کراچی میں حکومتی سطح پر پبلک لائبریریاں قائم ہیں لیکن ان اداروں کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں جن سے قارئین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے ادبی ادارے حلقۂ تخلیق ادب پاکستان کے زیر اہتمام ’’کراچی کی پبلک لائبریریاں اور ہماری ذمے داریاں‘‘ کے موضوع پر کراچی پریس کلب میں ہونے والے سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کا موضوع بہت اہم ہے پہلے تو کراچی میں لائبریریوں کا جال بچھا ہوا تھا لیکن سرکاری عدم توجہ کے باعث سارا ماحول خراب ہو گیا ہے۔ اس وقت لائبریریوں کی حالت بہت خراب ہے‘ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکر ہے۔ لائبریریوں کا قیام اور ان کی دیکھ بھال ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ ہر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کو اپنے حلقے میں لائبریری قائم کرنی چاہیے اس سے بھی ادبی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک میں آج بھی لائبریریوں اور کتابوں کی اہمیت قائم ہے۔ وہاں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع اور فروخت ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کتاب شائع کرانے والا شاعر اور ادیب لوگوں کو کتابیں مفت فراہم کرتا ہے۔ حکومت سندھ نے تیموریہ لائبریری ناظم آباد میں میوزیک اکیڈمی بھی قائم کر دی ہے جس سے لائبریری کا تشخص مجروح ہو رہا ہے ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔ آج کی تقریب قابل ستائش ہے‘ اس کا سہرا طارق جمیل اور ان کے رفقائے کار کو جاتا ہے۔ کراچی پریس کلب میں منعقدہ اس پروگرام میں تاج دار عادل اور فراست رضوی مہمان خصوصی تھے۔ شفیع اللہ اسماعیل نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر شہر کی جن علمی‘ ادبی‘ ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے موضوع پر اظہار خیال کیا ان میں علاء الدین خانزادہ‘ خالد میر‘ حامد الاسلام خان‘ افتخار احمد ملتانی‘ زاہد حسین جوہری‘ قمر محمد خان‘ انوار حسین‘ فہیم برنی‘ پروفیسر سہیل اختر‘ آفتاب احمد قریشی‘ ریحانی روحی‘ مسعود کاظمی‘ مجید رحمانی‘ عبدالباسط‘ نفیس احمد خان‘ اسلم فاروق‘ عادل خان کراچی والا‘ سہیل یعقوب اور سرور چوہان شامل تھے۔ میزبانِ تقریب طارق جمیل نے کہا کہ وہ تمام حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو کہ ہماری دعوت پر ایک نازک مسئلے پر جمع ہوئے اور پروگرام کی کامیابی میں اپنا حصہ شامل کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی لائبریری میں میوزیک اکیڈمی کا قیام ایک گہری سازش ہے اس بے ادبی کے خلاف ہم آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہم حکومتِ سندھ سے کہتے ہیں کہ تیموریہ لائبریری سے میوزک اکیڈمی ختم کی جائے ہماری ذمہ داری ہے کہ شعر و سخن کو پروان چڑھائیں‘ کتابوں کی حفاظت کریں‘ لائبریری کے قیام میں دل چسپی لیں اور ان کے مسائل حل کریں۔ علاء الدین خان زادہ نے کہا کہ لائبریریوں کی بقا ہماری ضرورت ہے نوجوان نسل اور بچوں کو کتابوں سے جوڑنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے یہاں کے عوام ادب پرور ہیں‘ وہ کتابوں کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ یہاں کے عوام لائبریریوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے حکومت کو آواز دے رہے ہیں۔ ریحانہ روحی نے کہا کہ لائبریریاں قوم کی زندگی میں اہم ہیں ہمارا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے پر راغب کریں۔ فراست رضوی نے کہا کہ ایک زمانہ وہ تھا جب ہر محلے میں لائبریریاں ہوتی تھیں اور ہم لوگ کرائے پر کتابیں پڑھتے تھے کراچی میں 1171ء لائبریریاں تھیں اب کتابوں کی دکانیں ختم ہو رہی ہیں اس کا سدباب ضروری ہے کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا جائے حکومتی سطح پر ادب کی ترقی کا کام ہونا چاہیے قلم کاروں کے مسائل بھی حل کیے جائیں اور لائبریریوں پر خصوصی توجہ دی جائے بجٹ میں لائبریریوں کے لیے رقم جائے اس موقع پر ایک قرارداد پیش کی گئی جس کے مطابق لائبریری سے میوزک اکیڈمی ختم کی جائے۔ تاج دار عادل نے کہا کہ ہمیں لائبریریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے قارئین کو بھی لانا ہوگا جب تک لائبریریاں ہیں ہمیں ادب کے لیے مواد ملتا رہے گا‘ لائبریریاں کسی بھی معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ جن معاشروں میں کتابیں ناپید ہیں وہ برباد ہو رہے ہیں۔
ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کراچی کی محفل مسالمہ
13 اگست 2023ء کو زاہد حسین جوہری کی رہائش گاہ پر زینۂ پاکستان کراچی کے زیر اہتمام محفل مسالمہ ترتیب دی گئی جس کی صدارت آصف عابدی نے کی۔ فراست رضوی مہمان خصوصی تھے۔ آصف رضا رضوی اور عقیل عباس جعفری مہمانان اعزازی تھے۔ صاحبزادہ عتیق الرحمن نے تلاوت کلام مجید اور نعت رسول کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ نظامتی فرائض بھی انجام دیے۔ اس مشاعرے میں آصف عابدی‘ فراست رضوی‘ آصف رضا رضوی‘ عقیل عباس جعفری‘ ساجد رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ اختر سعیدی‘ زاہد حسین جوہری‘ سلطان صدیقی‘ پروین حیدر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ افتخار حیدر‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ نسیم شیخ‘ مقبول زیدی‘ احمد سعید خان‘ تنویر سخن‘ دل شاد زیدی اور چاند علی نے حضرت امام حسین کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ زاہد حسین جوہری نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کربلا ایک مینارۂ نور ہے جس سے ظلمت کدے میں اجالا ہو رہا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حق و صداقت کا پرچم بلند کیا۔ یزیدی فوج نے حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقائے کار پر بہت ظلم کیا لیکن یزیدیت اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ آج بھی نامِ حسین زندہ ہے لیکن یزید کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔ ساجد رضوی نے کلماتِ تشکر میں کہا کہ ان کی تنظیم کی کراچی شاخ کا آج چوتھا مشاعرہ ہے وار ہم اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شعر و سخن کی ترقی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بہت جلد حیدرآباد میں ’’جشنِ سحر انصاری‘‘ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ آصف علی عابدی نے خطبۂ صدارت میں کہ اکہ ذکر حسینؓ بھی عین عبادت ہے‘ ہمارے رسولؐ نے حضرت امام حسینؓ کے بارے میں کہا ’’میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہیں‘‘۔ حضرت امام حسین جنتیوں کے سردار ہیں۔ ان تمام مشکلات و پریشانیوں میں آل رسول ثابت قدم رہے اور یزیدی بیعت نہیں کی کربلا ہمیں یہ سب دیتی ہے کہ حق کے لیے ہم اپنی جان بھی قربان کر دیں تاکہ اسلام کی عظمت و اہمیت میں اضافہ ہو۔ شہادت کا رتبہ حاصل کرنا ہر مسلمان کی تمنا ہوتی ہے کیوں کہ شہید کبھی مرتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک ہدایات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