اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو دعا سکھائی ہی اس کا بھی اہتمام کیجئے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالُحُزْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الُعَجْزِ وَاْلکَسَلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الُجُبْنِ وُالُبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ(بخاری، مسلم)
’’خدایا! میں نے اپنے کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، پریشانی سے، غم سے، بے چارگی سے، سستی اور کاہلی سے، قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ کو دبا کر رکھیں‘‘۔
-3 اپنے جسم پر برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیے، جسمانی قوتوں کو ضائع نہ کیجیے، جسمانی قوتوں کا یہ حق ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے او ران سے ان کی برداشت کے مطابق اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اتنا ہی عمل کرو جتنا کرسکنے کی تمہارے اندر طاقت ہو۔ اس لیے کہ خدا نہیں اکتاتا یہاں تک کہ خود تم کو ہی اکتا جائو‘‘ (بخاری)
حضرت ابوقیسؓ فرماتے ہیںکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوئے جن کہ نبیؐ خطبہ دے رہے تھے۔ حضرت ابوقیس دھوپ میں کھڑے ہوگئے۔ نبیؐ نے حکم دیا تو وہ سائے کی طرف ہٹ گئے۔ (الادب المفرد)
اور آپؐ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سائے میں۔
قبلہ اباہلہ کی ایک خاتون حضرت مجیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میرے ابا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دین کا علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور (دین کی کچھ اہم باتیں معلوم کرکے) گھر واپس آگئے پھر ایک سال کے بعد دوبارہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بالکل نہ پہچان سکے) تو انہوں نے پوچھا یارسول اللہ! کیا آپؐ نے مجھے پہچانا نہیں؟ نبیؐ نے فرمایا: ’’نہیں میں نے تو تمہیں نہیں پہچانا۔ اپنا تعارف کرائو؟‘‘، انہوں نے کہا: ’’میں قبیلہ، باہلہ کا ایک فرد ہوں پچھلے سال بھی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا‘‘۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’یہ تمہاری حالت کیا ہورہی ہے!‘‘ پچھلے سال جب آئے تھے تب تو تمہاری شکل و صورت اور حالت بڑی اچھی تھی!‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے میں آپؐ کے پاس سے گیا ہوں، اس وقت سے اب تک برابر روزے رکھ رہا ہوں، صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم نے خوامخواہ اپنے کو عذاب میں ڈالا (اور اپنی صحت برباد کر ڈالی) پھر آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ رمضان میں مہینے بھر کے روزے رکھو، اور اس کے علاوہ ہر مہینے ایک روزہ رکھ لیا کرو‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’حضور! ایک دن سے زیادہ کی اجازت دیجئے۔ ارشاد فرمایا اچھا ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو انہوں نے پھر کہا، حضورؐ کچھ اور زیادہ کی اجازت دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اچھا ہر مہینے میں تین دن‘‘۔ انہوں نے کہا، حضور کچھ اور اضافہ فرمایئے، آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا ہر سال محرم مہینوں میں روزے رکھو، اور چھوڑ دو۔ ایسا ہی ہر سال کرو‘‘۔ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپؐ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا ان کو ملایا پھر چھوڑ دیا ( اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ رجب، شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ میں روزے رکھا کرو اور کسی سال ناغہ بھی کردیا کرو) اور نبیؐ کا ارشاد ہے ’’مون کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کو ذلیل کرے‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’مومن بھلا کیسے اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اپنے آپ کو ناقابل برداشت آزمائش میں ڈال دیتا ہے‘‘ (ترمذی)
