائل کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھنے بلکہ خلقِ خدا تک پہنچانے اور اس زندگی کو محض ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک اور زندگی کا اصل امتحان قرار دیتا ہے کہ جس سے انسان اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچتا ہے اور معاشرے میں ذاتی فلاح کے بجائے اجتماعی فلاح کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ گوکہ انسانی حقوق کے ضمن میں مشرق پیچھے ہے، لیکن یہ قوتِ محرکہ جوکہ مشرقی انسان کو قوانینِ ریاست کے بجائے خود انسان بننے پر مجبور کرتی ہے اس میں مشرق اس وقت بھی آگے ہے۔ مشرق و مغرب کے تصورِ دنیا کا معاملہ محض مشرق و مغرب کا معاملہ نہیں بلکہ تصورِ خدا، انسان، وحی اور کتاب کا معاملہ ہے۔ نہ تو مغرب محض مادی وسائل میں کامیابی سے انسانی فلاح کا راستہ ڈھونڈ سکتا ہے اور نہ مشرق محض انسانی رویوں پر۔ مغرب کو خدا، کتاب، وحی کی جانب توجہ کرنا ہوگی اور مشرق کو ان ہی اصولوں کی بنیاد پر قانون سازی کرنا ہوگی، ورنہ انسانیت یونہی بھٹکتی رہے گی اور نہ مغرب میں سکون میسر ہوگا نہ مشرق میں۔

حصہ