’’دیکھیں جی، ہمیں کچھ نہیں چاہیے، شریف لوگ ہوں، لڑکی پیاری سی ہو۔ باقی جہیز کے نام پہ کچھ نہیں، بس ہمارے بیٹے کو باہر بھیجنے کا انتظام کردیں۔‘‘ مسز رحمانی بے تاب ہوکر بولیں
’’مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔نوکری کا انتظام اور شفٹ کروائیں، یا اتنا پیسہ دیں کہ باہر شفٹ ہوسکے آپ کا بچہ۔‘‘ بیورو چیف مسز سجاد انہیں بغور دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’تقریباً دونوں‘‘وہ بے دھڑک بولیں۔ ’’دیکھیے میڈم! آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ پاکستانی روپیہ گرتا چلا جارہا ہے اور بے روزگاری الگ۔ ابھی کمپنی سے کتنے لوگ نکالے گئے۔ یہاں روزی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ ویسے چھ ماہ سے ایک سال میں میرا بیٹا بیوی کو وہیں بلا لے گا، فکر نہ کریں۔‘‘ وہ مفروضوں کی بنیاد پہ خواب دکھانے لگ گئیں۔
وہ انہیں راہ پہ لارہی تھیں ’’آپ بالکل اطمینان رکھیں جی۔‘‘ انہوں نے چائے کا کپ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’بس لڑکی شریف اور ذرا کم گو ہو، چپڑ چپڑ بولنا برا لگتا ہے ہمارے لوگوں میں۔‘‘ وہ اپنی مزید ڈیمانڈ پہ آگئیں جوکہ ہر ایک کی ہوتی ہے۔
رجسٹریشن فیس لینے کے بعدمسز سجاد نے دو لڑکیوں کی فوٹو اور پروفائل دیں کہ ان میں سے کس کے گھر چلیں گی؟
’’دیکھیں پہلی لڑکی ذرا موٹی ہے، یوسف زئی خاندان سے۔ دوسری یہ نازک سی سید گھرانے کی مناسب لگ رہی ہے، مجھے آپ ان لوگوں سے ملوا دیں۔‘‘
کچھ روز بعد متوسط علاقے میں واقع گھر میں سلیقے سے سجے ڈرائنگ روم میں مسز رحمانی اور مسزسجاد بیٹھی ہر چیز سے گویا گھر والوں کی چھان بین کررہی تھیں۔
لڑکی کی خالہ اور ماں سے رسمی تعارف ہوا۔ اتنے میں لڑکی جھجکتی ہوئی ٹرے اٹھائے داخل ہوئی۔ ساتھ بڑی بہن بھی تھی۔
مسز رحمانی کا ذہن خوش گوار تاثر کے ساتھ تانے بانے بُننے لگا۔ ’’کیا کیا بنا لیتی ہو بیٹا؟‘‘ ماں اور خالہ سے کچھ سوالات کرنے کے بعد وہ لڑکی سے مخاطب تھیں۔
’’جج …جی۔‘‘ ابھی لجاتے ہوئے اتنا ہی بولی تھی کہ بڑی بہن نے دہی بڑے اور شامی کباب لینے کو کہا ’’یہ افشاں نے بنائے ہیں، لیجیے۔‘‘
واقعی سب ڈشز لذیذ تھیں۔ دونوں فریق کو مسز سجاد نے صاف بتا دیا تھا کہ اپنی تسلی کے لیے چھان بین خود کرسکتے ہیں۔
مسز رحمانی نے گھر والوں اور بیٹے سے مشورہ کرکے ایک ہفتے میں جواب دینے کو کہا۔ دوسری طرف بھی اسی طرح کی بات تھی۔ اطمینان اور خوشی کا تاثر دونوں طرف تھا مگر…
’’جی مسز رحمانی! کیا سوچا آپ نے؟ گھروالوں سے بات ہوئی؟ کیا ارادے ہیں؟ پروپوزل دینا ہے؟ وہ لوگ آپ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر آپ کو تھوڑی بہت کمی سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا، باقی سب اچھا ہے۔‘‘
’’ہمیں لڑکی پسند تو آگئی مگر سمجھوتہ اور کیسی کمی؟‘‘ دوسری طرف مسز رحمانی تھیں۔
’’دیکھیں آپ کے بیٹے کو کمپنی سے نکالا گیا، وہ بے روزگار ہے، یہ بہت بڑی کمی ہے جس سے وہ سمجھوتہ کریں گے۔ اب اُن کی کمی پہ آپ بھی سمجھوتہ کریں۔‘‘ بات صاف صاف سامنے رکھ دی۔
’’آخر آپ کی ڈیمانڈ پوری ہورہی ہے۔‘‘
’’ان کی کیا کمی ہے؟ ابھی بتا دیں۔‘‘ مسز رحمانی انگوٹھی، زرتار دوپٹے، مٹھائی اور گجروں کے تانے بانے سے نکل کر بولیں۔
’’آپ نے کم گو کہا تھا نا، بس یہی کمی ہے۔ اور ویسے بھی ٹریفک دوطرفہ ہوتا ہے۔‘‘ مسزسجاد ان کو ذہنی طور پر تیار کررہی تھیں۔
’’کمی تو نہیں اچھی بات ہے یہ، اور یہ دوطرفہ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ وہ ابھی گومگو کی کیفیت میں تھیں۔
’’جی توسن لیں، لڑکی ذرا ہکلاتی ہے، یہ کمی ہے۔ باقی آپ کی ڈیمانڈ…‘‘
واقعی ڈیمانڈ اور کمی دونوں نرالے تھے۔
’’آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا مذاق ہے؟‘‘
وہ تیز لہجے میں جیسے پھٹ پڑیں ’’یہ اچھا کم گو ہونا ہے!‘‘
مسز رحمانی کے دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے۔
’’میں نے صاف بتادیا پہلے ہی، اگر آپ تیار نہیں ہیں تو اپنے بیٹے سے کہیں اپنے زورِ بازو پہ باہر جانے اور شادی کرنے کا انتظام کرے، یہاں بے روزگاروں کی ڈیمانڈ نہیں پوری ہوتی۔لوگ چپڑی بھی چاہتے ہیں اور دودو بھی۔‘‘ مسز سجاد نے غصے سے کہتے ہوئے لائن منقطع کردی۔