-4 ہمیشہ سخت کوشی، جفاکشی، محنت، مشقت اور بہادری کی زندگی گزاریئے، ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیے اور سخت جان بن کر سادہ اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کا اہتمام کیجیے۔ آرام طلب، سہل انگار، نزاکت پسند، کاہل، عیش کوش، پست ہمت اور دنیا پرست نہ بنیے۔
نبیؐ جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجنے لگے تو ہدایت فرمائی کہ ’’معاذ! اپنے کو عیش کوشی سے بچائے رکھنا۔ اس لیے کہ خدا کے بندے عیش کوش نہیں ہوتے۔ (مشکوٰۃ)
اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’سادہ زندگی گزارنا ایمان کی علامت ہے‘‘ (ابودائود)
نبیؐ ہمیشہ سادہ اور مجاہدانہ زندگی گزارتے تھے اور ہمیشہ اپنی مجاہدانہ قوت کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کی کوشش فرماتے تھے۔ آپؐ تیرنے سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اس لیے کہ تیرنے سے جسم کی بہترین ورزش ہوتی ہے۔ ایک بار ایک تالاب میں آپؐ اور آپؐ کے چند صحابی تیر رہے تھے۔ آپؐ نے تیرنے والوں میں سے ہر ایک کی جوڑی مقرر فرمادی، کہ ہر آدمی اپنے جوڑ کی طرف تیر کر پہنچے چنانچہ آپؐ کے ساتھی حضرت ابوبکرؓ قرار پائے۔ آپ تیرتے ہوئے ان تک پہنچے اور جاگر ان کی گردن پکڑلی۔
نبیؐ کو سواری کے لیے گھوڑا بہت پسند تھا۔ آپؐ اپنے گھوڑے کی خود خدمت فرماتے، اپنی آستین سے اس کا منہ پونچھتے اور صاف کرتے۔ اس کی ایال کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے بٹتے اور فرماتے بھلائی اس کی پیشانی سے قیامت تک کے لیے وابستہ ہے‘‘۔
حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’تیر چلانا سیکھو۔ گھوڑے پر سوار ہوا کرو، تیر اندازی کرنے والے مجھے گھوڑوں پر سوار ہونے والوں سے بھی زیادہ پسند نہیں اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑی دی اس نے خدا کی نعمت کی ناقدری کی‘‘ (ابودائود)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا۔ جس نے خطرے کے موقع پر مجاہدین کی پاسبانی کی اس کی یہ رات شب قدر سے زیادہ افضل ہے۔ (حاکم)
نبیؐ نے صحابہ کرامؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’میری امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تو کسی نے پوچھا یا رسولؐ اللہ! کیا اس زمانے میں ہماری تعداد اتنی کم ہوجائے گی کہ ہمیں نگل لینے کے لیے قومیں متحد ہوکر ہم پر ٹوٹ پڑیں گی؟ ارشاد فرمایا، نہیں، اس وقت تمہاری تعداد کم نہ ہوگی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہوگے۔ البتہ تم سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہوگے۔
تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکل جائے گا اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کرلے گی۔ اس پر ایک آدمی نے پوچھا یا رسولؐ اللہ! یہ پست ہمتی کس وجہ سے آجائے گی؟ آپؐ نے فرمایا ’’اس وجہ سے کہ تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کرنے لگوگے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’بہترین زندگی اس شخص کی زندگی ہے جو اپنے گھوڑے کی باگیں پکڑے ہوئے خدا کی راہ میں اس کو اڑاتا پھرتا ہے، جہاں کسی خطرے کی خبر سنی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوڑ گیا، قتل اور موت سے ایسا بے خوف ہے گویا اس کی تلاش میں ہے‘‘ (مسلم)
-5 خواتین بھی سخت کوشی اور محنت و مشقت کی زندگی گزاریں۔ گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کریں، چلنے پھرنے اور تکلیف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں، آرام طلبی، سستی اور عیش کوشی سے پرہیز کریں اور اولاد کو بھی شروع سے سخت کوش، جفاکش اور سخت جان اٹھانے کی کوشش کریں، گھر میں ملازم ہوں تب بھی اولاد کو بات بات میں ملازم کا سہارا لینے سے منع کریں، اور عادت ڈلوائیں کہ بچے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔ صحابیہ عورتیں اپنے گھروں کا کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ باورچی خانے کا کام خود کرتیں، چکی پیستیں، پانی بھر کر لاتیں، کپڑے دھوتیں، سینے پرونے کا کام کرتیں اور محنت مشقت کی زندگی گزارتیں اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور پانی پلانے کا نظم بھی سنبھال لیتیں۔ اس سے خواتین کی صحت بھی بنی رہتی ہے، اخلاق بھی صحت مند رہتے ہیں اور بچوں پر بھی اس کے اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں پسندیدہ بیوی وہی ہے جو گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہو، اور جو شب و روز اس طرح اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں لگی ہوئی ہو کہ اس کے چہرے بشرے سے محنت کی تکان بھی نمایاں رہے اور باورچی خانے کی سیاہی اور دھوئیں کا ملگجاپن بھی ظاہر ہو رہا ہو۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’میں اور ملگجے گالوں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے‘‘ (آپؐ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے ہوئے بتایا)۔
-6 سحر خیزی کی عادت ڈالیے سونے میں اعتدال کا خیال رکھیے نہ اتنا کم سویئے کہ جسم کو پوری طرح آرام و سکون نہ مل سکے اور اعضا میں تکان اور شکستگی رہے اور نہ اتنا زیادہ سویئے کہ سستی اور کاہلی پیدا ہو۔ رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کی عادت ڈالیے۔
صبح اٹھ کر خدا کی بندگی بجالایئے۔ اور چمن یا میدان میں ٹہلنے اور تفریح کرنے کے لیے نکل جائے، صبح کی تازہ ہوا صحت پر بہت اچھا اثر ڈالتی ہے، روزانہ اپنی جسمانی قوت کے لحاظ سے مناسب اور ہلکی پھلکی ورزش کا بھی اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باغ کی تفریح کو پسند فرماتے تھے اور کبھی کبھی خود بھی باغوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐ نے عشا کے بعد جاگنے اور گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا عشا کے بعد وہی شخص جاگ سکتا ہے جس کو کوئی دینی گفتگو کرنی ہو یا پھر گھر والوں سے ضرورت کی بات چیت کرنی ہو‘‘۔
-7 ضبط نفس کی عادت ڈالیے۔ اپنے جذبات، خیالات، خواہشات اور شہوات پر قابو رکھیے، اپنے دل کو بہکنے، خیالات کو منتشر ہونے اور نگاہ کو آوارہ ہونے سے بچایئے۔ خواہشات کی بے راہ روی اور نظر کی آوارگی سے قلب ودماغ، سکون و عافیت سے محروم ہوجاتے ہیں اور ایسے چہرے جوانی کے حسن و جمال، ملاحت و کشش اور مردانہ صفات کی دل کشی سے محروم ہوجاتے ہیں اور پھر وہ زندگی کے ہر میدان میں پست ہمت، پست حوصلہ اور بزدل ثابت ہوتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’آنکھوں کا زنا بدنگاہی اور زبان کا زنا بے حیائی کی گفتگو ہے، نفس تقاضے کرتا ہے اور شرمگاہ یا تو اس کی تصدیق کردیتی ہے تکذیب؟‘‘
کسی حکیم و دانا نے کہا ہے:
’’مسلمانو! بدکاری کے قریب نہ پھٹکو، اس میں چھ خرابیاں ہیں، تین خرابیاں تو دنیا کی ہیں اور تین آخرت کی۔ دنیا کی تین خرابیاں یہ ہیں کہ اس سے
٭ آدمی کے چہرے کی رونق اور کشش جاتی رہتی ہے۔
٭ آدمی پر فقرو افلاس کی مصیبت نازل ہوتی ہے۔
٭اور اس کی عمر کوتاہ ہوجاتی ہے۔
-8 نشہ آور چیزوں سے بچیے۔ نشہ آور چیزیں دماغ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور معدے کو بھی شراب تو خیر حرام ہے ہی اس کے علاوہ بھی جو نشہ لانے والی چیزیں ہیں ان سے بھی پرہیز کیجیے۔
-9 ہرکام میں اعتدال اور سادگی کا لحاظ رکھیے، جسمانی محنت میں، دماغی کاوش میں، ازدواجی تعلق میں، کھانے پیتے میں، سونے اور آرام کرنے میں، فکر مند رہنے اور ہنسنے میں، تفریح میں اور عبادت میں، رفتار اور گفتار میں غرض ہر چیز میں اعتدال اختیار کیجیے اور اس کو غیر و خوبی کا سرچشمہ تصور کیجیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی بھلی ہے اور عبادت میں درمیانی روش کیا ہی بہتر ہے‘‘۔ (مسند بزار، کنزالعمال)
(جاری ہے)